خالد الجنفوی
6 جنوری 2014
چند انسانی معاشروں میں خاص قسم کے ظلم و تشدد کو اس کے سماجی، ثقافتی اور ‘اخلاقی’ بنیادوں سے علیحدہ کرنا ایک انتہائی مشکل امر ہے۔ در اصل ظلم و تشدد کا ارتکاب کرنے کے لیے ایک خاص معاشرے کے بہت سارے لوگوں کی بظاہر رضامندی کو نظر انداز کرنا اور ساتھ ہی ساتھ اس ظلم و بربریت کے ایک عام نفسیاتی رجحان کو صرف ایک انفرادی مسئلہ بیان کرنا کوئی معقول امر نہیں ہے۔
ہر انسانی ثقافت تشدد کی ایک اپنی ثقافت کو جنم دیتی ہے، تاہم زیادہ متشدد معاشرے فروغ پاتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ تشدد بھی کوئی ایسی شئی نہیں ہے جس کا تعلق اس دنیا سے نہیں بلکہ کسی اور عالم سے ہو، اور نہ ہی ہمیشہ اسے خارجی عناصر ہی مسلط کرتے ہیں یا اس کا مظاہرہ ناقابل ضبط فوق الفطری قوتیں کرتی ہیں، بلکہ تشدد ایک خاص قسم کی ذہنیت کی پیداوار ہے جو کہ ایک خاص انسانی ماحول میں عام ہے، کبھی کبھی تشدد ایک خاص معاشرے کے بنیادی سماجی تصورات، اس کے ذریعہ قائم کردہ رسوم و رواج ، اس کے عام انفرادی رویوں اور خارجی دنیا کے تئیں معاشرے کے عام رد عمل کے بطن سے جنم لیتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ ایسے انسانی معاشرے ہیں جو زیادہ نرم دل زیادہ مہربان اور رنگارنگی کو زیادہ قبول کرنے والے ہیں۔
اور ایسے بھی کچھ خاص معاشروں کا وجود ہے جو غیرانسانی اور بےرحم ہیں اور ان میں نسلی مذہبی اور ثقافتی رنگارنگی کو سختی کے ساتھ مسترد کر دیا جاتا ہے۔ یقیناً کو ئی بھی کسی سماجی اور نفسیاتی معیار کو عام نہیں کر سکتا، خاص طور پر جب کسی معاشرے میں سر قلم کرنا اور بےگناہ لوگوں پر خود کش حملے کرنا ایک ایسا رجحان بن جائے جس پر لوگ فخر کریں اور اسے بہادری کا کام سمجھیں اور جب ظلم و تشدد کسی معاشرے کی نمایاں شان بن جائے۔ کوئی بھی ذی شعور ، رحم دل اور سچا مسلمان معصوم مظلوموں کے قتل و غارت گری اور ان پر خود کش حملوں کو معاف نہیں کرتا۔ ہو سکتا ہے کہ اس قسم کی وحشیت اور سفاکیت کا جنم ہمیشہ قرآن و حدیث کی غلط ترجمانی سے نہ ہو۔ بلکہ اس قسم کی ظلم و بربریت کا صدور ایسے چند افراد کی مجرمانہ ذہنیت سے ہوتا ہے جن کا مقصد ممکنہ حد تک انسانی تہذیب کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہے۔
مثال کے طور پر چند اسلامی ثقافتوں میں ظلم و تشدد کی بنیادوں کو دوبارہ دریافت کرنا انتہائی ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ سچا مسلم کبھی بھی نہ تو معصوم جانوں کی تباہی کو معاف کرتا ہے اور نہ ہی اس کی تائید کرتا ہے۔ لیکن اب ظلم و ستم کے فروغ کی وجہ قرآن کی غلط ترجمانی کو بتانا بہت آسان ہو چکا ہے۔ جب کہ قتل و غارت گری کے معاملے میں قرآن کا موقف انتہائی واضح ہے اور وہ یہ ہے ‘‘جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا’’۔ (المائدہ 32)
لہٰذا، اگر اسلام کے بنیادی اقدار سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام تمام مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں اور غیر مسلموں کے تعلق سے تحفظ، امن اور رواداری کی حمایت اور وکالت کرتا ہے تو بھر ایسا کیوں ہے کہ چند مسلم دوسرے غیر مسلموں کی جانوں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟! اس کے علاوہ، صرف چند اسلامی معاشروں میں ظہور پذیر فرقہ وارانہ اور مذہبی تشدد کی پیشن گوئی کی تکمیل کے لیے، کچھ دوسرے مخفی وجوہات بھی ہیں، جن سے کچھ مختلف ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
ایک مسلم کی حیثیت سے ہمیں ان وجوہات کو دوبارہ دریافت کرنا ضروری ہے جن کی وجہ سے ہم میں سے چند لوگوں کے درمیان تشدد کے وہی پرانے رجحانات زندہ ہیں۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
ماخذ: http://www.arabtimesonline.com/NewsDetails/tabid/96/smid/414/ArticleID/202668/reftab/36/t/Need-to-reexamine-roots-of-violence-in-Muslim-culture/Default.aspx
URL for English article:
URL for this article: