New Age Islam
Tue Dec 03 2024, 11:10 AM

Urdu Section ( 25 March 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Does Islam Promote Violence? کیا اسلام قتل وغارت کی ترغیب دیتا ہے؟


  

خامہ بگوش مدظلہ، نیو ایج اسلام

25 مارچ ، 2013

عباس ٹاون کراچی میں ہوئے بم دھماکے میں بچوں کے مارے جانے کے بعد پاکستان کے متشدد فرقہ پرستوں اوراِن کے حامیوں نے یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ دشمن کا بچہ ایسا ہی ہے جیسے سانپ کا بچہ، جو اگرچہ بچہ ہوتا ہے لیکن اس کو مارنا جائز ہے۔سوشل میڈیاپر تلوار بکف متشدد جہادی اس بات پر مُصر ہیں کہ اہل تشیع کے بچوں کو مارنا نہ صرف جائز ہے بلکہ کار ثواب بھی ہے۔بچوں کو قتل کرنے کے حامی اپنے دعوے کی دلیل میں حضرت خضر سے منسوب ایک روایت کا سہارا لیتے ہیں کہ اُنہوں نے ایک بچے کے قتل کی اجازت دیدی تھی جس کے مستقبل کے بار ے میں وہ جانتے تھے کہ وہ بڑا ہوکر کافر اور ظالم واقع ہوگا حتی کہ اس بچے کے والدین نہایت دین دار تھے۔کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے معروف مذہبی سکالر اور پاکستان میں خلافت کی تحریک کے بانی ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے فتوی صادر کیا تھا کہ احمدی(قادیانیوں) کے بارے میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے تکفیر کا جو فیصلہ دیا تھا وہ ادھورا فیصلہ تھا۔اس فیصلے میں احمدیوں کو کافر قرار دے دیا گیا تھا۔ڈاکٹر اسرار احمد کے بقول یہ فیصلہ اس لیے ادھورا تھا کہ اس میں صرف احمدیوں کو کافر قرار دیا گیا بلکہ احمدی صرف کافر ہی نہیں مرتد بھی ہیں اور مرتد کی سزا اسلام میں قتل ہے۔ڈاکٹر اسرار احمد نے واضح طور پر پاکستان کے ٹیلی ویژن پر کہا کہ احمدیوں کا قتل واجب ہے ۔انیس سو چوہتر کا قومی اسمبلی کا فیصلہ ادھورا ہے اس کو مکمل اسی صورت میں کیا جاسکتا ہے کہ تمام مرتدین کو قتل کردیا جائے۔پورے ملک میں ایک بھی آواز ڈاکٹر اسرار کی یاوہ گوئی کی مذمت میں نہ اُٹھی اور نہ ہی آج طالبان اورلشکر جھنگوی اور اس قبیل کی تنظیموں کے اِن حامیوں کی مذمت کرنے والا کوئی موجود ہے۔ اگرچہ پیغمبر اسلام نے کئی غزوات اور معرکوں میں خصوصی ہدایت جاری کی کہ وہ بچوں، عورتوں اور ضعیفوں پر ہاتھ نہ اُٹھائیں لیکن بعض روایات میں رسول اللہ کی طرف سے مشروط اجازت بھی مل جاتی ہے، جیسے مسلم شریف کے باب کتاب الجہاد کی حدیث نمبر4457 میں ہے کہ اُن بچوں کو نہ مارا جائے جن کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ بڑے ہوکر کیا بنیں گے۔لیکن ایسی روایات بھی مل جاتی ہیں کہ شب خون کے دوران عورتوں اور بچوں کو مارا جاسکتا ہے۔اسلام کی تاریخ خصوصاً فتح مکہ کے بعد،میں اس حوالے سے بہت زیادہ متضاد مواد ملتا ہے کہیں اس طرح کے قتل سے منع کیا گیا ہے اور کہیں اس کی اجازت بھی دی گئی ہے۔

فتح مکہ کے بعد کعب بن اشرف اور خصوصاً اُم قرفہ جیسی ضعیف اور معزز عورت کا بہیمانہ قتل اس بات کی واضح دلیل ہے اسلام کے غلبے کے ساتھ ہی ایسے پرانے مخالفین کو قتل کیا گیا جنہوں نے کسی وقت میں رسول اللہ کے پیغام کی مخالفت کی تھی۔ فتح مکہ کے بعد بعض ایسے افراد کو بھی قتل کیا گیا جن کو قتل کرنے کی اجازت رسول اللہ نے خود دی تھی۔اُم قرفہ کی دونوں ٹانگیں دو اونٹ جو مخالف سمتوں میں دوڑائے گئے تھے اُن کی مدد سے چیر دی گئیں۔لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ کعب بن اشرف اور اُم قرفہ سے کہیں زیادہ اسلام دشمنوں اور ایسے افراد کو نہ صرف معاف کردیا گیا بلکہ اِنہیں نئی ریاست میں احترام بھی حاصل ہوا، جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی دشمنی میں گزار دی تھی۔بعد میں زمانے نے دیکھا کہ صحابہ میں سے بعض نے اس دور کے مسلمانوں کو قتل کیا۔مالک بن نویرہ کا قتل اس کی واضح ترین مثال ہے جس کو حضرت خالد بن ولید نے نہ صرف قتل کیا بلکہ بغیر عدت پوری کیے اس کی بیوہ کے ساتھ فوری شادی بھی کرلی۔اسلام کی تاریخ میں قتل وغارت لازم و ملزوم کی سی حیثیت رکھتا ہے اور رسول اللہ کے وصال کے فوری بعد صحابہ اکرام کی صفوں میں انتشار پیدا ہوگیا اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ نہ صرف بزرگ صحابہ کو قتل کردیا گیا بلکہ خانہ کعبہ تک کے احترام کو بھی زک پہنچائی گئی۔خلیفہ چہارم حضرت علی اور امیر شام معاویہ بن سفیان کے درمیان ہونے والی خونی جنگوں میں صحابہ اکرام کی ایک بڑی تعداد قتل ہوئی اس سے پہلے رسول اللہ کی زوجہ حضرت عائشہ اور داماد حضرت علی کے درمیان بپا ہونے والی جنگ جمل میں صحابہ کی بڑی تعداد ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہوئی۔اس کے بعد بنو اُمیہ اور بنو عباس نے مسلمانوں کے خون سے خوب ہاتھ رنگے اور یہ سلسلہ آج تک پوری قوت کے ساتھ جاری و ساری ہے۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو بلاوجہ قتل نہیں کرسکتا ،وہ اسلام کی تاریخ اُٹھا کر دیکھیں کہ جتنے خضوع و خشوع کے ساتھ ایک زبردست مسلمان نے دوسرے زبردست مسلمان کو قتل کیا ہے کسی غیر مذہب والے نے ایسا نہیں کیا۔سینکڑوں ایسی کتب آج موجود ہیں جن میں ایک مسلمان مسلک یا فرقے نے دوسرے مسلمان فرقے یا مسلک کے بارے میں اپنی بیزاری کا اظہار کیا ہے اور ایک دوسرے کے خون کو مباح قرار دیا ہے۔جب مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کرنے سے نہیں کتراتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کہ ایک زبردست مسلمان کسی مذہب سے تعلق رکھنے والے کے لیے رحم کا کوئی جذبہ اپنے دل میں رکھے؟

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج اسلام کے مختلف مکاتب فکر میں جاری خونی جنگ کے لیے جواز اسلام کے دامن سے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کا موقف اس حوالے سے بہت صاف ہے کہ چوں کہ اہل تشیع اصحاب رسول اور ازواج رسول کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں اس لیے ان کو جان سے مارنا جائز اور باعث ثواب ہے۔دوسری طرف طالبان جو اسلام کے لیے اپنا اور دوسروں کا خون بہا رہے ہیں وہ واضح طور پر تمام ایسے افراد کی جان اور مال کو مباح قرار دیتے ہیں جو مسلمان نہیں اور اگر مسلمان ہیں تو طالبان جیسے عقائد کے حامل نہیں۔سوات سے لے کر کراچی تک سینکڑوں ایسے مسلمانوں کو طالبان نے قتل کیا ہے جو اُن جیسے عقائد نہیں رکھتے تھے اور آج بھی وہ ایسے مسلمانوں کو مسلمان نہیں مانتے اور اُن کے قتل پر مُصر ہیں۔

یہ ثابت کرنا بہت آسان ہے کہ اسلام کے دامن میں قتل وغارت گری کی نہ صرف لاکھوں مثالیں موجود ہیں بلکہ لاتعداد ایسی ترغیبات بھی واضح طور پر موجود ہیں جن کا مطمع نظر غیر مسلموں اور بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو جان سے ماردینا ہے۔مسلمانوں کے قتل کو جائز قرار دینے کے لیے ارتداد کا جواز تیار کیا گیا جب کہ غیر مسلموں کے لیے کسی جواز کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔پاکستان کی فرقہ وارانہ تنظیموں نے قتل و غارت کا آغاز بھارتی شہر لکھنوء کے دیوبندی عالم دین مولانا منظور احمد نعمانی کے فتوی کی اشاعت کے بعد کیا جو ایک کتاب کی صورت میں کراچی سے شائع ہوا۔جس میں شیعہ کے ارتداد کو ثابت کیا گیا تھا۔مولانا منظور احمد نعمانی نے یرانی انقلاب کے لیڈر آیت اللہ خمینی کو کافر قرار دیا اور پھر اہل تشیع کے ارتداد کو ثابت کرنے کے بعد اِن کی قتل کی راہ ہموار کردی۔ایسا ہی فتوی ایک دوسرے دیوبندی عالم ڈاکٹر اسرار نے جاری کیا جس میں پاکستان کے احمدیوں کے کفر کے فیصلے کو ادھورا قرار دیا گیا تھا اور اس کا مکمل ہونا اس بات سے مشروط تھا کہ چونکہ احمدی مرتد ہوچکے ہیں اس لیے اِن کا قتل جائز ہے،اور اسلام میں ارتداد کی سزا صرف قتل ہے۔دونوں اصحاب فتوی کے پاس جواز اسلام کی تاریخ اور حدیث کے مجموعوں کا فراہم کردہ تھا اور اُنہوں نے وہی کہا جو اسلام کی منشاء ہے۔

خامہ بگوش مدظلہ۔تعارف

ایک متذبذب مسلمان جو یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مسلمان کی اصل تعریف کیا ہے۔کیا مسلمان واقعی سلامتی کا داعی ہے یا اپنے ہی ہم مذہبوں کی سلامتی کا دشمن؟اسلام کی مبادیات،تاریخ،تہذیب اور تصور عالم کیا ہے اور کیوں آج مسلمان نہ صرف تمام مذاہب بلکہ تہذیبوں کے ساتھ بھی گتھم گتھا ہیں؟کیا اسلام غالب آنے کو ہے یا اپنے ہی پیروکاروں کے ہاتھوں مغلوب ہوچکا ہے؟میں اِنہی موضوعات کا طالب علم ہوں اور نیو ایج اسلام کے صفحات پر آپ دوستوں کے ساتھ تبادلہ خیال کی کوشش کروں گا۔

URL for English article:

https://newageislam.com/debating-islam/islam-promote-violence/d/10881

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/islam-promote-violence-/d/10882

 

Loading..

Loading..