خالد اظہر
23 مارچ، 2011
(انگریزی سے ترجمہ مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
جب عوامی حکام یا سیاستداں قرآن پر ہاتھ رکھ کر اپنے عہدسے کا عہد لیتے ہیں توان کے ذہن میں کیا گزرتا ہے؟
ہمارے قوانین میں ایسی کوئی دفعہ نہیں ہے، جو اس طرح کے عمل کا تقاضیٰ کرتی ہو، اور نہ ہی کوئی مذہبی کتاب اس کی سفارش کرتی ہے ۔ اور دنیا کے دیگر حصوں میں بھی حکام یہی کرتے ہیں ۔
لہذا، مقدس کتابوں کا استعمال ، عوام کا دل جیتنے کے لئے مذہب کا استحصال کرتا ہے۔
حقیقی دنیا میں آتے ہیں، کیا ایسی شماریات ہیں جو بہتر اسلوب حکمرانی کے ساتھ منسلک کرتے ہیں ؟
کیا ایسی کوئی معلومات ہے جو ہمیں یہ بتائے کہ کرپشن تخفیف کا باعث ہوتا ہے جب کہ ریاست " متقی" لوگوں کے ذریعہ منظم کی جاتی ہے ، جو خدا کے سامنے حلف لیتے ہیں اور بعد میں فعال طور پر عقیدے اور مذہب کی پاکیزگی کے بارے میں بات کرتے ہیں ؟
ایک ساتھی صحافی نے کہا کہ "میرا ایک ساتھی تھا،" جسے دفتر میں بہت ہی متقی سمجھا جاتا تھا "۔ اس کے پاس خدا کے سامنے اس کے تقویٰ کے اظہار کے لئے ضرورت کے مطابق تقریبا ہر چیز موجود تھی۔ وہ بہت با ادب تھا اور اس کے رفیق کار کی تعریف کے لئے، بہت سے نماز ادا کرتا تھا تھا۔ "
"لیکن ایک دن، ہم سب جمع تھے اور اس کی بیوی سے ملاقات کر رہے تھے ، جو کہ ایک دوست کے ذریعہ، دفتر میں اس کے تقوی کے لئے، اچانک ستائش پر حیرت زدہ تھی۔ ہم یقینی طور پر اس کے ردعمل کو دیکھ کر زیادہ حیران تھے ۔ اس نے اس کے بارے میں ہمیں کچھ مختلف بتایا کہ وہ تو گھر میں بالکل مختلف ہے "۔
یقیناً یہ ہم میں سے کسی کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ کوئی گھر میں مذہبی ہے یا نہیں ۔ یہ کہانی مجھے اس بات کی یاد کراتی ہے کہ مذہبی علامتیں کس طرح کسی چیز کو حقیقت سے مختلف طریقے پر پیش کرنے کا ایک ذریعہ بن گئیں ہیں۔ یہ رجحان ہر وقت موجود رہا ہے۔
2009 میں ایک مذہبی ٹیچر، کسی اور کے قریبی ساتھی نے ، "خدا کے بارے میں ایک حقیقت" کے بارے میں مذاق کیا۔
انہوں نے کہا،"خدا،" " جونکہ غالب بخشش اور مغفرت کرنے والا ہے ، جو بھی تم اس کے ساتھ برا کرو گے وہ اسے معاف کر دے گا ۔ لہذا، اب بھی اس کے نام پر دھوکہ کرنے کے لئے تمہارے پاس ایک موقع ہے ۔ ایسا کرو اور کبھی فکر نہ کرو۔ وہ تمہیں معاف کر دیگا اور یہاں تک کہ وہ تمہیں اپنی جنت سے نوازے گا۔ تمہیں صرف یہ کہنے کی ضرورت ہے تم اس پر ایمان رکھتے ہو ۔
کیا مذاق ہے! یہ دوست خود ایک مذہبی اور سادہ انسان ہے لیکن منطقی اور استدلالی ہے۔ مثال کے طور پر، اس نے، درس و تدریس کے بعد طالب علموں یا والدین کو اسے اپنے ذاتی استاذ کے طور پر سلوک کرنے کا قائل کرنے کے بجائے ،تجارتی بازاروں میں خراب چیزوں کو سستے دام میں فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے سادگی میں لطف اندوز ہو گا ، جیسا کہ وہ مذہب کے بارے میں بات کرتے ہوئے سکون اور ہنسی مذاق سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔
دوسری طرف، ہمارے اکثر قومی رہنما مذہبی علامتوں کا استعمال اس طرح کرتے ہیں ، کہ وہ اس سے کچھ مختلف نہیں لگتے جس طرح سوپ اوپیرا یا وہ لوگ کرتے ہیں جو خود کو "معزز " کہلوانے کے شوقین ہیں ۔ کل: وہ ان کے لئے خدا کی نعمت اور لوگوں کی دعاطلب کرتے ہیں ۔ آج: وہ نامناسب رویے یا کارروائیوں کے لئے افسوس کا اظہار کر تے ہیں جو انہوں نے کیا ہے، اور وہ خدا کے نام پر ان کے نام (یا مقبولیت) کو صاف کرتے ہیں ۔ کل ایک دوسرا دن ہے ، ایک نیا اور مختلف تسلسل ہے ، جس کا ماضی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس طرح مشہور شخصیات اپنے معاملات اور امور اور طلاق کے ذریعہ خود کو مشہور بناتے ہیں ، اور سیاست داں یا عوامی حکام مذہبی علامتوں کا استحصال کر کے خود کو ریاستی طاقت کے مرکز کے قریب کر تے ہیں ۔ جیسا کہ بہت سارے انڈونیشیائی لوگ ایک لمحے کے لئے اپنی زندگی کے مشکل پہلوؤں کو بھولنے کے لئے ، اسے ایک تفریح سمجھتے ہیں اگر چہ وہ ایسا اس لئے نہیں کرتے کہ یہ ان کی اپنی زندگی کا دستور ہے ۔
اس تناظر میں، انڈونیشیا میں ہم اپنی اقلیتوں کو بھی واضح طور پر، بری طرح ان کی ذمہ داریان نبھاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اب وہ لوگوں کے لئے زیادہ براہ راست ماسک کے ساتھ کٹھ پتلی یا اشیاء کی طرح ہیں۔
سیاستدان اور ریاستی حکام ان کا استعمال گیندوں یا استحصال کی اشیاء کے طور پر کرتے ہیں ۔ احمدیوں کو ہلاک اور بے دخل کیا جا رہا ہے اور ان کے گھروں کو ضبط کیا جا رہا ہے ۔ گرجا گھر جلائے جا رہے ہیں۔
انڈونیشیا کی ایک مقبول گیت ہمیں بتاتی ہے اپنا نقاب اتاریں ۔ یا کرسٹینا اس کی "عکاسی" میں گاتی ہے :
"اب میں
ایک ایسی دنیا میں ہوں جہاں
مجھے اپنے دل کو چھپانا ہے
اور جس میں، میں یقین رکھتی ہوں
لیکن کسی نہ کسی طرح
میں دنیا کو دکھاؤں گی
جو میرے دل کے اندر ہے
اور میں اس کے لئے عزیز بن جاؤں گا جو میں ہوں ۔۔۔۔ "
تو، کیا پھر ہم کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟ خدا کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے، ہمیں بالکل خودکو بے نقاب ہو جانا چاہئے، یا ہم صرف منافق ہوں گے ۔ اگر آپ ایک استاد ہیں، تو میری طرح، ایک دھوکے باز ہونے سے بچیں ۔ اگر آپ ایک صدر ہیں تو آپ اپنی ظاہری شکل کے ذریعہ لوگوں کو مسحور نہ کریں اور برائے مہربانی اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہاں تمام لوگ امن سے رہتے ہیں۔ امید ہے کہ خدا اب بھی ہمیں معاف اور دھوکھے سے آزاد کر دے گا۔
آخر میں، میں ایک اور کہانی بتا دوں۔ جلال الدین رحمت ، ایک معروف اسلامی سکالر، نے ایک دن مذاق کیا : "ہاورڈ گارڈنر، ایک سے زیادہ ذہانت کی تھیوری کے ماہر،سے روحانی قسیم کو تسلیم کرنے کے لیے کہا گیا تھا، تو ان کا جواب تھا، 'پیرامیٹر کیا ہو گا ؟"
"انڈونیشیا میں"، کسی نے کہا، "ہم نے پیرامیٹر حاصل کر لیا ہے ۔ وہ آنسو ہیں ۔ جو جتنا زیادہ آنسو بہاتا ہے ، اس کی روحانیت اتنی ہی اعلی ہے۔ "
سچ تو یہ ہے: آنسو مذہبی خدمات کے دوران بہتے ہیں لیکن روحانیت کے اثرات اتنی ہی جلدی خشکی کا باعث ہیں جتنی جلدی آنسو ۔ لہٰذا؟
ماخذ: 23 مارچ، 2011 بشکریہ: جکارتا پوسٹ
URL for English article
https://newageislam.com/islamic-ideology/god-religious-mask-our-symbolic/d/4328
URL for this article
https://newageislam.com/urdu-section/god-religious-mask-our-symbolic/d/11287