خالد بیگ
1 مئی 2015
اسلام کی روح
بہت سے لوگ تصوف کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ تصوف قرآن اور سنت سے ہٹ کر کوئی اور شئی ہے۔ گمراہ صوفیوں کے ساتھ ساتھ سطحی علم رکھنے والے علماء، بھی تصوف کے بارے میں اس کے برعکس غلط تصور رکھتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے گروپ نے قرآن اور حدیث کو فراموش کر دیا، جبکہ دوسرے گروپ نے تصوف کا چہرہ مسخ کر دیا۔ در حقیقت اگر چہ بہت سے دیگر مذہبی اصطلاحات کی طرح لفظ تصوف بھی آج مروج ہے، لیکن یہ بعد کے اسلامی دور میں تیار کیا گیا ہے، نظام تصوف شریعت کا عین جز ہے۔ نماز اور زکوة جیسے ظاہری اعمال سے متعلق شریعت کا شعبہ فقہ کہلاتا ہے، جبکہ شریعت کے جس شعبہ کا تعلق دل کے اندرونی احساسات اور حالات سے ہے اسے تصوف کہا جاتا ہے۔ اور ان دونوں کا ذکر قرآن میں ہے ‘‘بے شک جس نے اسے (اپنے دل کو)پاک کیا وه کامیاب ہوا۔ اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وه ناکام ہوا۔"
نماز اور زکوة کا حکم دیتے ہوئے، قرآن اللہ کا شکر اور اس کی محبت کا بھی حکم دیتا ہے، اور فخر و مباہات اور ریا کے شر کی مذمت بھی کرتا ہے۔ اسی طرح حدیث کی کتابوں میں جہاں عبادت، تجارت اور کاروبار، شادی اور طلاق کے مسائل پر ابواب ہیں وہیں ریا، تکبر اور اخلاق پر بھی ابواب موجود ہیں۔ یہ احکام بھی اسی طرح لازمی اور ضروری ہیں جس طرح خارجی اور جسمانی اعمال عبادت ہیں۔
غو و فکر کرنے پر ہمیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان تمام خارجی اعمال کا مقصد دل کی اصلاح ہے۔ یہی آخرت میں کامیابی کی بنیاد ہے اور اس میں نا کامی آخرت میں مکمل تباہی کی وجہ ہے۔ تصوف کا عنوان اخلاق کو سنوارنا یا کردار سازی کرنا ہے؛ اس مقصد رضا الہی کا حصول ہے۔ اس کا طریقہ کار شریعت کی مکمل اطاعت و پیروی ہے۔
تصوف اسلام کی روح ہے۔ اس کا مقصد ہوس کی حقیر اور وحشی صفات سے دل کو پاک کرنا، زبان، غصہ، بغض، حسد، دنیا کی محبت، شہرت کی محبت، لالچ، بخل، ریا کاری اور فریب کی تباہی اور آفت سے محفوظ کرنا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس کا مقصد دلوں کو ندامت، استقامت، شکر اور اللہ کے خوف اور اس سے امید، صبر ، توحید، عقیدت، محبت، خلوص اور سچائی جیسی بلند صفات سے مزین کرنا ہے۔ دل کی بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کے لئے عام طور پر ایک ماہر استاد یا شیخ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک اچھے شیخ کی خصوصیات حسب ذیل ہیں۔ (1) وہ ضروری مذہبی علم کا حامل ہو۔ (2) اس کے عقائد، معمولات اور طرز عمل شریعت کے مطابق ہوں۔ (3) اس کے دل میں دنیاوی مال و دولت کی لالچ نہ ہو۔ (4) خود اس نے ایک اچھے شیخ کی تربیت میں وقت گزارا ہو۔ (5) اس کے معاصر علماء اور مشائخ اس کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہوں۔ (6) اس کے چاہنے والوں اور معتقدین میں مذہب کی اچھی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہو۔ (7) اس کے اکثر پیروکار شریعت کی پیروی کرتے ہوں اور طالب دنیا نہ ہوں۔ (8) وہ اپنے پیروکاروں کو صدق دل سے تعلیم دینے اور ان کی اخلاقی تربیت کرنے کی کوشش کرتا ہو۔ اگر وہ ان میں کوئی غلط بات دیکھتا ہو تو اس کی اصلاح کرتا ہو۔ (9) اس کی صحبت میں لوگ اس دنیا کی محبت میں کمی اور اللہ کی محبت میں اضافہ محسوس کرتے ہوں۔ (10) اور وہ خود ذکر و اذکار اور روحانی مشاغل پر باقاعدہ کاربند ہو۔
کسی شیخ کی تلاش میں اس کے اندرکرامات انجام دینے یا مستقبل کی پیشن گوئی کرنے کی صلاحیت نہیں تلاش کرنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک بہت اچھا شیخ کوئی کرامت ظاہر کرنے کے قابل نہ ہو۔ دوسری طرف کرامت دکھانے والا شخص ضروری نہیں کہ نیک انسان ہو، یہاں تک کہ اس کا مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ ایک عظیم صوفی بایزید بستامی فرماتے ہیں کہ: "ہوا میں کسی روحانی کارنامہ انجام دینے والوں سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ بلکہ اس کی پیمائش شریعت کے معیار پر کرو۔"
ماخذ:
http://pakobserver.net/detailnews.asp?id=262913
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/tasawwuf/d/102783
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/tasawwuf-/d/104033