New Age Islam
Sat Apr 01 2023, 06:50 AM

Urdu Section ( 14 Jan 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What is the Ruling on Women Going to The Masjid Concluding Part -3 کیا عورتیں مسجد میں جاسکتی ہیں

 

آخری قسط

کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام

حالات زمانہ کے بدلنے سے مسائل میں تبدیلی 

عورتوں کو نماز باجماعت سے منع کرنا کتاب و سنت کے موافق ہونے کے ساتھ ساتھ تبدیلی احکام کے اصولوں کی روشنی میں بھی جائز و مباح ہے ۔ 
اس لیے کہ جس احکام میں تبدیلی جائز ہے انھیں حکموں میں سے عورتوں کا مساجد میں نماز باجماعت پڑھنے کا بھی حکم ہے ۔ یہ اس لیے بتانا پڑا کہ ہر مسئلہ میں تبدیلی نہیں کرسکتے علماے کرام انھیں احکام میں تبدیلی کرتے ہیں جو عہد رسالت و عہد صحابہ کے بعد اجتہادی غیر اجماعی ہو وہ احکام خاص مدت گزر جانے کی وجہ سے نہ ہو جیسا کہ عہد رسالت میں نافذکردہ احکام کے ساتھ ہو اوہ علم الہٰی اور علم رسول میں ایک خاص مدت تک کے لئے نافذ ہوئے تھے ۔ اس لئے جب وہ مدت پوری ہوگئی تو حکم بدل گیا اس قسم کی تبدیلی کو نسخ اور بدلے ہوئے حکم کو منسوخ کہتے ہیں ۔ اور جس حکم جدید سے تبدیلی ہوئی ہو اسے ناسخ کہا جاتا ہے ۔ جس کو قرآن حکیم نے یوں بیان فرمایاہے ۔ ماننسخ من اٰیۃ او ننسھانات بخیر منھا او مثلھا’’جب کوئی آیت ہم منسوخ فرمائیں یا بھلادیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آئیں گے ۔ (۱۰۶؍البقرہ ۔ ۲(

بر خلاف اس کے عہد رسالت وصحابہ کے احکام میں تبدیلی کا معاملہ جو کہ اجتہادی اور غیر اجماعی ہو وہ اس وجہ سے ہے کہ جس بنیاد پر وہ قائم تھے، وہ بنیاد حالات زمانہ کے بدلنے سے بدل گئی اس لئے ان پر مبنی احکام بھی بدل گئے ۔ اور اس طرح بدلنے کی متعد د وجوہات ہیں ۔ مثلا :
(
۱) ضرورت (۲) حاجت (۳) عموم بلویٰ (۴) عرف (۵) تعامل (۶)دینی ضروری مصلحت کی تحصیل (۷) کسی فساد موجود یا مظنون بظن غالب کا ازالہ ۔ 

بلکہ عہد رسالت و عہد صحابہ کے بہت سے احکام جو شرعی بنیادوں میں سے کسی پر قائم ہیں وہ بھی ان ساتوں بنیادوں پر بدل سکتے ہیں بلکہ بہت سے احکام تو بدل بھی چکے ہیں ۔ جیساکہ پہلے چہرے کا پردہ واجب نہ تھا لیکن اب واجب ہے ۔ 

اس کے بدلنے میں وجہ یہ بتائی گئی کہ حضور سید عالم ﷺ کا زمانہ اقدس بڑے تقویٰ اور خوف خدا کا تھا ، عام طور پرلوگ گناہوں سے بچتے تھے مگر جب حالات زمانہ بدل گئے اور لوگ معصیت کبریٰ کو بھی معمولی سمجھ کر کرنے لگے تو اس پر علما کرام نے اس حکم کو بدل کر چہرہ چھپانے کا وجوبی حکم صادر فرمایا۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے احکام ایسے ہیں جو عہد رسالت و عہد صحابہ میں تھے لیکن حالات زمانہ کے بدلنے کے ساتھ ساتھ ان احکام کو بھی بدل دیا گیاجن کا بدلنا کوئی ناجائز و حرام اور بد عت سیہ و گمراہی نہیں بلکہ اس طریقہ کی تبدیلی کی شہادت خو د صاحب شرع ، رسول کائنا ت ، سرور دو عالم ﷺ دے رہے ہیں ۔ 

جس میں حضور ﷺ کی طرف سے وارثین علم کے لئے یہ ہدایت بھی مذکور ہے کہ اچھے زمانہ کے لوگوں کے احکام کو سامنے رکھ خراب اور برے زمانے کے لوگوں پر احکام مت صادر کرنا ۔

انبیا کے وارثین نے اسی حدیث مبارک پر عمل کرتے ہوئے اور موجودہ زمانہ میں ارتقا غفلت کو ملحوظ رکھتے ہوئے بہت سے احکام میں تبدیلی کیا مثلا تارک الصلوٰۃ جو عہد رسالت و صحابہ میں کافر شمار ہوتا تھا آج وہ نہ ہمارے نزدیک کافر شمار کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے نزدیک جو اس بات کی رٹ لگا تے ہیں کہ جب حضور ﷺنے ایسا نہیں کیا تو اوروں کا کیاحق بنتا ہے ۔ 

یوں ہی حضور کے زمانہ میں تو لوگ عام طور سے جوتا پہن کرنماز پڑھتے بلکہ خود حضور ﷺ نے صحابہ کو اس کا حکم دیا ۔ اور ارشاد فرمایا کہ یہودی موزہ جوتا پہن کر نماز نہیں پڑھتے تو تم ان کی مخالفت کرو ۔ 

لیکن آج جوتا میں نماز پڑھنا تو بڑی بات ہے اگرکسی غیر مقلد کی ہمت ہوتو جوتا پہن کر مسجد میں گھس جائے ، یا فرش پر ہی جوتا پہن کر ٹہلنے لگے اور اگر کوئی ٹوکے تو انہیں للکار ے کہ حضور ﷺ نے تو جوتا پہن کرنماز پڑھائی اور اس کا حکم دیا ، تم لوگوں کو روکنے کا کیا حق ہے ؟ تو مسلمان اس کے پیر میں کیا پورے سر پہ جوتوں کی بوچھار کردیں گے۔ 

لہٰذا جب یہ امور آج کے عہد میں عہد رسالت کے خلاف ہو رہے ہیں ، اور ان کو اسی طر ح اداکرنا مسلمان کار ثواب سمجھتے ہیں ، اور خود غیر مقلد بھی مسجد میں کسی جانور کا گھسنا اور نماز کی جگہ جوتا پہن کر چلنا یا جوتا سمیت نماز پڑھنا خلاف ادب سمجھتے ہیں ، تو اس غیر مقلد کو اس کا کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ امام بر حق خلیفہ راشد نائب رسول اللہ ﷺ حضرت فاروق عادل بین الحق و الباطل پر یو ں زبان طعن دراز کرے ۔خذلھم اللہ ۔

بات اصل یہ ہے کہ بہت ایسے احکام ہیں جو وقت اور زمانہ کے تغیر اور عرف و عادت کے اختلاف سے بدل جاتے ہیں ۔

لیکن اس کے باوجود بھی گستاخ غیر مقلدین کا یہ کہنا کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو اس کا کیا حق کہ عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے منع کریں اور ان کے حضور ﷺ کے عطا کردہ حق کو چھینیں جو آپ نے عورتوں کے متعلق فرمایا تھا لاتمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ ۔ 

ان گستاخوں کو یہ نہیں معلوم کہ آقا ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہٗ کو کئی جگہ کئی طریقے سے حق عطا فرمایا ہے ۔ کسی جگہ آپ نے عموما حق عطاء کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ  ‘‘میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے تم جن کی پیروی کروگے ہدایت پاؤگے ’’ ۔ (رواہ رزین بحوالہ مشکوٰۃ ۵۵۴)
اس حدیث مبارک میں مختار دو جہاں نے تمام صحابہ کرام کی اقتدا کو ذریعہ نجات بنا دیا ہے ۔لہٰذا جب تمام صحابہ کی پیروی کا اختیار ہمیں من جناب سرکار عطا ہو چکا ہے تو جو صحابہ کے سردار ہیں ہم نے ان کی پیروی کرلی تو کیا عجب ہے ۔ حالاں کہ ان کے بارے میں سرکار نے تو یہاں تک فرمایا دیاہے کہ اگر میرے بعد بھی کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر فاروق ہوتا۔

پس جن کا مرتبہ اتنا بلند ہو ان کی جانب سے حق تلفی کا شائبہ بھی کیا جاسکتا ہے نہیں ہر گز نہیں ۔ 

اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ کو اختیار کی دوسری سند دیتے ہوئے آقا ﷺ یو ں ارشاد فرماتے ہیں جو خصوصا خلفاے راشدین کے تعلق سے ہے ۔
’’
تم میرے طریقہ کو لازم پکڑنے کے ساتھ ساتھ میرے خلفاے راشدین کے طریقے کو بھی لازم پکڑو’’ ۔ 

تو کیا خلفاے راشدین میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نہیں ہیں جو انہوں نے ان کے حق کی بات کی اور اس قسم کے نازیبا الفاظ استعمال کئے ۔ 
حالاں کہ سرکار نے تو خلفاے راشدین میں سے بھی خاص کرکے ان کے اور صدیق اکبر کے بارے میں ارشاد فرمایا ۔ ‘‘کہ کیا معلوم میں کب تک تم میں رہوں لہٰذا میرے بعد رہنے والے ابوبکر و عمر کی پیروی کرنا’’۔

لہٰذا جب سرکار نے آپ کو بے شمار اختیارات عطا فرماکر مختار بنا دیا اور فرمایا کہ میرے بعد رہنے والے کو جو حکم ابو بکر و عمر دیں وہی حق اور حکم مصطفی ہے ۔ 

عورتوں کی امامت و جماعت :

۱۔  عن عائشۃان رسول اللہ ﷺ قال لا خیر فی جماعۃ النساء الا فی المسجد او جنازۃ قتیل۔ (مجمع الزوائد ص ۳۳ ج۲ )

حضرت عائشہ سے رویت ہے کہ رسول اقدس ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں کی جماعت میں ذرہ بھی خیر نہیں مگر یہ کہ مسجد میں یا شہید کے جنازہ میں۔ (مجمع الزوائد ص ۳۳ ج۲ )

اس حدیث میں آقا ﷺ نے صاف صاف فرمادیا کہ عور توں کی جماعت میں کوئی بھلائی نہیں ہے مگر اس کے باوجود بھی اگر کوئی عورتوں کی نماز باجماعت کو جائز قرار دے تو وہ خود عورتوں کا کتنا بڑاتالیف حق ثابت ہوگا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم عورتوں کو ان ظالموں کے ظلم سے محفوظ رکھ کر تادم حیات فرمان رسالت مآب ﷺ پر عمل کے ساتھ ساتھ ایمان و عقیدہ کے حفاظت کی نیک توفیق عطا فرمائے ۔ آمین 

یہ تو جماعت سے ممانعت کی حدیث تھی اب ذیل میں امامت سے ممانعت کی حدیث ملاحظہ کریں ۔ 

چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لاتؤم المراۃ(المدونۃ الکبریٰ ص ۸۲ ج۱ مصنف ابن ابی شیبہ ص ۵۳۷ ج۱) کہ عورت امامت نہ کرے۔ 

۲۔ حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نافع کو لکھا اور ان سے عورت کی امامت کا مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا لااعلم المراۃ تؤم النساء (مصنف ابن ابی شیبہ ص ۵۳۷ ج۱) ترجمہ : میں نہیں جانتا کہ کوئی عورت عورتوں کی امامت کرتی ہو ۔ 

اس سے یہ امر عیاں ہے کہ خیر القرون میں کوئی جانتا بھی نہ تھا کہ عورت عورتوں کی امامت کرے تو آج ہم عورتوں کو خیر القرون کی عورتوں سے آگے بڑھنے کی جرات بالکل نہیں کرنی چاہیے بلکہ انہیں پاک بازوں کی سیرت کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

حاصل کلام یہ کہ وقت و حالات کے فتنوں کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو مسجد میں جانے کی ہر گز ہر گز اجازت نہ دی جائے جو لوگ اس پر مصر ہیں وہ دین میں فتنہ کا دروازہ کھول کر عظمت اسلام کو داغ دار کرناچاہتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

URL for Part-1:https://www.newageislam.com/urdu-section/ruling-women-going-masjid-part-1/d/113882

URL for Part-2:https://www.newageislam.com/urdu-section/ruling-women-going-masjid-part-2/d/113909

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/ruling-women-going-masjid-concluding-part-3/d/113937


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..