خامہ بگوش مدظلہ، نیو ایج اسلام
18 فروری، 2015
خامہ بگوش کی طویل غیر حاضری کی وجہ یہ نہیں کہ لکھنے کو کچھ خاص نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ بالکل نئے رحجانات کو ہضم کرنا تھا کیوں کہ معدہ پہلے ہی صدیوں سے جمی انتہا پسندی اور مارا ماری کی عین مذہبی تلچھٹ کی کڑواہٹ سے مضمحل تھا اورکوشش میں تھا کہ کہیں سے نئے باہمی صلح نامہ کی اُمید اُبھرے اور انسان محض اس لیے نہ مارے جائیں کہ اُن کا عقیدہ اورمتبرک شخصیات ہمارے جیسی نہیں ،اس لیے اِن کا مارنا جائز بلکہ کار ثواب ہے۔
لیکن افسوس صد افسوس پہلے محض کڑواہٹ آمیز تلچھٹ تھی اب اس کی تہہ پر لوہے کی کڑاو چڑھی چادر تن گئی جس کے سوراخوں میں سے کرہ ارض پر انسانوں کا بہایا جانے والا خون رستا رہتا ہے اور سنا ہے اس کو نئی طب مذہبی میں اللہ کے نام پر ذبح کرنا کہا جاتا ہے۔اللہ روز کتنے مذبح خانے دیکھتا ہے اور طبیعت حیران ہے کہ اللہ خون کی بساند سے اُوبھتا ہی نہیں،قربانی اس کے لیے، ایثار اس کے لیے،جہاد اس کے لیے،تکالیف اس کے لیے،مصائب اس کے لیے ،ہجرت اس کے لیے،نفرت اس کے لیے،کیا انسانوں کے لیے بھی کوئی جذبہ باقی رہتا ہے؟میرا خیال ہے انسانوں کے لیے محض ہتھیار باقی رہتے ہیں، جن سے اُن کی گردن کو عین اسلامی انداز میں کاٹا جاتا ہے،کلاشنکوف شریف موجود رہتی ہے جس کی نوک سے بقول حافظ محمد سعید لشکر طیبہ والے’’گولی اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر ملیچھ کافر کے گندے وجود میں گھس جاتی ہے اور اس کو اللہ یاد دلوا دیتی ہے‘‘مرنے والا اگر تکلیف کی اتھاہ گہرائی میں بھی اپنی ناپاک زبان سے اللہ کا لفظ نہ نکالے تو یہ گولی کی برکت ہے کہ اس کے لواحقین یہ ضرور کہتے ہیں کہ ’’اس کا قتل اللہ والوں کے ہاتھوں ہوا ہے‘‘اللہ اللہ کیا شان ہے جہادیوں کی اللہ کے نام پر مارتے ہیں اور مرنے والے کو اللہ ہی یاد دلانا چاہتے ہیں۔اللہ والوں کی اللہ ہی جانے۔
فخریہ طور پر خود قرار دئیے گئے مضبوط ایٹمی قلعے پاکستان میں اب قرعہ قتل ایسے لوگوں کے نام نکلا ہے جنہیں نفرت اور حقارت کی زبان میں رافضی کہا جاتا ہے۔رفض پھر جانے والا کے مفہوم میں استعمال ہونے والا ایک عربی لفظ ہے۔موجودہ روافض جو اگرچہ اپنے اصل اسلامی عقائد سے پھر چکے تھے اور اب اِن کی واپسی کی چوں کہ کوئی گنجائش نہیں اس لیے اِن کی روحوں کو اِن کے اجسام سے کھنچ کر نکالا جاتا ہے اور واپس پھیر دیا جاتا ہے اللہ کی طرف۔جنہیں مروجہ مسلکی حقارت کی ملمع شدہ زبان سے کماحقہ آشنائی نہیں اِن کے لیے ایسے لوگوں کی پہچان شیعہ ہے۔ لہذا قلعہ اسلامی کی فصیلوں کے اندر بسے شیعہ حضرات کو اِن کے آباو اجداد کی طرف سے سے ودیعت کردہ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر قتل وغارت گری کا سیدھا سامنا ہے۔اِن کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ یہ لوگ دل سے مسلمان نہیں اور اسلام کو محض سہارے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور تقیہ اِن کی اس خوفناک چال کا نام ہے۔یہ اسلام کی مقدس چاردیواری میں نقب لگانا چاہتے ہیں بلکہ لگا چکے ہیں اور اِن کے عقائد کی رو سے دوسرے عام مسلمان حقیقی مسلمان نہیں۔ عرف عام میں کسی اچھے اور پکے مسلمان کو مسلمان نہ سمجھنا ہی اس قدر خوفناک جرم ہے کہ اس کی سزا پاکستان میں طالبانی اسلام کی رو سے موت قرار دی گئی ہے۔ پہلے اِنہیں کسی دن کی مناسبت سے یا اِن کے مخصوص ایام نوحہ گری کے دوران قتل کرنے کی روایت تھی لیکن اب اِنہیں عام دنوں میں بھی اجتماعی طور پر صفحہ ہستی سے مٹانے کا کام جاری ہے تاکہ اُمت مسلمہ کی تطہیر کی جاسکے۔اپنی تاریخ کے اولین ایام سے ہی اُمت تطہیر کی متلاشی ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ اُمت نے اذہان کی تطہیر کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں کیا لیکن اجسام کی تطہیر اور خاص طور پر عقیدے کے اعتبار سے الگ اور خطرناک قرار دئیے گئے افراد کی تطہیر کو ہی قطعی قرار دیدیا ہے۔ادیان کی نوک پلک سیدھی رکھنے کے ذمہ دار دینی مستری مکمل طور پر کیل کانٹے سے لیس ہیں اور اِنہیں بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ کون اُن کے بنائے ہوئے چوکھٹے میں ٹھیک طرح سے نہیں بیٹھتا۔
ظاہر ہے روافض تو ہیں ہی بدکے ہوئے اور پھرے ہوئے اِن کے لیے رحم کی گنجائش انفرادی ہو سکتی ہے عمل اجتماعی میں قطعاً نہیں، مثال کے طور پر اگر کوئی رحم دل جہادی اس نوعیت کی ناگزیر قتل وغارت کے دوران حضرت حجاج بن یوسف کی طرح رحم کے جذبے کے ہاتھوں مجبور ہوجائے تو ممکن ہے کہ وہ کسی مغلوب رافضی یا احمدی یا پھر شومئی قسمت کے مارے عیسائی کی جان بخش دے، تو اس کی اس نوعیت کی رحم دلی کو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔لیکن پاکستان میں برسر جہاد اور تطہیر کی راہ کے مسافروں کے پاس اب رحم کی گنجائش نہیں اور اِن کے ایک خاص ترتیب اور ترکیب میں تیار کیے گئے تصور اسلام میں اس امکان کا ہی تصور موجود نہیں کہ جن کو مدارس کی تعلیم، جہادی اساتذہ کے خطبات اور دروس میں دشمنان اسلام قرار دیا گیا ہے، اِن کو کسی بھی حالت میں معاف کردیا جائے۔قائد مجاہدین اور ولی کامل حضرت مسعود اظہر رقم طراز ہیں’’ جب ایک مومن مسلمان جہادی اللہ کی راہ خودکش دھماکہ کرنے کے لیے سفر اختیار کرتا ہے تو اللہ کے مقرب فرشتے اس پر اپنا سایہ کردیتے ہیں اور اس کو آغوش رحمت میں بھر لیا جاتا ہے۔جب وہ بے اختیاری کے عالم میں اللہ کی راہ میں اپنے جسم کے چیتھڑے اُڑانے کے لیے کسی بارود بھری گاڑی میں دشمن کی تلاش میں ہوتا ہے تو اس دوران جتنے سانس لیتا ہے وہ اس کو اتنا ہی جنت الفردوس اور اس میں بسنے والی حسین و جمیل حوروں کے قریب کر دیتے ہیں۔ حوریں اس کی پاک سانسیں سن سکتی ہیں اور اس وقت ان کا جذبہ وصال دیدنی ہوتا ہے۔جب وہ خوش قسمت انسان اللہ کے دشمنوں کے خاتمے کے لیے چھوٹے چھوٹے گوشت اور خون کے ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے تو پھر اس کی روح اس کائنات کی سب سے خوش قسمت روح قرار دی جاتی ہے‘‘اعلیٰ حضرت مسعود اظہر مدظلہ کا یہ ایمان افروز خطبہ اِن کی تنظیم کے جاری کردہ ’’دروس جہاد‘‘ میں شائع ہوچکا ہے۔
مذکورہ اعلیٰ حضرت اور اِن کے جہادی ساتھی آج پاکستان بھر میں، افغانستان اور کشمیر میں انتہائی ناگزیر تطہیر مذہبی و مسلکی میں دل و جان سے مشغول ہیں اور اِن کے لیے جہاد کی راہیں چوپٹ کھلی ہیں کیوں کہ اِن کی حمایت میں آواز قلعہ اسلامی کے دارلحکومت کے قلب میں واقع لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز مدظلہ کی زبان مبارک سے بھی نکلتی ہے اور لاتعداد مراکز ا سلامیہ و جہادیہ سے بھی ایسے اقوال بلند ہوتے ہیں۔کچھ اخباری اطلاعات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ آج کل قتل گاہوں کو سجانے کے لیے روافض،نصاری اور قادیانیوں کا فوری انتخاب کیا گیا ہے اور چوں کہ ملکی آبادی میں موجود اہل تشیع(روافض) کو آسانی سے نشانہ جہاد بنایا جاسکتا ہے اس لیے اگر یہ خبریں ملیں کہ فلاں شہر، قصبے یا گاوں میں اِن پر اہلیان اسلام و جہاد نے جان لیوا حملہ کیا ہے تو اس کو برکات جہاد سمجھ کر اللہ کا شکر ادا کیا جائے کیوں کہ پاکستان میں رائج اسلام میں یہ جہاد کی لاتعداد اقسام میں ایک اعلیٰ قسم ہے جس میں دشمنا ن اللہ و رسول کام آتے ہیں۔ (جاری ہے)
URL: https://newageislam.com/urdu-section/maulana-masood-azhar-hafiz-sayeed/d/101569