خالد شیخ
10 جنوری ، 2013
اکثر دیکھا گیا ہے کہ
مذہب کو نقصان دوسروں سےزیادہ اس کے اپنے ماننے والوں سے پہنچتا ہے جو (مذہب سے) محبت کادعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ان کی عملی زندگی
اس کی تعلیمات کے برعکس ہوتی ہے۔
اسلام بھی اس کلیئے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اسے بدنام کرنے اوراس کی تعلیمات کو مسخ
کرنے میں دشمنان اسلام کے ساتھ ساتھ محبان
اسلام کا بھی ہے۔ گزشتہ سال کےاخیر اور
سال نو کے اوائل میں دو ایسی خبریں نظر
سےگزریں جنہوں نے اس کلیئے پرایک با ر پھر
تصدیق کی مہر ثبت کردی۔ ان خبروں کا تعلق
مسلمانوں کی عائلی زندگی سے ہے۔
قبل اس کے کہ ہم اس کی تفصیل میں جائیں ہم
آپ کی توجہ ماضی کے ان واقعات کی طرف
مبذول کراناچاہتے ہیں جنہوں نے ملک و قوم کو شرمسار کیا۔ اسّی کی دہائی میں وطن عزیز میں گلف کے ادھیڑ اور معمر عرب سیا حوں کا تانتا لگا ہوا تھا جن کا مقصد سیاحت سےزیادہ خوبصورت
اور کمسن دلہنوں کا انتخاب ہوتا تھا۔ اس
کے لئے ‘‘مقامی لوگوں’’ کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں جو غریب والدین کو دولت اور
ان کی بیٹیوں یا بہنوں کو خوشحال زندگی کا لالچ دے کر
پھسلاتے تھے ۔ اس ریکٹ کامرکز حیدر آباد تھا جو جلد ہی دوسرے شہروں میں پھیل گیا۔ کوئی ہفتہ نہ جاتاتھا
جب شادی کےنام پر غریب او رمعصوم لڑکیوں
کے استحصال کی خبریں میڈیاں کی زینت
نہ بنتی ہوں۔ شادی کے بعد طلاق کے واقعات عام تھے ۔ کچھ کو خلیجی ملکوں میں طلاق دے کر بے یار مددگار چھوڑ دیا
جاتاتھا یا اُن سے خاد ماؤں جیسی خدمت لی جاتی تھی۔
قارئین لڑکی کو یاد ہوگا
اس سلسلے میں حید ر آباد کی امینہ نامی ایک
لڑکی کا واقعہ قومی غم و غصے کا سبب بنا تھا ۔ حکومت حرکت میں آئی ۔ کئی لڑکیوں
کو اس ریکٹ کے چنگل سے بچایا گیا اور
‘‘مقامی لوگوں’’ کو سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل
دیا گیا ۔ حکومت کے سخت اقدامات سے اس قسم کے واقعات پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا
تھا کہ حال ہی میں ممبئی کے دو صحافیوں نے ایک اسٹنگ آپریشن کے ذریعے ماضی کی تلخ یادوں کو پھر تازہ کردیا۔
مڈ ڈے ( 28 دسمبر) کی ایک صحافی خاتون نے ضرورت مند دلہن بن کر اپنے صحافی ساتھی کے ساتھ ، اب بھی جاری اس ریکٹ کے متعلقہ
کرداروں سے ملاقات کی تو مخبر ، دلال ، دلالہ ، ان کے ایجنٹ اور ٹیکسی ڈرائیور سے
لے کر شادی کروانے والے سفید پوشوں کا چہرہ بے نقاب ہوگیا۔ ہمارے خیال میں ایسی شادیوں کی کوئی
قانونی اور شرعی حقیقت نہیں ہوتی۔ یہ
سراسر استحصال ہے جسے مذہب کی آڑ میں انجام دیا جاتا ہے ۔ 10۔15 دن کی معینہ مدت اور طلاق کے بعد لڑکیاں ایک بار پھر دلالوں کے پاس لوٹ آتی ہیں، نئے
دولہے کی تلاش میں۔ اسٹنگ آپریشن سے یہ
بھی انکشاف ہوا کہ کچھ سیاح اسلام دی گئی چار شادیوں کی اجازت کا ناجائز فائدہ
اُٹھا کر سفر کے دوران ایک سے زیادہ شادیاں کرلیتے ہیں۔ اس مقصد کے لئےملک کے
مختلف شہروں سے لڑکیاں بر آمد کی جاتی تھیں اور سیاحوں میں متعدد خلیجی ممالک کے باشندے شامل تھے ۔
ایک ماہ سے زائد عرصے پر
مبنی اسٹنگ آپریشن کاپولیس نےبھی نوٹس لیا اور اس کی تہہ تک پہنچنے کے لئے اعلیٰ سطحی انکوائری کا حکم دیا ہے ۔
پولیس ٹیمیں ان شادیوں کو سند عطا کرنے والے ایک سفید پوش کو حراست میں لینے کے
لئے اس کے دفتر بھی گئی تھیں جو بند ملا۔ یہ
بھی پتہ چلا ہے کہ اس سے پہلے بھی اس کے خلاف اس طرح کے معاملات درج تھے ۔ دلالہ
بھی مفرور بتائی جاتی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرح کا کاروبار کرنے والے عادی
مجرم ہلکی سزا پانے کے بعد چھوٹ جاتے ہیں ، نتیجتاً یہ کاروبار پھلتا پھولتا رہتا
ہے جو مسلم سماج کی پیشانی پر بدنما داغ
ہے ۔ پولیس تو اپنا کام کرے گی لیکن اس پر روک لگانے کے لئے ہماری مذہبی اور ملّی
قیادت کو بھی حرکت میں آنے کی ضرورت سے
انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
دوسری خبر دہلی کی
ہے جہاں سیشن کورٹ جج کامنی لاؤ نے ایسے
معاملات کے ایک معاون سفید پوش کی ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لئے پیشگی ضمانت کی درخواست مسترد کردی ۔ اس معاون پر
الزام ہے کہ اس نے گزشتہ سال جبر اً ایک لڑکی کا نکاح اس کے والدین کو مطلع کئے بغیر
ایک شادی شدہ شخص سے کردیا جس کے پہلی بیوی
سے تین بچے ہیں۔ معاملہ عدالت میں اس وقت آیا جب لڑکی موقع پاکر شوہر کے گھر سے
بھاگ نکلی اور والدین کو حالات سے آگاہ کیا۔ معاون کی دلیل تھی کہ اسلام میں بیک
وقت چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے ۔ فاضل جج صاحبہ کا کہنا تھا کہ شریعت ایک سے
زائد شادیوں کی اجازت مخصوص حالات میں دیتی ہے ، اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔
اگر کسی کی بیوی بیمار رہتی ہو یا اولاد پیدا کرنے سے معذور ہوتو ایک مسلمان دوسری
شادی کرسکتا ہے ۔ اسی طرح غیر معمولی حالات میں یا باپ اور شوہر کی موت کے بعد اگر
یتیم لڑکی یا بیوہ کے پاس گزارے کاکوئی سہارا نہ ہو تو انسانیت اور سماجی انصاف کے
ناطے مرد دوسری شادی کرسکتا ہے لیکن اس کےلئے پہلی بیوی کو اعتماد میں لینا ضروری
ہے۔ جج صاحبہ نے مزید تصریح کی کہ اسلامی
ممالک میں تعدّد ازدواج کو ضابطے کے دائرے میں لایا گیا ہے اور کئی ملکوں نے اسے غیر
قانونی قرار دیا ہے اس لئے ہندوستان جیسے وسیع جمہوری ملک میں اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ ہم میں
سے کتنے لوگ جج صاحبہ کے فرمودات سے اتفاق کریں گے اور کتنے اسے دین میں مداخلت
تصور کریں گے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا
کہ ان کی باتیں دل کو لگتی ہیں۔ فیصلے کے آخری حصے کو چھوڑ ئیے کہ کسی اسلامی ملک میں پرسنل لاء میں کی گئی ترمیم
اتمام حجت نہیں بن سکتی ۔ اسلام میں چار
شادیوں کی اجازت غیر مشروط نہیں ہے بلکہ ازواج کے ساتھ عدل و انصاف کی کڑی شرط کے
ساتھ دی گئی ہے اور آگاہ کیا ہے کہ ‘‘ اگر تم کوڈ رہو کہ تم ان میں انصاف نہ
کرسکو گے تو ایک ہی پر قانع رہو۔’’( سورہ نساء آیت ۔3) ۔ ظاہر ہے کہ اسلام یک
زوجگی کی حمایت کرتا ہے اور ایک سے زائد شادیوں کی اجازت و نوعیت حوصلہ افزائی کی
نہیں، زیادہ بیویاں رکھنے کی بے لگام خواہش پر پابندی لگانے کی ہے۔ مذکورہ کیس میں جو معاونین ہیں اُن پر دُہرا جرم عائد ہوتا ہے ۔ ایک لڑکی کی مرضی
کے بغیر جبراً شادی کرانے کا دوسرے اس کے والدین کو اندھیرے میں رکھنے کا۔
رہنمائی علماء کو زیبا ہے
، ہم دین کے ادنیٰ طالب علم ہیں ، حساس ہونے کے
ناطے ان واقعات پر دل کڑھتا ہے اور چونکہ میڈیا کچھ سمجھے بوجھے بغیر بہت سی باتوں کو لے اڑتا ہے اس لئے اس مسئلہ کو اُجاگر
کرنے کی ضرورت پیش آئی تاکہ مسلم اکابرین اس جانب خصوصی توجہ دیں۔ کیا زمانہ آگیا
ہے کہ شادی کو کاروبار ، طلاق کو کھلواڑ
اور تعدد ازدواج کی مشروط اجازت کو فرمان سمجھ لیا گیا ہے۔ اسلام ‘‘ہمیں دوسروں تک
تعلیمات عام کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن آج
غیر مسلم ہمیں اپنا سبق یاد دلارہے ہیں ، اس سے زیادہ شرمناک بات اور کوئی نہیں
ہوسکتی ۔ ویسے یہ پہلا موقع نہیں ہے اس سے
پہلے بھی ایسے کئی فیصلے نظروں سے گزر چکے
ہیں جن میں عدلیہ نے مسلمانوں کو آئینہ دکھایا ہے۔
10 جنوری، 2013 بشکریہ :
انقلاب ، نئی دہلی
URL: