(پہلی قسط)
کنیز فاطمہ، نیو ایج اسلام
اخوت اور بھائی چارہ نوع انسانی کے لیے اتنا اہم ترین عمل ہے کہ اس کے بغیر گھر،معاشرہ،اقوام و عالم سب کا چین و سکون ناممکن ہے اگر آپس میں اخوت و بھائی چارگی نہ ہو تو سب کے سب اختلاف و انتشار کے شکار ہو جائیں گے، اور دنیا سے امن و امان اٹھ جائے گا اوراس طرح گھر گھر فتنہ و فساد برپا ہونے لگے گا۔دنیا میں امن و سلامتی کے قیام کی خاطر ہی اسلام نے اخوت و بھائی چارگی کی تعلیم پر زور دیا ہے ۔ اللہ عز و جل کا فرمان عالی شان ہے‘‘وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّـهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٧١﴾’’
ترجمہ:مومن مرد و عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار و معاون)دوست ہیں،وہ بھلائیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے ہیں،نماز قائم کرتے ہیں، زکاۃ اداکرتے ہیں، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ بہت جلد رحم فرمائے گا، بے شک اللہ غلبے والا خوب حکمت والا ہے۔(سورہ توبہ آیت نمبر ۷۱)
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے سب سے پہلے‘‘بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ’’ فرما کر یہ تعلیم دے دیا کہ جب تم آپس میں دوست رہو گے اسی وقت کامیاب رہو گے،جب تم آپس میں ایک دوسرے کو بھائی سمجھو گے اسی وقت برائی سے رکو گے اور اچھائی کر سکو گے کیوں کہ یہی ہیں جنہیں‘‘ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ’’ کا خطاب ملا ہے۔
سورۃ الحجرات کی آیت نمبر۱۰ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ )
۔ ترجمہ:‘‘ مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو’’۔
یہ آیت کریمہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک عالمگیر برادری قائم کرنے کی تعلیم دیتی ہے۔ اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں بیان فرمایا ہے جس سے اس کی پوری پوری وضاحت ہوتی ہے۔
حضرت جریر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھ سے تین باتوں پر بیعت لی تھی۔ ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا دوسرے یہ کہ زکوٰۃ دیتا رہوں گا تیسرا یہ کہ ہر مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا۔ ( بخاری کتاب الایمان)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ‘‘مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے’’ (بخاری)۔
ایک انسان کو دسرے کے لئے اتنا محترم کردیا کہ اس سے اختلاف کو ناجائز و غیر مستحسن قرار دیا، لہٰذا اخوت اور بھائی چارہ کی بنیاد اس امر پر قائم ہوتی ہے کہ انسان ایسی اعلیٰ اقدار پر ایمان رکھتا ہو جو اسے دوسرے انسان کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر آمادہ کرے خواہ وہ کسی مذہب رنگ،نسل اور نظریہ سے تعلق رکھتا ہو۔
اسلام مسلمانوں کو تعلیم دیتا ہے کہ وہ غیر مسلموں کو بھی انسانیت کے حوالے سے تمام انسانی حقوق کا مستحق تصور کریں جیساکہ اکثر ان میں ایسا ہی کرتے ہیں۔ اسلام کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے کام لیا جائے اور ہر شخص سے انصاف کیا جائے۔
حضور نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا: اے لوگو!میری بات سنو۔اچھی طرح جان لو کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ اس سے خیانت نہیں کرتا اس سے جھوٹ نہیں بولتا اور نہ تکلف کے وقت اسے تنہا چھوڑتا ہے۔ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی آبرو و مال اور خون حرام ہے۔ (ترمذی شریف)
اس حدیث پاک میں مسلمانوں کو بھائی چارگی او رآپسی اخوت و محبت کی تعلیم ملتی ہے۔
ایک موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَثَلُ المؤمنين في تَوَادِّهم وتراحُمهم وتعاطُفهم: مثلُ الجسد، إِذا اشتكى منه عضو: تَدَاعَى له سائرُ الجسد بالسَّهَرِ والحُمِّى )) [أخرجه البخاري ومسلم عن النعمان بن بشير]
‘‘مومنوں کی مثال آپس کی محبت،وابستگی اور ایک دوسرے پر رحم و شفقت کے معاملے میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کی حالت ہوتی ہے کہ اس کے کسی عضو کو بھی تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی وجہ سے بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔’’(صحیح البخاری،حدیث:۶۰۱۱)
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:‘‘ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ’’
ترجمہ:‘‘ اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں نہ بٹ جانا) اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچادیا اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم ہدایت پاؤ’’۔(آل عمران۳: ۱۰۳)
اسی طرح ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ " قسم ہے اس جان کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے’’(صحیح بخاری ،صحیح مسلم)
ارشاد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہے:‘‘مومن ایک مومن کے لئے ایک دیوار کی طرح ہے،جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ سے پیوستہ ہے یعنی مضبوطی کا ذریعہ ہے ۔ ’’ (صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ ، صحیح مسلم باب تراحم المومنین)
ارشاد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہے : ‘‘مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو اکیلا چھوڑتا ہے اور جو اپنے بھائی کے کام آئے گا، اللہ اس کے کام آئے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی تکلیف کو دور کرے گا،اللہ قیامت کے دن کی تکلیفوں سے اس کی تکلیف کو دور کرے گا اور جوکوئی کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا،اللہ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی کرے گا۔’’(صحیح بخاری)
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:‘‘آپس میں ایک دوسرے سے حسدنہ کرو،ایک دوسرے پر بولی نہ بڑھاو، ایک دوسرے سے دشمنی نہ کرو، ایک دوسرے سے بے رخی نہ برتو اور ایک دوسرےکے بیچ میں چڑھ کر خرید و فروخت نہ کرو۔ اس کے بجائے آپس میں اللہ کے بندے اور بھائی بن کر رہو۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو گری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑتا ہے،اللہ کا ڈر یہاں (یعنی دل میں) ہوتا ہے ۔ایسا کہتے ہوئے آپ نے تین بار اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔ آدمی کے برا ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو گری ہوئی نگاہ سے دیکھے۔ ہر مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کی جان و مال،عزت اور آبرو حرام ہے۔’’(صحیح بخاری،مسلم)
صحیح بخاری کی ایک حدیث ایسی بھی ہے جس میں صحابہ کرام نے مواخات کی انتہا کردی ہے،واقعہ یہ ہے کہ سعد بن ربیع جب عبد الرحمن بن عوف کے بھائی قرارپائے تو وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور ہر چیز نصف کر کے ان کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ میری دو بیویاں بھی ہیں ۔ ان میں سے کوئی ایک جسے تم پسند کرو، میں اسے طلاق دیتا ہوں تم اس سے نکاح کر لو۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے سعد ربیع رضی اللہ عنہ کی اس پیش کش کا احسان مندی کے ساتھ انکار کردیا۔(صحیح بخاری کتاب المناقب )
ارشاد نبوی ہے:‘‘تم میں سے کوئی شخص ایمان والا نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی کچھ نہ پسند کرے جو کہ وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔’’
آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ میں جابجا یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تمام امت دعوت ہو یا استجابت آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ الفت وبھائی چارگی قائم کریں،ایک دوسرے کے حقوق کو پہچان کر ان کو ادا کرنے کی کوشش کریں، اور ہر مصیبت اور ضرورت کے وقت ان کا ساتھ دیں۔
محبت کرنے کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے بارے میں عمومی پسندیدگی،قبولیت اور تعاون کا رویہ رکھا جائے۔اس عمل کی ابتدا والدین سے ہوتی ہے، پھر اس میں بیوی بچے ، بھائی بہن، رشتے دار، پڑوسی، دوست احباب اور دیگر متعلقین یکے بعد دیگرے سبھی کو شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم تمامی کو اخوت و بھائی چارگی کے ساتھ رہ کر امن و امان قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
(جاری)
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism