روز نامہ خبریں
28 اکتوبر، 2014
جون میں دولت اسلامیہ کے رہنما نے ایک ایسی خلافت کے قیام کا باقاعدہ اعلان کردیا جو عراق اور شام کےکئی علاقوں پر مشتمل ہوگی اور اس خلافت کے خلیفہ ابوبکر البغدادی خود ہوں گے۔ ذیل کے مضمون میں ایڈورڈسٹورٹن نے ابوبکر البغدادی کے اس اعلان کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیاہے اور دیکھنے کی کوشش کی ہےکہ کیا آج بھی خلافت کے نظریے میں کوئی جان ہے یا نہیں ۔
جب جون میں ابو بکر البغدادی نے خلافت کااعلان کیا او راپنے لیے خلیفہ کے لقب کا انتخاب کیا تو محسوس ہواکہ انہوں نے دولت اسلامیہ کی اس شہرت کی تصدیق کردی ہے کہ یہ تنظیم واقعی بڑائی کے خبط میں مبتلا ہے اور خود کو عہد رفتہ کی عظیم روایات کی امین سمجھتی ہے۔ اپنے بیان میں ابو بکر البغدادی کا اصرار تھاکہ ان کے ہاتھ بیعت کرنا تمام مسلمانانِ عالم کی مذہبی ذمہ داری ہے ۔ اس کے اس دعوے کو پورے مشرق وسطیٰ نے بری طرح رد کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی تھی ۔ لیکن کی واقعی یہ سمجھنا کہ دولت اسلامیہ کے اعلان کی کوئی اہمیت نہیں ہے خاصا خطرناک ہوسکتا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابو بکر البغدادی کی بے رحم حکومت کا اس خلافت کے ساتھ دور کابھی واسطہ نہیں جس کی تصویر مسلمانوں کےذہن میں ہے، لیکن دولت اسلامیہ کے رہنما کے اعلان سے عراق و شام سے دور بیٹھے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک امنگ ضرور پیدا ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی آخری خلافت، خلافت عثمانیہ تھی جسے ختم ہوئے اس موسم بہار میں 90 برس ہوچکے ہیں ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جب 2006 میں گیلپ کے ایک جائزے میں مصر، مراکش، انڈونیشیا اور پاکستان کے مسلمانوں سےپوچھا گیا تو ان میں سے دو تہائی نے اس خیال کی حمایت کی تھی کہ ‘ تمام اسلامی ممالک’ کو ایک نئی خلافت کے پرچم تلے متحد ہوجانا چاہئے ۔ آخر وجہ کیا ہے کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی اکثریت ایک ایسے خیال کی تائید کرتی ہے جو ہمیں محض ایک خواب دکھائی دیتا ہے ؟ اس سوال کاجواب ہمیں خلافت کی تاریخ میں ملتا ہے۔ لفظ ‘ خلیفہ’ کامطلب نمائندہ یا نائب ہے اورقرآن ا س لفظ کو حکومت کے معنی میں استعمال کرتا ہے ۔ حضرت آدم، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان میں سے ہر ایک کو قرآن زمین پر خدا کاخلیفہ کہتاہے۔ اور جب 632 عیسوی میں پیغمبر اسلام کی وفات ہوگئی تو یہ لقب ان کے بعد مسلمانوں کے اگلے رہنما کےحصے میں آگیا جو چار خلفائے راشدین میں پہلے خلیفہ بنے ۔ اسلامی دور کی پہلی تین دہائیاں خلفائے راشدین کے ادوار پر مشتمل تھیں ۔ مشہور مصنف رضا پینکہر سٹ کے مطابق چاروں خلفائے راشدین کا تقرر عوامی رضا مندی کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا ۔ رضا پینکہرسٹ کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین کے دور میں یہ نظریہ مسلم ہوگیا تھا کہ خلیفہ عوام کی مرضی سے مقرر ہوگا اور یوں مقرر کیے جانے والے خلیفہ پر لازم ہوگا کہ وہ اپنی رعایا کی بھلائی کےکام کرے، اسلامی قوانین نافد کرے اور یقینی بنائے ان قوانین پر عمل بھی ہو۔’رضا پینکہر سٹ کا کہنا ہے کہ ‘ سچا خلیفہ’ کبھی بھی قانون سے بالا تر نہیں ہوسکتا ۔ خلافت میں اتنی کشش کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ خلافت مسلمانوں کو ان عظمت کی یاد دلاتی ہے۔ پیغمبر اسلام کے انتقال کے 70 برس بعد بنو امیہ اور عباسیوں کی قائم کردہ مسلمان حکومت اسپین اور مراکش سے لے کر وسطی ایشیا تک اور وہاں سےلے کر موجودہ پاکستان کے جنوبی حصوں تک پھیل چکی تھی اور یہ اتنی بڑی حکومت صرف ایک خلیفہ کے تابع تھی ۔ تاریخ دان پروفیسر ہیو کینیڈی کہتے ہیں کہ ‘ یہی وہ مسلمانوں کا اتحاد تھا اور ان کی خود مختاری تھی جو مسلمانوں میں خلافت کی کشش کا بڑا سبب ہے’۔
اسلامی تاریخ کا سنہری دور ادب او رتہذیبی ترقی کا دور تھا ۔ مثلاً عباسیوں کے دور میں ادب، موسیقی کی بہت پذیرائی ہوئی اور طب ، سائنس اور ریاضی کے میدانو ں میں ایسی ترقی ہوئی کہ جس سے دنیا تبدیل ہوگئی ۔ لیکن بنو امیہ اور بعد میں عباسیوں کی سلطنت اس قدر تیزی سے پھیلی کے بعد میں آنے والے سلاطین کے لیے اتنی بڑی ریاست کو یکجا رکھنا مشکل ہوگیا ۔ جوں جوں سیاسی قوت تقسیم ہوتی گئی ، نہ صرف مسلمانوں کو نئے نئے سیاسی امتحانوں کا سامناکرنا پڑا ، بلکہ خلافت کے نظریے کی مذہبی بنیادیں بھی کمزور ہوتی گئیں ۔ اتحاد میں پوشیدہ طاقت اصل میں خلافت کے نظریے کے ساتھ جڑی ہوئی تھی، لیکن دنیا نے دیکھا کہ محض ایک سو سال کے اندر اندر مسلمان دنیا میں متوازی خلافتیں منظر عام پر آگئیں اور خلافت ریاستوں میں تقسیم ہونا شروع ہوگئی ۔ یہاں تک کہ بعض اوقات متوازی خلافتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوناشروع ہو گئیں ۔ عباس خلافت پانچ سو برس پر محیط تھی اور اس کا خاتمہ ایک خونریز جنگ کے بعد سنہ 1258 میں اس وقت ہوا جب بغداد پر منگولوں نے قبضہ کر لیا اور یوں اس شہر کے آخری خلیفہ کو قالین میں لپیٹ کر منگولوں نے اپنے گھوڑوں کے سموں کے نیچے دے دیا ۔ اپنے تئیں منگول اس خلیفہ کی عزت کررہے تھے کیونکہ ان کے ہاں کی شہنشاہ کو یوں مارنا کہ اس کا خون بہے، شہنشاہ کی عظمت کے خلاف تھا ۔ منگولوں کے ہاتھوں بغداد کے لٹ جانے کے بعد بھی خلافت کا نظریہ اور ادارہ زندہ رہا ۔ عباسی خاندان کے بچے کچھے افراد کو مملوکوں نے قاہرہ میں اعزاز ی خلفا کے طور پر تعینات کردیا ۔ ان اعزازی خلفا کی اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں تھی کہ وہ پوشاکیں پہن کر مملوکوں کے درباروں کی زینت بڑھائیں ۔ لیکن یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ انہیں درباروں میں جگہ دیکر مملوکوں نے خلافت کا نظریہ کم از کم ایک خیال کی حد تک زندہ ضرور رکھا ۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ جب 16 ویں صدی کے آغاز پر قلیل مدت کے لیے ایک نئی اسلامی سلطنت قائم ہوئی تو عثمانیوں کو ایک عارضی عروج حاصل ہوا تو انہوں نے بھی اپنے لیے خلیفہ کا خطاب ہی استعمال کیا ۔ عثمانیوں کا یہ دور چار سو برس تک جاری رہا ۔
خلافت کاچراغ آخر کار اس وقت گل ہوا جب سنہ 1924 میں جدید تر کی کے بانی کمال اتاترک نے اس کے باقاعہ اختتام کااعلان کردیا ۔ کمال اتترک کا خیال تھاکہ اسلامی سلطنت کے بچے کچھے علاقوں کو یکجا کرکے ایک نئی جدید سیکولر ریاست کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ خلافت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے ۔ آخری عثمانی خلیفہ کو استنبول سے جلا وطن کردیا گیا جس نےاپنی باقی زندگی پیرس میں ایک معزول شاہ کی حیثیت میں بسر کی ۔ معزول خلیفہ کی بے توقیری اپنی جگہ ، لیکن وہ جس خطاب کے نمائندہ تھے، وہ خطاب تقریباً 13 سو برس تک مسلمانوں کی حکومت کی علامت رہ چکاتھا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اتاترک کے ہاتھوں خلافت کا باقاعدہ خاتمہ بھی مسلمانوں کے ذہنوں سے خلافت کے نظریے کو نہیں نکال سکا۔ لیڈز یونیورسٹی سے منسلک محقق سلمان سیدکہتے ہیں کہ خلافت کے خاتمے کے بعد سنہ 1920 کی دہائی میں مسلمان مفکرین نے خود کو ایک ایسے مقام پر پایا جہاں ان کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ کچھ ایسے بنیادی سوال اٹھا ئیں جن سے ان ماضی میں کبھی سابقہ نہیں پڑا تھا ۔ کیا مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک اسلامی مملکت زندگی بسر کریں؟ اس ریاست کی شکل کیا ہونی چاہئے ؟ 20 ویں صدی کے وسط میں مصر کے جمال عبدالناصر جیسے رہنماؤں نے ان سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی اور تمام عرب دنیا کے ایک مشترکہ فرمانروا کا خیال دیا جو ایک سیکولر ریاست کا سربراہ ہو۔ ناصر نے اس کو خیال تک محدود نہ رکھا بلکہ انہوں نے ‘ متحد ہ عرب ریپبلک ’ کے قیام کا بھی اعلان کیا جس میں مصر اور شام دونوں شامل کئے گئے ۔ لیکن مشرق وسطیٰ میں اس وقت سب کچھ تبدیل ہوگیا جب اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی ۔ رضا پینکہرست کے بقول ‘ عظیم عرب’ کاخواب اسرائیل کی فوجی بر تری کی چٹان سےٹکرا کر پاش پاش ہوگیا ۔ ‘ متحدہ عرب کے نظریے کی کشش یہ تھی کہ مسلمان ممالک یکجا ہوکر اپنی کھوئی ہوئی عظمت بحال کرسکتے ہیں اور یوں وہ فلسطین کو آزاد کراسکتے ہیں ۔ لیکن جب ہمیں سنہ 1967 میں اسرائیل کے ہاتھوں حزیمت بھری شکست کا سامنا کرنا پڑا تو مسلمانوں کومعلوم ہوا کہ ان کا اتحاد اور خلافت کا نظریہ کس قدر کھوکھلا نعرہ بن چکا ہے۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ ‘ عرب بہار’ جیسی تحریکوں سےظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں عوام دراصل ان حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں جو ان کے خیال میں مطلق العنان ہیں اور ان کی حکومتیں مبنی پر انصاف نہیں ۔
اس کے علاوہ مسلمان مفکرین کے ہاں بھی خلافت کے نظریے کے بارے میں مختلف خیالات پائے جاتے ہیں ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اسلامی ممالک کے درمیان کسی دور رس اور دیر پا اتحاد کے دور دور تک کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے، دولت اسلامیہ کمال مہارت سے مسلمانوں کی خلافت کی تاریخ سے ایسے نکات ضرور نکال لیے ہیں جنہیں استعمال کر کے وہ اپنے عزائم میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ تاریخ داں ہیو کینیڈی کہتے ہیں کہ دولتِ اسلامیہ نے اپنے لیے سیاہ لباس اور سیاہ پرچموں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے کیونکہ 8 ویں صدی میں عباسیوں کے درباروں کا سرکاری لباس بھی ایسا ہی تھا اور آج دولت اسلامیہ کے جنگجو اور رہنما اپنے سیاہ لباسوں سے وہ مسلمانوں کو ان کے سنہری دور کی یاد دلاناچاہتے ہیں ۔ اسی طرح ‘ دولت اسلامیہ ’ کے نام سے تنظیم یہ ظاہر کرناچاہتی ہے کہ اس کے ہاں سیاسی سرحدوں کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ عراق اور شام کے موجودہ علاقے دراصل ایک ہی عظیم مملکت کے حصے رہے ہیں ، اسلامی ‘ خلافت’ کے صوبے ۔ دولت اسلامیہ کی کامیابی سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلافت کے فلسفے میں کس قدر جان ہے۔ ا س میں کوئی شک نہیں کہ دولت اسلامیہ بڑائی کے خبط میں مبتلا ہے خود کو عہد رفتہ کی عظیم روایات کاامین سمجھتی ، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ تنظیم خلافت کے جس نظریے پر اپنی عمارت کھڑی کر رہی ہے وہ محض ایک خیال یا نظریہ نہیں، بلکہ اس سےکہیں زیادہ ہے۔
28 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ خبریں، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/caliphate-dreams,-deceit-truth-/d/99750