خالد بیگ
5 جنوری 2018
صدیوں سے اللہ نے ہزاروں رسولوں پیغمبروں کو مبعوث کیا، درجنوں آسمانی کتابیں نازل کی اور ایک پیغام بھی بھیجا۔ان سب میں بنیادی پیغام کے اجزاء تین ہیں۔ 1) خدا اس کائنات کا خالق و مالک ہے۔ ہمیں اسی کی عبادت اور اطاعت کرنی چاہئے۔ 2) اس نے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے ہمیں ہدایت عطا فرمائی۔ 3) اس دنیا میں موت جس قدر یقینی ہے اسی قدر آخرت میں قیامت بھی یقینی ہے۔ اس کے بعد تمام لوگوں کو اللہ کے احکام کی اپنی اپنی تابعداری کے مطابق دائمی نتائج کا بھی سامناکرنا ہوگا: وہاں ان کے لئے یا تو دائمی غم ہوگی یا دائمی خوشی و مسرت ہوگی۔ یہی آخری حصہ ہمارے دل و دماغ میں فوری طور پر شفافیت اور یکسوئی پیدا کر سکتا ہے اور ہم ان پیغامبروں کے پیغاموں کو ‘‘دلچسپ’’ کے بجائے انتہائی سنجیدہ اور ضروری تصور کر سکتے ہیں۔
پیغامبر نہ تو کوئی فلسفہ بیان کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی تھیوری پیش کرتے ہیں۔ ان کے پاس ہمارے لئے خبریں ہیں جو کہ انتہائی ضروری ہیں۔ اسی لئے قرآن مجید نے رسولوں کو نذیر (ڈر سنانے والا) قرار دیا ہے اور اسی کام کو ان کی زندگی کا بنیادی مشن قرار دیا ہے: "اور ہم رسولوں کو نہیں بھیجتے مگر خوشی ڈر سنانے والے اور جو کافر ہیں وہ باطل کے ساتھ جھگڑتے ہیں کہ اس سے حق کو ہٹادیں اور انہوں نے میری آیتوں کی اور جو ڈر انہیں سنانے گئے تھے ان کی ہنسی بنالی! "[ترجمہ کنز الایمان 18:56] انسانیت ایک بڑی عظیم تباہی کی چپیٹ میں ہے۔ اسے خبردار کیا جائے تاکہ وہ اس سے بچ سکے۔ ضروری ہے کہ آپ ہر چیز چھوڑ کر پوری سنجیدگی کے ساتھ رسول کے پیغام کو سنیں۔ اب یہ ایک زندگی تبدیل کر دینے والا پیغام ہے۔ جو کوئی اسے سمجھتا ہے اور اسے قبول کر لیتا ہے وہ وہی پرانا شخص نہیں رہ جاتا جس نے نہ تو اس پیغام کو سمجھا اور نہ ہی اسےقبول کیا۔ اور وہ پیغام یہ ہے کہ یہ دنیا ایسی نہیں ہے جیسی ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ہماری آخری منزل نہیں ہے اور یہاں ہمارے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ ہماری حتمی تقدیر نہیں ہے۔ جس کسی نے بھی یہاں زندگی اس تصور کے ساتھ گزاری کہ یہی زندگی سب کچھ ہے تو اس کی زندگی کاپوری طرح برباد ہو جانا یقینی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ اس دنیا میں بے شمار مسائل ہیں۔ طاقتور انسان قتل سے بھی بری ہو سکتا ہے۔ کمزوروں پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ ہم انصاف کی گوہار تو لگاتے ہیں لیکن انصاف ملتا نہیں۔ اس زندگی کی خوشی اور مسرت مختصر اور غم میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ہم خالص نعمت کی التجا بھی کرتے ہیں لیکن وہ ہمیں میسر نہیں ہوتی۔ اس پیغام سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انصاف اور خالص خوشی و مسرت کا تصور بے معنی نہیں ہے۔ آخرت کی ابدی زندگی میں ہمیں یہ تمام چیزی مل کر رہیں گی۔ ہم جسے ایک ناقص دنیا سمجھتے ہیں اور در اصل ایک کامل امتحان گاہ ہے۔ یہاں خوشیاں اور تکلیفیں اس لئے ہیں کہ ہمیں آزمایا جائے کہ اپنی زندگی میں پیش آنے والے مختلف حالات کے تحت ہمارا رویہ کیسا ہوتا ہے۔ جو لوگ تقویٰ اور اللہ کی فرمانبرداری کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں آخرت میں وہ اصلی خوشی و مستر کا مزہ چکھیں گے۔ اور جو لوگ نافرمانی، گناہ اور فساد سے بھری زندگی بسر کرتے ہیں انہیں حقیقی عتاب الٰہی کا مزہ چکھایا جائے گا۔ یہ پیغام ناامیدی کے تاریک صحرا میں ہمارے لئے امیدوں کی ایک کائنات ہے۔ اس سے ہمیں برائیوں کے مقابلے میں ثابت قدمی کی طاقت ملتی ہے۔ یہ پیغام ہمیں ہر کس و ناکس کے در پر سرجھکانے سے آزاد کردیتا ہے۔ اس سے ہمارے نقطہ نظر میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ہماری پوری زندگی بدل جاتی ہے۔
آخرت پر عقیدے کے بغیر ہمارے فکر و عمل کے اندر تقویٰ اور پاکیزگی کا پیدا ہونا ناممکن ہے۔ اگر اپنے کئے گئے اعمال کا انجام بھگتنے کا خوف دل میں نہ ہو تو کتنے لوگ برائیوں کی طرف اپنے نفس کی ترغیب و تحریص اور اس کی شرانگیزیوں کا مقابلہ کریں سکیں گے؟ اور اس کے بغیر کب تک لوگو نقصان اٹھا کر بھی نیکی کے راستے پر چلتے رہیں گے اور کب تک دنیاوی فائدے سے نظریں پھیر کر برائی سے اپنا دامن بچاتے رہیں گے۔ سزا و جزا کا اثر انسانی زندگی پر ہوتا ہے۔ لیکن سزا اور جزا کا واحد کامل نظام آخرت میں ہی تیار کیا گیا ہے۔ لہذا آخرت کو نظر انداز کرکے اس دنیا کو بہتر بنانا ناممکن ہے۔ قرآن مجید کا فرمان ہے: "بیشک وہ جو آخرت پر ایمان رکھتے نہیں ملائکہ کا نام عورتوں کا سا رکھتے ہیں۔" [ترجمہ کنز الایمان 53:27] سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرت پر ایمان نہ رکھنے سے اس کا کیا تعلق ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ ان فرشتوں کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتے ہیں جنہیں انہوں نے نہیں دیکھا ہی نہیں اور نہ ہی انہیں جاننے کا کوئی یقینی راستہ ان کے پاس ہے ، کیونکہ وہ اپنے اس کام میں مخلص ہی نہیں ہیں۔ اور وہ اپنے اس کام میں مخلص اس لیے نہیں ہیں کہ وہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ بیہودہ گوئی اور عجب و خود نمائی کفر کے مضر اثرات میں سے ہے۔ اور جب زندگی پر اسے غلبہ حاصل ہو جاتا ہے تو پوری زندگی برباد ہوجاتی ہے۔
موت اور قیامت کو یاد کرنے پر اسلام کس قدر زور دیتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ایک مسلمان جب صبح بیدار ہوتا ہے تو کہتا ہے: تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے موت کے بعد ہمیں زندگی دی اور ہمیں اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ جب وہ سونے کے لئے بستر پر جاتا ہے تو اس کی دعا ہوتی ہے "اے اللہ! تیرے ہی نام کے ساتھ ہمارا مرنا اور جینا ہے۔ "جب وہ کھانا شروع کرتا ہے تو کہتاہے:" اے اللہ، ہمیں تونے جو عطا کیا ہے اس میں برکت دے اور ہمیں جہنم سے بچا"۔ جب وہ سواری کرتا ہے تو کہتا ہے:"پاکی ہے اسے جس نے اس سواری کو ہمارے بس میں کردیا اور یہ ہمارے بوتے (قابو) کی نہ تھی، اور بیشک ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ "[ترجمہ کنز الایمان، 14-43:13]۔
لہذا ہمارا سونا موت کی یاد کے ساتھ ہے اور جب ہم جاگتے ہیں تب بھی ہم اپنی موت کو یاد کرتے ہیں۔ ہماری پنج وقتہ نمازوں میں اور قرآن کی تلاوت میں بھی ہمیں تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ یہ یاد تازہ کرائی جاتی ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے اور آخرت میں ہمارا ابدی ٹھکانا ہے۔ ایک خوبصورت دعاء سے ایک مومن کی فکر اجاگر ہوتی ہے: "اے اللہ، اس دنیا کو ہماری فکر میں نہ ڈال ، نہ ہمارا علم اس میں محدود کر اور نہ ہماری خواہشات میں اسے جگہ دے۔" جو شخص ہمیشہ آخرت کو یاد کرتا ہے وہ اس ڈرائیور کی طرح ہے جو مسلسل اپنی آنکھیں منزل کی طرف ٹکائے ہوئے رکھتا ہے۔ صرف اسی کا کامیابی کے ساتھ منزل تک پہنچنا ممکن ہے۔
ماخذ:
pakobserver.net/the-message-and-the-messengers/
URL for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-spiritualism/khalid-baig/the-message-and-the-messengers/d/113824
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism