خامہ بگوش مدظلہ، نیو ایج اسلام
بہت ہی آغاز میں جب کہ میں آپ دوستو ں کے ساتھ آج کے، اپنی سمجھ کے مطابق، اہم موضوعات پر گفتگو کرنے جارہا ہوں اس بات کا مجھے ازحد اشتیاق ہے کہ کاش میں ایسے ماحول میں زندہ رہ سکوں جہاں ایک عام انسان دوسرے انسانوں کو اُن کے عقیدے سے قطع نظر انسان اور محض اپنے جیسے انسان کی نظر سے دیکھے اور جانے۔تمام مذاہب کے روحانی رہنما کہتے ایسا ہی ہیں لیکن عملی طور پر اس کا کوئی تصور آج موجود نہیں، جب کہ مذہب کی اساس (شریعت)کی اشاعت اورنفاذ کے حامی چاہے اس کے عملی نفاذ سے جس قدر بھی محروم ہوں لیکن اُن کی نظر میں دوسرے مذاہب اور مکاتب فکر کی رتی بھر حیثیت نہیں،صرف گمراہ اور بھٹکے ہوئے اور اگر کسی طور اُن کے تصور مذہب کی طرف مائل نہ ہوں تو پھر قابل قتال،راندہ درگاہ اورمحض کیڑے مکوڑے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔آپ کسی راسخ العقیدہ مسلمان،ہندو،سکھ،عیسائی حتی کہ اِن تمام مذاہب کے خود اقلیت قرار دہندہ ذیلی فرقوں کے اہل عقیدہ سے دریافت کرلیں،وہ جھٹ سے کہے گا،اُس کے سوا تمام گمراہ اور دوزخ کے راہی ہیں۔وہی ہے جس کو اس کائنات کے خالق نے سیدھے راستے کے لیے منتخب کیا اور بس فلاح اُسی کے مقدر میں لکھی جاچکی ہے۔جتنی سماجی پسماندگی اور گھٹن اس کے گردونواح میں موجود ہوگی اُتنا ہی وہ دوسروں کے لیے تنگ نظر ہوگا اور جس قدر وہ اپنے عقیدے کی جزئیات کا جاننے والا ہوگا دوسرے عقائد اس کی نظر میں اتنے ہی رذیل ہوں گے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار مجھے اسلام آباد سے پشاور جاتے ہوئے راستے میں آباد اکوڑہ خٹک نامی ایک شہر نما قصبے میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا۔میرے میزبان نے اصرار کیا کہ مجھے افغانستان کے حکمران طالبان (1996 ء کی بات ہے)کی کابینہ میں شامل زیادہ تر وزراء کے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کی سیر کو ضرور جانا چاہیے۔جب عظیم الشان مدرسے کے اندر داخل ہوا تو میرے میزبان کے جذبات دیدنی تھے۔اُنہوں نے بتایا کہ اس مدرسے کے مہتمم جناب مولانا سمیع الحق افغانستان کے حکمرانوں کے اُستاد ہیں اور اِن کے والد مولانا عبدالحق نے سابق وزیراعظم زوالفقار علی بھٹو کو انتخابات میں شکست دی تھی۔مولونا سمیع الحق سے تو میں واقف تھا اور ایک بار جب میں عملی صحافی تھا اِن سے مل بھی چکا تھا۔میں نے اپنے میزبان سے کہا کہ اگر ممکن ہو سکے تو مولانا کی قدم بوسی کرلینا چاہے۔وہ رضامند ہو گئے اور تھوڑی دیر میں ہم مہتمم مدرسہ کے دفتر کے ساتھ بنے مہمان خانے میں ملاقاتیوں کے ساتھ بیٹھے اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔
ہم نہایت مودب بیٹھے مولانا سمیع الحق کی ایمان افروز گفتگو سے مستفید ہورہے تھے،اسی دوران میرا میزبان مولانا کے ساتھ وعدہ کرچکا تھا کہ وہ اپنے منجھلے بیٹے کو دینی تعلیم کے لیے دارلعلوم حقانیہ میں بھیجے گا ساتھ ہی اُس نے یہ بھی وعدہ کرلیا کہ وہ جب تک زندہ ہے چندے کی ایک مخصوص مقدار ہر ماہ دارلعلوم کو بھیجتا رہے گا۔میرے لیے تو شاید یہ دورہ کچھ معلوماتی اور کسی حد تک مفید رہا ہو لیکن میرے میزبان نے نہ صرف اپنے بیٹے کی قسمت بدل دینے والا فیصلہ کیا بلکہ تاحیات مدرسے کی مالی امداد کا بار بھی اُٹھا لیا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گذشتہ برس میں پشاور میں تھا اور میری خواہش پر میرے اکوڑہ خٹک والے دین دار دوست مجھے ملنے پشاورآئے۔دوران گفتگو میں نے اُن سے اُن کے منجھلے بیٹے اور ماہوار چندے کی بابت دریافت کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ بیٹا تو تعلیم مکمل کرنے کے بعد حکیم اللہ محسود کے طالبان گروپ میں مصروف جہاد ہے اور ماہوار چندے کا سلسلہ اُنہوں نے جب سے بیٹا طالبان کے ساتھ شامل ہوا ہے روک دیا ہے۔مجھے ایسا لگا جیسے اس سے زیادہ وہ مجھے کچھ نہیں بتانا چاہتے۔
مولانا سمیع الحق جو اس وقت ستر کے پیٹے میں تھے،اُن کا دعویٰ تھا کہ طالبان انشاء اللہ پوری دنیا کو فتح کرلیں گے اوراگر کبھی امریکہ کے ساتھ بھی جنگ ہوئی تو امریکہ کو شکست دینا روس کو شکست دینے سے زیادہ آسان ہوگا۔اُنہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے تو بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجائی جائے گی اور انشاء اللہ ملا عمر لال قلعہ میں بیٹھ کر نفاذ شریعت کا حکم جاری کریں گے۔میرے اس سوال پر کہ ہندوؤں کی اتنی بڑی تعداد کا کیا بنے گا؟ مولانا نے بتایا کہ ہندو پہلے بھی مسلمان فاتحین کے ہاتھوں عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئے اُن کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔وہ آسانی سے اسلام قبول کرلیں گے یا دوسرے درجے کے شہری(ذمی) بن کر جزیہ دیں گے۔البتہ ہندو انتہا پسند اور اسلام دشمن تنظیموں اور اُن کے لیڈروں کے لیے کوئی معافی نہیں ہوگی۔جیسے نجیب اللہ کو سرعام پھانسی دی گئی یہاں بھی ایسی پھانسیاں دی جائیں گی۔اس کے بعد چین کو دعوت اسلام دی جائے گی اور شیعہ ایران کو بھی حکم دیا جائے گا کہ اسلام قبول کرو نہیں تو مرنے اور جزیہ دینے کے لیے تیار ہوجاو۔ہم چھ سات ملاقاتی مولانا سمیع الحق کی ’’ایمان پرور‘‘ گفتگو سنتے رہے اوروہ ہمارے سامنے ساری دنیا کو فتح کرنے کے بعد یہودی کمپنی کا بنا کوکا کولا پینے کے لیے رک گئے۔گلاس فتح کرنے کے بعد مولانا کے پاس فتح کرنے کو کچھ نہیں بچا تھا اور ہم اس سے زیادہ اور کیا سن سکتے تھے۔
میں خود کو مفتوع،مفلوج اور بہت حد تک اسلامی فوج کا ممکنہ نشانہ یا طویل المدت قیدی محسوس کررہا تھا لیکن بہرحال کچھ سوالات ضرور میرے دماغ میں گردش کررہے تھے۔میں سوچ رہا تھا مسلمان کی تعلیم و تربیت میں کہاں ایسا سقم رہ جاتا ہے کہ وہ حقائق کو سرے سے رد کردیتا ہے؟بیرونی دنیا کے بارے میں ایک زبردست مسلمان کے خیالات اس قدر فرسودہ کیوں ہیں؟ حنفی دیوبندی مکتبہ فکر کے حامل طالبان جہادی ،پاکستان اور بھارت کے بریلوی،اہل حدیث اور شیعہ مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟پاک بھارت میں تمام سکول بند ہوجائیں گے؟ لوگ صرف شلوار قمیض پہنیں گے اور لمبی ڈاڑھی رکھیں گے بصورت دیگر اِنہیں سڑکوں پر لٹا کر مارا جائے گا۔عورتیں تمبو برقع پہنیں گی اور ہمیشہ محرم کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں گی۔سرعام پھانسیا ں ہو ں گی اور غیر مسلموں کے بارے میں تو بس اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے کہ اُن میں سے جو بچ گئے وہ کہاں جائیں گے؟اسلام جدید دنیا کے ساتھ چلنے سے کیوں قاصر ہے اور وہ اسلام جس کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ غالب آکر رہے گا، کیا غالب آنے سے پہلے اس دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجائی جائے گی ؟
خامہ بگوش مدظلہ۔تعارف
ایک متذبذب مسلمان جو یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مسلمان کی اصل تعریف کیا ہے۔کیا مسلمان واقعی سلامتی کا داعی ہے یا اپنے ہی ہم مذہبوں کی سلامتی کا دشمن؟اسلام کی مبادیات،تاریخ،تہذیب اور تصور عالم کیا ہے اور کیوں آج مسلمان نہ صرف تمام مذاہب بلکہ تہذیبوں کے ساتھ بھی گتھم گتھا ہیں؟کیا اسلام غالب آنے کو ہے یا اپنے ہی پیروکاروں کے ہاتھوں مغلوب ہوچکا ہے؟میں اِنہی موضوعات کا طالب علم ہوں اور نیو ایج اسلام کے صفحات پر آپ دوستوں کے ساتھ تبادلہ خیال کی کوشش کروں گا۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/taliban-leader’s-pipedream-‘we-conquer/d/10836