خالد ظہیر
18 جولائی2014
طالبان کا دعوی ہے کہ وہ ‘حقیقی’ خلافت کے اصولوں پر مبنی اسلام کا سیاسی نظام دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنی کوششوں میں افغانستان اور پاکستان میں معصوم لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں، اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ الشام (ISIS) تو امن عالم کے لیے اور بھی بڑا خطرہ بن کر ابھرا ہے جو عراق اور شام میں اسی مقصد کو حاصل کرنے کا دعوی کر رہا ہے۔
خلافت ہے کیا؟ کیا اسلام اس کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے؟
ان کے ان دعووں کی بنیاد اسلامی تاریخ کے بارے میں بہت سے مسلمانوں کی غلط فہمیوں پر ہے جسے اکثر اسلامی رہنمائی کا بنیادی مصدر مانا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ جو کچھ بھی اسلام کے دور زرین میں پیش آیا اسے ضرور دوہرایا جانا چاہئے ورنہ مسلمانوں کا سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ یہ سحر انگیزی اس قدر متاثر کن ہے کہ لوگ اس مقصد کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔
جب 1924 میں خلافت عثمانیہ کا زوال ہوا تو ہندوستانی مسلمانوں نے اس کی بحالی کے لئے ایک لاحاصل لیکن بڑے پیمانے پر تحریک شروع کر دی۔ خلیفہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے اتحاد کی ایک علامت سمجھا جاتا تھا جس کے ہاتھوں پر تمام مسلمانوں کو بیعت کرنا ضروری تھا۔
خلافت کا جو تصور پیش کیا جا رہا ہے اسلام میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
اسلام میں ایسی خلافت کا کوئی تصور نہیں ہے جو آج پیش کیا جا رہا ہے۔ قرآن نے ایک نظام حکومت قائم کرنے کے لیے کچھ خاص اصول پیش کیے ہیں جن کی پیروی کی جانی چایئے اور مسلمانوں کو اس کا پابند بھی ہونا چاہئے۔ حالات کی ضروریات کے مطابق ان اصولوں کی شکل کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ جب قرآن کسی خاص مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کوئی اصولوں فراہم کرتا ہے تو ان اصولوں پر عمل کرنا ناگیزیر ہوتا ہے۔ خدا نے مومنوں کو ان کے دشمنوں کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کے لیے تیار ہونے کا حکم دیا تو یہ فرمایا: "تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی....."(8:60)۔ یہاں یہ امر تو بالکل واضح ہے کہ اس مقام پر گھوڑے کا ذکر اس کے لغوی معنوں میں نہیں ہے۔
اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے میں جو سیاسی نظام زیر عمل تھا اس کے چند پہلو تھے۔ اس زمانے میں قرآنی اصولوں کے نفاذ کی صرف یہی شکلیں تھیں۔ رہنما کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کرنے اور خلیفہ اور امیر المومنین جیسے الفاظ کا استعمال کرنے جیسی اس نظام کی خصوصیتیں خدا کے مقصد اصلیہ میں شامل نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مسلمان جدید سیاسی نظام میں ان کا استعمال جاری رکھیں لیکن اسلامی سیاست میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے جیسا کہ خدائی منصوبے میں اس کا برملا اظہار ہے۔
ایک اسلامی ریاست میں جن اہم باتوں کو یقینی بنائے جانے کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں کہ تمام اجتماعی معاملات میں فیصلہ باہمی مشاورت سے کیا جائے گا، مسلمان حکمران نماز اور صدقات و خیرات کا ایک نظام قائم کریں گے، یقیناً نیک بختی کی حوصلہ افرائی کی جائے گی اور برائیوں کا سر کچلا جائے گا (22:41)، اور معاشرے میں سماجی انصاف پر مبنی اسلامی قانون نافذ کرنے کے ایک نظام پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
نماز کا نظام قائم کرنے کے مقصد کی تکمیل کے لیے تمام مساجد اور اداروں کو مساجد کے علماء کرام پیدا کرنے کی ضرورت پیش آئے گی اور اس کے لیے واحد ذمہ دار اسلامی ریاست ہو گی۔ اس سے فرقہ واریت کا خاتمہ ہوگا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ریاست کی تعمیر ظاہری اور باطنی دونوں اعتبار سے اسلامی اقدار پر کی جانی چاہیے۔
مذکورہ بالا اقدار کو نافذ کرنے کے لیے دو قرآنی اصول انتہائی ضروری ہیں۔ تبدیلی بتدریج اور پر امن ہونی چاہیے۔ پہلے اصول کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ اللہ نے شریعت اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعے بھی بتدریج نافذ کیا ہے جبکہ دوسرا اصول مومنوں کی اس توقع کے مجموعی اثر کا نتیجہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں مشاورت پر عمل کیا جائے اور بلاجواز کسی کو مارا نہ جائے۔
قرآن نے اجتماعی معاملات میں خونریزی سے بچنے کے لئے باہمی مشاورت کو مرکزی ردجہ عطا کیا ہے۔ بدقسمتی سے مسلم تاریخ اقتدار کے لئے پر تشدد جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔ پہلے تین خلفاء کی تقرری کے علاوہ مسلم تاریخ میں حکومت کرنے کا حق یا تو ایک کسی ایک خاص خاندان کو حاصل رہا ہے یا معاملات کا تصفیہ خونی معرکوں کے ذریعے کیا گیا ہے۔
سیاسی نظام کے قیام کے لیے اسلام میں کسی جنگ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایک خونی کھیل ہے اور خدا ہمیں کسی قاتل یا زمین پر فساد مچانے والے کسی مجرم کے علاوہ کسی اور کی جان لینے کی اجازت نہیں دیتا (5:32)۔ یہاں تک کہ ان مقدمات میں بھی صرف ایک مسلم حکمران کو ہی سزا دینے کا حق حاصل ہے۔ جہاد صرف زمین پر فساد کو ختم کرنے کے لیے مسلم حکمران کی اتھارٹی کے تحت ہی شروع کیا جا سکتا ہے۔ خدا کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ بے گناہ انسانوں کے قتل کی مذمت بھی کرے اور مسلمانوں کو جنگ و قتال کے ذریعہ خلافت قائم کرنے کا حکم بھی دے۔
لہٰذا یہ ضروری ہے کہ جو کوئی بھی اسلامی سیاسی نظام چاہتا ہے وہ جائز اور قانونی ذرائع سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے جنگ کے ذریعے نہیں۔ اسلامی نظام کے قیام کے نام پر جنگ چھیڑنا جیسا کہ آج شام، عراق اور دیگر ممالک میں ہو رہا ہے مکمل طور پر اسلامی اصولوں کے خلاف ہے جیسا کہ قرآن مجید کا بیان ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام کی جانب سے کی گئی جنگیں ان لوگوں پر اللہ کے عتاب کی ایک شکل تھی جنہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ یہ اللہ کے رسول ہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
خالد ظہیر ایک مذہبی اسکالر ہے۔
ماخذ:
http://www.dawn.com/news/1119829/claims-of-caliphate
URL for English article:
https://newageislam.com/the-war-within-islam/the-concept-caliphate-being-presented/d/98164
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-concept-caliphate-being-presented/d/98452