خالد شیخ
29 جنوری، 2015
7 جنوری کے پیرس سانحہ کے تناظر میں جب ہم وطن عزیز کے حالات کا جائزہ لیتےہیں تو یہاں بھی ایک خاص طبقے میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں نفرت ، حقارت عدم رواداری اور عصبیت کی فصل لہلہاتی نظر آتی ہے جس کی تاریخی وجوہات ہیں ۔ صدیوں پر محیط حکمرانوں کے آثار آج بھی ملک کے مختلف علاقوں کی زینت بنے ہوئے ہیں جنہیں فرقہ پرست طاقتیں ہندوانے کی سعی میں مصروف ہیں ۔ اسی طرح یہ طاقتیں آج بھی تقسیم ہند کے المیے اور صدمے سے باہر نہیں نکل پائی ہیں اس لئے ‘ اکھنڈ بھارت’ کے موہوم نعرے سے اپنا او راپنے کیڈر کا دل بہلائے رکھتی ہیں اور وقفے وقفے سے تحریر و تقریر اور انٹر نیٹ کے ذریعے اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالتی ہیں ۔ خوش قسمتی سے مسلمانوں نے اس سلسلے میں صبر و تحمل سے کام لیا او رپولیس میں شکایت درج کر کے دانشمندی کا ثبو ت دیا۔ بہر حال اسلام دشمن سرگرمیوں میں مبتلا تمام ممالک اور تنظیمیں بری طرح سے اسلامو فوبیا کے مرض میں مبتلا ہیں انہیں یہ خوف کھائے جارہا ہے کہ مذہب اور آبادی کے لحاظ سے اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نہ حاصل ہوجائے ۔ ہندوستان میں اس خوف کا اظہار مختلف پیرایوں میں ہوتا ہے ۔ کبھی ‘ لوجہاد’ کاہوّا کھڑا کیا جاتاہے ۔ تو کبھی ‘ بہو لاؤ بیٹی بچاؤ’ کا کبھی گھر واپسی کا شوشہ چھوڑ ا جاتا ہے تو کبھی تبدیلی مذہب پر قانونی پابندی کا۔ کبھی ساکشی مہاراج ہندو عورتوں کو چار بچے پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہیں تو مغربی بنگال کے بی جے پی لیڈر شیامل گوسوامی پانچ بچوں کی پیدائش پر اصرار کرتے ہیں ۔ سوامی و اسو دیو بند سرسوتی تو اس ہوڑ میں سب بازی لے گئے۔
انہوں نے ہندو عورتوں کو زرّیں مشورہ دیا کہ اگر مودی کو دوبارہ وزیر اعظم بنانا ہے تو وہ دس بچے پیدا کریں گویا عورت نہ ہوئی بچہ پیداکرنے والی مشین ہوگئی۔ان حالات میں وی ایچ پی انٹر نیشنل کے کار گزار صدر پروین توگڑیا کیسے چپ رہتے انہوں نے وی ایچ پی کے 50 ویں یوم تاسیس پر عجیب منطق پیش کی کہ بچوں کی تعداد دو تک محدود رکھنے کا قانون بنایا جائے کیونکہ اقلیتوں ( مسلمانوں ) کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس قانون سے یہ فائدہ ہوگا کہ ہندوؤں کی آبادی میں اضافہ ہوگا اور ایک دن ترنگا لاہور، قندھار اور ڈھاکہ پر لہرائے گا۔ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ساکشی مہاراج ، سوامی و اسودیو انند اور توگڑیا کی قبیل کے لوگ کس خیالی دنیا میں رہتے ہیں لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے لئے ہی نہیں خود ہندو سماج کےلئے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برادران وطن کی اکثریت ان کے جھانسے میں نہیں آتی ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے اس دور میں کوئی احمق ہی اس طرح کا مشورہ دےسکتاہے۔
بہر حال ایک طرف جہاں ہندوؤں کو افزائش نسل پر اُکسا یا جارہا ہے وہیں اس مہم کو مہمیز عطا کرنے کےلئے مودی حکومت نے 2011 ء کو مردم شماری رپورٹ سے صرف مسلمانوں کی آبادی کے اعداد و شمار جاری کرکے فرقہ پرستوں کے کاز کو تقویت پہنچائی ۔ مردم شماری کی رپورٹ گزشتہ مارچ میں حکومت کو جاری کی جاچکی ہے لیکن کانگریس نے لوگ سبھا الیکشن کےموقع پر اسےاپنے حق میں مفید نہ پاکر دبا رکھا جب کہ بی جے پی حکومت نے دہلی الیکشن کے پیش نظر اسے جزوی طو پر جاری کردیا تاکہ ہندو ووٹ متحد کیا جاسکے۔ رپورٹ میں 2001ء سے 2011 ء کے درمیان مسلم آبادی 24 فیصد اضافہ بتایا گیا ہے جو 18 فیصد کے قومی اوسط سےزیادہ لیکن 2001 ء کی مسلم آبادی کے 29 فیصد سے 5 فیصد کم ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اس کمی کی ستائش کی جاتی لیکن بی جے پی نے اسےسیاسی حربہ بنایا قابل ذکر بات یہ ہے کہ قومی سطح پر مسلم آبادی میں صرف 8 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔1991 میں اس کی شرح 4ء13 تھی جو 2011 میں 2ء14 ہوگئی ۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ آسام کو چھوڑ کر جہاں مسلم آبادی میں اضافہ کی شرح 3ء3 تھی بقیہ ریاستوں میں یہ 1ء فیصد ( اروناچل پردیش، اُدیشہ، میگھالیہ) سے لے کر 2 فیصد کے درمیان ہے جب کہ پانڈیچری ، ومن دیو اور چھتیس گڑھ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ منی پور واحد ریاست ہے جہاں مسلم آبادی میں 4ء فیصد کی کمی پائی گئی۔
ان اعداد و شمار کے ظاہر ہوتے ہی وی ایچ پی کے سور ما خم ٹھونکتے ہوئے میدان میں اتر آئے کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے ۔ اب ہم ہندوؤں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تازہ اپیل کریں گے اور حکومت پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ یونیفارم سول کوڈ کی راہ ہموار کرے ورنہ ہندو اقلیت میں آجائیں گے۔ مسلم اسکالرس نے آبادی میں اضافے کو تعلیمی ، سماجی اور معاشی پابندی سے تعبیر کیاجو بلا تفریق ذات و مذہب سماج کے ہر پسماندہ طبقے میں پائی جاتی ہے۔ بی جے پی کی بد نیتی اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ اس مواز نے کے ڈر سے دیگر مذہبی طبقات کے نمبرات ظاہر نہیں کئے تاکہ مذہبی سطح پر آبادی کی مجموعی صورت حال سامنے آتی۔مسلم آبادی کے تئیں ہندوتوا وادیوں کی تشویش چار دعووں پر مبنی ہے۔ (1) انہیں چار شادیوں کی اجازت ہے۔ (2) وہ خاندانی منصوبہ بندی پر عمل نہیں کرتے ہیں (3) تبدیلی مذہب کی وجہ سے ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ بڑھتی آبادی کی وجہ سے وہ جلد ہی ہندوؤں کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔
ان دعووں کو اس تواتر کے ساتھ دُہرایا جاتاہے کہ ان پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے لیکن یہ حقیقت نہیں ہے ۔ 2001 کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق مسلمانوں میں مرد و زن کا تناسب ایک ہزار پر 936 تھا اور ہندوؤں میں 931 ۔ اسی حساب سے مسلمانوں کو چار شادیاں تو کجا ایک سے زیادہ کرنا بھی دشوار ہوگا۔ اس کی تصدیق تازہ اعداد و شمار کی غیر موجودگی میں 1961 کی مردم شماری رپورٹ سےہوتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی شرح سب سے زیادہ آدیواسیوں ( 25ء15) بدھسٹ (9ء7) جین (72ء6) او رہندو( 80ء5) میں پائی گئی اور سب سے کم مسلمانوں میں (70ء5)۔
آئی آئی ایم احمد آباد کے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر راکیش باسک بتاتے ہیں کہ 48 فیصد کے قومی اوسط کے مقابلے 37 فیصد مسلمان ضبط تولید کے طریقوں پر عمل کرتےہیں ۔ اس کی توثیق سچر کمیٹی رپورٹ اور بڑودہ کے آپریشن ریسرچ گروپ کے سروے سے ہوئی ہے۔ جہاں تک تبدیلی مذہب کا تعلق ہے تو ہندوتوا وادیوں کو اپنے گریباں میں جھانکنا چاہئے کہ ہندو کیوں تبدیلی مذہب پر مجبور ہوتے ہیں ۔ ہندوتووادیوں کا یہ دعویٰ کہ بڑھتی مسلم آبادی کی وجہ سے ہندو اقلیت میں آجائیں گے، بے بنیاد ہے ۔ ہندوؤں کی 83 فیصد آبادی عبور کرنے کے لئے صدیاں درکار ہوں گی۔ اس ضمن میں امریکی صدر بارک اوبامہ کا مذہبی رواداری کا رخصتی مشورہ گھر واپسی اور ‘لوجہاد’ کے علمبرداروں کے منہ پر کرارا طمانچہ ہے۔ بہتر ہوگا کہ وہ اپنا سارا زور اقلیت دشمنی پر صرف کرنے کے بجائے ملک کی تعمیر و ترقی کے وسائل پر صرف کریں جو باہمی اخوت و محبت اور امن و آشتی میں مضمر ہے۔
29 جنوری، 2015 بشکریہ: انقلاب ،نئی دہلی https://newageislam.com/urdu-section/the-baseless-conjecture-muslim-population/d/101315