New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 02:28 AM

Urdu Section ( 27 May 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Salafi Wave in South Asia – Part 6 جنوبی ایشیاء میں پھیلتی ہوئی سلفیت ۔ قسط۔6


 

خامہ بگوش مدظلہ،  نیو ایج اسلام

28 مئی ، 2013

پاکستان کی فوج میں بڑھتے ہوئے سلفی انتہا پسندوں کے غلبے کے بارے میں اگرچہ بعض غیر ملکی صحافیوں اور تجزہ نگاروں کی لکھی ہوئی کتب میں کچھ مثالیں مل جاتی ہیں لیکن خود پاکستانی مصنفین نے اپنے اوپر لاگو کردہ سنسر شپ کی وجہ سے اس موضوع پر لکھنے سے اجتناب برتا ہے۔اس کی وجہ سادہ اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی ’’اوکھلی میں سر نہیں دینا چاہتا‘‘ کیوں کہ اس صورت میں اُس کا حتمی نقصان ناگزیر ہے۔سلیم شہزاد جو بہت عرصہ تک افغانستان اور کشمیر میں جاری جہادی کارروائیوں اور اُن میں ملوث ریاستی وغیر ریاستی عناصر کے بارے میں لکھتے رہے اُنہیں اپنے لکھے پر دھمکیاں تو شاید ملی ہوں لیکن اِن کی زندگی محفوظ رہی۔ جیسے ہی قسمت نے پانسہ پلٹا اور سلیم شہزاد نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نیوی کے مرکز مہران بیس پر ہوئے دہشت گرد حملے اور اس کے اسباب کے بارے میں لکھا، سلیم شہزاد کا موت نے تعاقب شروع کردیا۔آئی ایس آئی کے مرکزی دفتر سے احمد شجاع پاشا کی طرف سے سلیم شہزاد کو سبق سکھانے کے لیے باقاعدہ حکم نامہ جاری ہوا، جسے شجاع پاشا کے دست راست کرنل خالد راجہ نے سلیم شہزاد کے قتل کی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔ بعد میں معلوم ہوا سلیم شہزاد کی صرف ہڈیاں توڑنے کی حد تک یہ حکم نامہ تھا لیکن بیچارہ سلیم شہزاد ہڈیاں ٹوٹنے کی تکلیف برداشت نہ کرسکا اور اسلام آباد کے نواح میں قائم آئی ایس آئی کے ٹارچر سیل میں انتقال کرگیا۔ بعد میں خالد راجہ اور اس کے ساتھیوں نے منڈی بہاوالدین میں ایک ویران مقام پر سلیم شہزاد کا مردہ جسم پھینک دیا اور یوں کہانی انجام کو پہنچی۔ سلیم شہزاد کے قاتل کرنل خالد راجہ نے احمد شجاع پاشا کا پورا پورا ساتھ دیا اور یہاں تک ساتھ دینے کی مثال قائم کی کہ بلیک کے پیسے کو دبئی منتقل کیا اور احمد شجاع پاشا کے لیے اِن کی ایک قریبی عزیزہ کے نام سے ایک مقامی عرب کے ساتھ مل کر ہسپتال کھول لیا اور یوں سوائے سلیم شہزاد کے سب کامیاب اور محفوظ ٹھہرے۔بعد میں سلیم شہزاد قتل کیس کی رپورٹ کو جاری کرنے سے قبل اس قسم کی ترامیم کی گئیں کہ پڑھنے والا کوشش کے باوجود کچھ بھی اخذ نہیں کرپاتا۔

سلیم شہزاد کی اصل غلطی کراچی میں القاعدہ اور نیوی کے درمیان جاری ’’مذاکرات‘‘ کا راز افشاء کرنا تھی۔القاعدہ الیاس کشمیری کی سربراہی میں قائم مذاکراتی ٹیم کے ذریعے نیوی کے اعلیٰ حکام کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھی کیوں کہ القاعدہ نیوی کے ایسے سترہ ملازمین کی رہائی کا مطالبہ کررہی تھی جنہیں خفیہ اداروں نے اس کے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر ملازمت سے ہٹا کر جیل میں ڈال دیا تھا۔القاعدہ اِن کی رہائی کا مطالبہ کررہی تھی لیکن نیوی کے حکام اس سلسلے میں کسی مطالبے کو تسلیم نہیں کررہے تھے۔جب معاملہ نزاعی صورت حال اختیار کرگیا توالقاعدہ نے مہران بیس پر حملہ کردیا اور پاکستان کی دفاعی قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔سلیم شہزاد نے القاعدہ کے نیوی میں موجود ساتھیوں اور پاکستانی فورسز میں انتہا پسندوں کی رسائی کے حوالے سے چشم کشا انکشافات کیے اور اپنی موت کے پروانے پر دستخط کردئیے۔بنیادی طور پر سلیم شہزاد کی تحقیقاتی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی افواج میں انتہا پسندوں کو کس قدر غلبہ حاصل ہے اور پاکستان کے افغانستان اور کشمیر میں جہادی تنظیموں کے ساتھ تعلقات ریاست کے لیے کس قسم کے خطرات کا موجب بنے ہیں۔

پاکستان میں سب سے پہلے فوج کی اسلامائزیشن کا باقاعدہ آغاز ضیاء الحق کے دور میں ہوا جب ضیاء الحق نے ملک بھر کے مذہبی مدارس کے فارغ التحصیل نوجوانوں کی اسناد کو سرکاری یونیورسٹیوں کی اسناد کے مساوی قرار دیدیا۔ پہلے ہی وار میں ہزاروں کی تعداد میں اِن طلباء کو فوج میں نان کمیشنڈ آفیسر کے طور پر امام اور خطیب بھرتی کیا گیا۔چوں کہ پاکستان میں دیوبندی مکاتب فکر کے حامل مذہبی مدارس کی باقاعدہ تنظیم وفاق المدارس کے نام سے موجود تھی اس لیے شروع کی کھیپ میں اس تنظیم سے منسلک مدارس کے طلبہ کو فوج میں بھرتی کیا گیا اور اِن کے ذریعے فوج کے اندر ایک مخصوص مکتبہ فکر کی ترویج کا کام شروع ہوا۔فوج کے ماٹو میں ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا نعرہ شامل ہوا، اور ایک ایسی فوج جو پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تین جنگیں لڑچکی تھی جن میں اس کو بڑے حجم اور زیادہ وسائل کی حامل بھارتی فوج سے ہزیمت بھی اُٹھانا پڑی تھی، ایک پیشہ ور فوج کی بجائے جہادی فوج میں ڈھلنے لگی۔پڑوسی ملک افغانستان میں جہاد کا شور بلند ہوچکا تھا اور پاکستان میں مہم جو فوجی ڈکٹیٹر نے اس جہادی ماحول میں پاکستان کی سیکولر بنیادوں پر تربیت حاصل کرنے والی فوج کو جھونک دیا۔

اگر پرویز مشرف فوج کے اندر بڑھتی ہوئی شدت پسندوں کی تعداد اور اپنے اوپر ہونے والے خودکش حملوں سے پریشان تھے تو اِن کے پیش رو جنرل کیانی بھی اِسی پریشانی کے خدوخال کے ساتھ افواج پاکستان کے سربراہ بنے۔شروع میں فوجی سربراہوں اور دوسری اعلیٰ قیادت کو فوج کے اندر پروان چڑھنے والے غصے کی وجوہات میں سے امریکی حمایت سر فہرست نظر آتی تھی اور پرویز مشرف جس کو پاکستان کی تمام جہادی تنظیموں نے کارگل کی مہم جوئی کے دوران زبردست خراج تحسین پیش کیا تھا، گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد جہادیوں کی نظر میں معتوب ٹھہرے اور پھر صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ پوری فوج کے بارے میں انتہا پسندوں کا نقطہ نظر بدلنے لگا، فوج کے اعلیٰ عہدیداروں اور عام فوجی اہلکاروں پر حملے شروع ہوئے۔فوج پر منصوبہ بندی کے ساتھ کیے جانے والے حملوں میں سب سے اہم اور کامیاب حملہ منگلہ ڈیم کے قریب واقع ایک فوجی میس پر حملہ تھا ،اگرچہ مہران بیس اور کامرہ بیس پر ہوئے حملوں میں پاکستانی فوج کو ناقابل تلافی نقصان اُٹھانا پڑا، لیکن منگلہ میس حملہ اس لیے بہت تباہ کن اور قابل تشویش تھا کہ اس میں درجن سے زائد اعلیٰ ترین تربیت یافتہ فوجی کمانڈوز کی بڑی تعداد کو نشانہ بنایا گیا اور خاص طور پر ایسے گروپ کو نشانہ بنایا گیا جو اسلام آباد کی لال مسجد میں آپریشن میں استعمال ہوا تھا۔خودکش بمبار اِسی گروپ کا حصہ تھا اور اعلیٰ آفیسر تھا۔اس کے بعد جنرل رینک اور بریگیڈئر عہدے کے لوگ بھی نشانہ بنے اور ایک ایسا وقت بھی آیا کہ فوجی عہدیداروں کو وردی میں چھاونیوں سے باہر جانے سے روک دیا گیا تاکہ شدت پسندوں کا نشانہ نہ بن سکیں۔

پاکستان میں طالبانائزیشن اور القاعدہ پر لکھنے والوں کے ہاں اس طرح کے اعداوشمار نہیں ملتے کہ کتنے حاضر سروس فوجیوں نے شدت پسندی کا راستہ اختیار کیا اور ملازمت چھوڑ کر شدت پسندوں کے ساتھ جا ملے۔اس کی وجہ فوج کی طرف سے ایسے معاملات کو انتہائی خفیہ رکھنے کی حکمت عملی ہے۔پچھلے دنوں عدنان رشید کا ایک انٹرویو القاعدہ و طالبان کے ترجمان مجلے میں شائع ہوا جس میں عدنان رشید نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ کس طرح پاکستانی افواج خصوصاً ائر فورس کے اندر القاعدہ کے حامی افراد اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور کس طرح اُنہیں بعض اعلیٰ افسران جہادی تربیت کے لیے قواعد سے ہٹ کر سہولیات فراہم کرتے رہے۔پاکستانی افواج میں سلفیت کے اس شدت کے ساتھ بڑھتے ہوئے رحجان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فوجی ترجمان مجلے ’’ہلال‘‘ میں ایسے لوگوں کی تحریریں شائع کی جاتی ہیں جو اُصولی طور پر فوج کا پیشہ وارانہ معیار بلند کرنے کی بجائے فوجیوں کی اس حوالے سے ذہن سازی کرتا ہے کہ کس طرح بھارت کے ہندو اور دنیا بھر کے یہودیوں اور نصرانیوں کو ہم نے جہاد کے ذریعے تباہ و برباد کرنا ہے جو پاکستان کو ایک اسلامی ایٹمی طاقت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے۔یہی نقطہ نظر انتہا پسندوں کا بھی ہے لیکن وہ کسی طور پر بھی ریاستی افواج کا درجہ نہیں رکھتے۔ماہنامہ ہلال پاکستان کی ایٹمی طاقت اور اسلامی شناخت کے حوالے سے اس قدر حساس ہے کہ بعض اوقات کسی جہادی مجلے اور پاک فوج کے مجلے میں رتی برابر فرق نظر نہیں آتا اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دونوں جرائد ایک ہی قلم اور ذہن کی پیداوار ہیں۔ایسی بہت سی اطلاعات عام گردش کرتی رہتی ہیں کہ لشکر طیبہ ، جیش محمد اور حزب المجاہدین کے جہادیوں کی تربیت کا تمام کام فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ کمانڈوز کی زیرنگرانی جاری رہتا ہے اور سرحد پار کرنے کے لیے خصوصی طور پر تیار کیے گئے جہادیوں کو مطلوبہ اہداف کی مکمل جانکاری اِنہی افراد سے حاصل ہوتی ہے۔        (جاری ہے)

خامہ بگوش مدظلہ۔تعارف

ایک متذبذب مسلمان جو یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مسلمان کی اصل تعریف کیا ہے۔کیا مسلمان واقعی سلامتی کا داعی ہے یا اپنے ہی ہم مذہبوں کی سلامتی کا دشمن؟اسلام کی مبادیات،تاریخ،تہذیب اور تصور عالم کیا ہے اور کیوں آج مسلمان نہ صرف تمام مذاہب بلکہ تہذیبوں کے ساتھ بھی گتھم گتھا ہیں؟کیا اسلام غالب آنے کو ہے یا اپنے ہی پیروکاروں کے ہاتھوں مغلوب ہوچکا ہے؟میں اِنہی موضوعات کا طالب علم ہوں اور نیو ایج اسلام کے صفحات پر آپ دوستوں کے ساتھ تبادلہ خیال کی کوشش کروں گا۔

URL for English article:

https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/the-salafi-wave-south-asia–6/d/11762

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/the-salafi-wave-south-asia-6/d/11768

Loading..

Loading..