New Age Islam
Tue Feb 18 2025, 05:58 PM

Urdu Section ( 29 March 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Terrorism and Misuse of the word Jihad دہشت گرد او ر لفظ جہاد کا غلط اطلاق

کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام

داعش ، القاعدہ اور طالبان جیسے موجودہ دور کی  دہشت گرد اور انتہاپسند قرآن و حدیث کے بعض اصطلاحات کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔یہ بات کسی منصف محقق پر مخفی نہیں کہ دہشت گرد تنظیمیں قرآن کریم کی بعض آیات او ربعض احادیث مبارکہ  کا استعمال  ان کے شان نزول اور تاریخی سیاق و سباق سے الگ کرکے  کر رہے ہیں۔جن آیات و احادیث کا تعلق جنگی واقعات سے ہے ان کا اطلاق یہ لوگ ایسے ماحول میں کر رہے ہیں جہاں مسلم اور غیر مسلم  پر مشتمل لوگ امن و شانتی سے گزر بسر کر رہے ہیں۔دہشت گردوں کی جماعت  اپنے غیر اسلامی اہداف کے پیش نظر جہاد، شہادت ، خلافت ، دار الحرب اور دار الاسلام جیسی اصطلاحات کا غلط  استعمال کرکے عام مسلمانوں اور خصوصا نوجوانوں کو گمراہ کر تے ہیں اور وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ قرآن و حدیث میں ہے۔ جبکہ دہشت گردوں کی جانب سے یہ اسلام پر بہت بڑا الزام اور شریعت پر محض افترا ہے ۔ ان کے اس  خطرناک نظریے کا قرآن و حدیث اور اسلام کی بنیادی تعلیمات کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ کسی زمانے میں اسلام  کی ان اصطلاحات کا استعمال خالص دین ، جان و مال کی حفاظت اور ہر طبقہ کے شہریوں کے تحفظ کے لئے ہوتا تھا لیکن آج لوگ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ان اصطلاحات کا بے دریغ استعمال کر کے سادہ لوح مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیل رہے ہیں ۔ایسے لوگوں کے پاس عوام کو متاثر کرنے کے لیے کوئی منظم پروگرام نہیں ہوتا اس لیے وہ قرآن و حدیث کے اصطلاحات کا استعمال کرکے عوام کو مشتعل کرنے اور پھر اپنے ذاتی مقاصد کی تحصیل کی کوشش کرتے ہیں۔دہشت گردوں کے ذریعے سب سے زیادہ غلط استعمال جس لفظ کا ہوتا ہے وہ لفظ  جہاد ہے ۔اور لفظ جہاد کے غلط استعمال کے سبب ہی بعض لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جہاد کا معنی قتال ہے ۔حسب ذیل ہم اسی  بد گمانی کو دور کرنے کی کوشش کریں گے ۔

غور طلب بات ہے کہ جہاد کا حکم سب سے پہلے مکہ میں اس وقت نازل ہوا جب کہ ابھی جہاد بالسیف  یا دفاعی جنگ کی اجازت بھی نہیں ملی تھی ۔ مکہ کے ابتدائی دور میں صحابہ کرام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے مگر انہیں اپنی حفاظت میں لڑنے کی اجازت نہیں تھی۔دفاعی جنگ کی ممانعت کے لیے بھی مکہ شریف میں تقریبا ستر آیات کریمہ کا نزول ہوا  مگر جہاد کے متعلق پانچ آیات کریمہ نازل ہوئیں ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے اگر مکی دور میں  ستر آیات کریمہ کے نزول نے جنگ کی ممانعت کر دی تو  پھر جہاد کے متعلق  تب پانچ آیتیں کیوں نازل  ہوئیں ؟ کیا جہاد کا معنی قتال نہیں ؟ آئیے ہم حسب ذیل میں تحریر میں بخوبی سمجھیں۔

امام رازی اپنی تفسیر کبیر میں سورہ حج کی آیت ۳۰ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

ترجمہ : ‘‘قتال کی ممانعت میں ستر سے زائد آیات کریمہ کا نزول ہوا پھر اس کے بعد یہ (سورہ حج آیت ۳۹) پہلی آیت تھی جس میں قتال کی اجازت دی گئی۔ ’’

دنیا کے تمام مسلموں اور غیر مسلموں کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر جہاد کا معنی قتال اور مسلح تصادم ہی ہوتا تو مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی درج ذیل  پانچ آیات کریمہ کی کیا توجیہ ہوگی جن میں صاف طور پر  جہاد کا حکم دیا گیا ہے ؟ یہ پانچوں آیتیں ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں نازل ہوئیں جب  اپنی حفاظت میں بھی ہتھیار اٹھانے کی سختی سے ممانعت تھی اور تاریخ اس بات پر گواہ ہے مسلمانوں نے اس مکی دور میں عملا کوئی جنگ نہیں لڑی۔ اگر جہاد کا معنی لڑنا ہوتا یا قتال ہوتا  تو  مکی دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ضرور ہتھیار اٹھاتے اور اپنی حفاظت میں جنگ لڑتے ، لیکن ان میں سے کسی کو بھی اس وقت جنگ کی اجازت نہیں حالانکہ جہاد کے متعلق پانچ آیات کا نزول ہو چکا تھا۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ لفظ جہاد کا استعمال مسلح لڑائی کے علاوہ کئی اور معانی میں ہوتا ہے ۔ایک نقطہ بہت اہم ہے کہ آج اگر کوئی ملک کسی ملک پر حملہ کرے تو دوسرا ملک فوری طور پر دفاعی جنگ شروع کر دے گا لیکن مکی دور کے مسلمانوں کی صبر  کا اندازہ لگائیے کہ تقریبا  تیرہ سال تک صعوبتوں اور ظالموں کے ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے باوجود بھی دفاعی  جنگ کے لیے ہتھیار نہیں اٹھائے۔یہ وہ نقطہ ہے جسے ہر صاحب علم و دانش کو غور کرنا چاہئے ۔آئیے  مکی دور میں جہاد کے متعلق نازل ہونے والی  درج ذیل پانچ  آیات پر غور کریں  ۔

۱۔ (فلا تطع الکافرین وجاھدھم بہ جھادا کبیرا ) (۲۵: ۵۲)

ترجمہ : تو (اے مومن!)  کافروں کا کہنا نہ مان اور اس قرآن (کی دعوت و دلائل )سے ان پر جہاد کر بڑا جہاد۔

اس آیت کریمہ میں بڑے جہاد سے مراد علم و فکر اور بیداری پیدا کرنے کی جد و جہد مراد ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ اس آیت میں  میں جہاد سے مراد قتال یا جہاد بالسیف ہر گز نہیں ۔

۲۔( ومن جاھد فانما یجاھد لنفسہ ان اللہ لغنی عن العالمین) (۲۹: ۶)

ترجمہ : اور جو اللہ کی راہ میں کوشش کرے تو اپنے ہی بھلے کو کوشش کرتا ہے بیشک اللہ  تمام جہانوں سے بے نیاز ہے ۔

اس آیت کریمہ میں جہاد سے  اخلاقی اور روحانی ترقی کے لیے کوشش کرنا  مراد ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ اس آیت میں  میں جہاد سے مراد قتال یا جہاد بالسیف ہر گز نہیں ۔

۳۔ (وان جاھدک لتشرک بی مالیس لک بہ علم فلا تطعھما) (۲۹: ۸)

ترجمہ : اور اگر تو وہ تجھ سے کوشش کریں کہ تو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو تُو ان کا کہنا نہ مان۔

علمائے کرام نے اس آیت کریمہ میں جہاد سے مراد ہر طرح کی علمی ، فکری ، نظریاتی یا اعتقادی جد و جہد  لیا ہے  ۔ تو معلوم ہوا کہ اس آیت میں  میں جہاد سے مراد قتال یا جہاد بالسیف ہر گز نہیں ۔

۴۔ (والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا و ان اللہ لمع المحسنین )(۲۹: ۶۹)

ترجمہ : اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔

اس آیت مبارکہ میں اخلاقی ، روحانی اور انسانی اقدار کا  خیال کرنے اور انہیں  ترقی دینے کی کوشش کو جہاد کا نام دیا گیا ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ اس آیت میں  میں جہاد سے مراد قتال یا جہاد بالسیف ہر گز نہیں ۔

۵۔ وان جاھدک علی ان تشرک بی ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما (۳۱: ۱۵)

ترجمہ : اور اگر وہ دونوں تجھ سے کوشش کریں کہ میرا شریک ٹھہرائے ایسی چیز کو جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مان۔

مکی دور میں نازل ہونے والی اس آیت مبارکہ میں بھی اللہ تعالی نےعلمی ، روحانی ، اعتقادی  اور اخلاقی سطح پر کی جانے والی کوشش کو جہاد کا نام دیا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ اس آیت میں  میں جہاد سے مراد قتال یا جہاد بالسیف ہر گز نہیں ۔

جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ مذکورہ بالا پانچوں آیات  جو ہجرت سے قبل مکہ شریف میں نازل ہوئیں  ان  میں صراحۃ جہاد کا تذکرہ ہوا ہے لیکن پھر بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے کوئی جنگ مکی دور میں نہیں لڑی بلکہ انہیں دفاعی جنگ کی اجاز ت ہجرت مدینہ کے بعد دی گئی تھی ۔اگر جہاد کا معنی قتال ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکی دور میں ہی جہاد بالسیف کی اجازت دے دیتے ۔لیکن اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ جہاد بالسیف کی اجازت ہجرت مدینہ کے بعد ملی ۔ لیکن آخر ایسا کیوں ہوا ؟  اس کا معقول جواب ہے کہ جہاد کا معنی قتال ، جنگ یا لڑائی ہے ہی نہیں ۔ جو لوگ جہاد کا معنی جنگ یا لڑائی لیتے ہیں وہ  غلطی پر ہیں ۔

اگر آپ مکی دور  میں نازل ہونے والی  مندرجہ بالا پانچ آیات  پر غور کریں جن  میں جہاد کی تلقین دی گئی ہے  تو آپ کو معلوم ہوگا جہاد کا معنی صرف یہ نہیں ہے کہ بندوق لے کر جنگ یا لڑائی شروع کردی جائے بلکہ جہاد  کا معنی علم و معرفت کی ترویج و اشاعت   ، اخلاقی و روحانی ترقی، فکری و فلاحی کوشش، اور سماجی طور پر  مالی تعاون و خیرات ہے ۔ہاں جب جارحیت کی جنگ ملکی سطح پر آپ پر مسلط کر دی جائے تب آپ کو اجازت ہے کہ آپ اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور دفاع کی جنگ لڑیں ۔دفاعی جنگ وہ لڑائی ہے جس کی اجازت  یو این (UN) اور بین الاقوامی قانون بھی دیتا ہے ۔اور اس طرح کی دفاعی جنگ کی اجازت دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک کو حاصل ہے۔لیکن  آج کل دفاعی جنگ کے نام پر ناحق خون بہانے اور مظلوموں اور بے سہاروں پر ظلم کرنے کا رواج عام ہو گیا ہے جس کی اجازت نہ تو دنیا کا کوئی مذہب دیتا ہے اور نہ تو دنیا کا کوئی قانون ۔ 

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/terrorism-misuse-word-jihad-/d/114754

 

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism


Loading..

Loading..