کنیز فاطمہ، نیو ایج اسلام
(پہلی قسط)
اللہ تعالی رحمٰن و رحیم ہے ۔ اس نے اپنے بندوں کے لیے تمام معاملات میں نرمی اور آسانی پیدا فرمایا ۔ اس لئے اس نے اس کا نام ہی اسلام یعنی سلامتی والا مذہب رکھ دیا ۔
ارشاد باری تعالی ہے : ‘‘ان الدین عند اللہ الاسلام’’
لفظ اسلام سلم یا سلم سے ماخوذ ہے، جس کے معنی امن و سلامتی اور خیر وعافیت کے ہیں۔ لہٰذا یہ اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے سراسر امن و سلامتی کا مذہب ہے جو اپنے ماننے والے کو امن و سلامتی، محبت و رواداری، اعتدال و توازن اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے،اور سلامتی کے ساتھ ساتھ اپنے پیروکاروں کو اتنی آسانیاں فراہم کرتا ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ قرآن وحدیث میں امن وسلامتی، انسانی حقوق واقدار کی رعایت اور عدل و مساوات کے حوالے سے اچھا خاصا مواد ملتا ہے، جو وسیع پیمانے پر نرمی، رحمت، محبت، انسانیت کا احترام، حقوق و اقدار کی رعایت اور تخریب و فساد سے گریز کرنے کا سبق پڑھاتا ہے اسلام کے دین رحمت ہونے کے بین ثبوت یہ ہے کہ امن و سلامتی کے پھیلاوے کی غرض سے بھی کسی قسم کے فساد کی کوئی اجازت نہیں دیا اور ارشاد ربانی ہوا‘‘لاتفسدوا فی الارض’’۔ اس میں استعمال ہونے والا لفظ فساد امن کا متوازی لفظ ہے۔
جگہ جگہ فرمان رحمٰن اپنی رحمت کا اعلان کررہا ہے۔
کہیں فرماتا ہے:‘‘یرید اللہ بکم الیسر ولایرید بکم العسر’’
ترجمہ:‘‘اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا’’(سورہ بقرہ ،آیت نمبر ۱۸۵)
کسی جگہ یوں آسانی کی امیدیں بندھا رہا ہے:‘‘سیجعل اللہ بعد عسر یسرا’’
ترجمہ :‘‘قریب ہے اللہ دشواری کے بعد آسانی فرمادے گا’’ (سورہ طلاق آیت ۷)
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:‘‘فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴿٥﴾ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسر’’
ترجمہ : ‘‘تو بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے، بیشک دشواری کے ساتھ آسانی ہے’’ (سورہ الم نشرح ، آیت ۵اور۶)
اللہ عز و جل ارشاد فرماتا ہے:‘‘وَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرَىٰ’’
ترجمہ: ‘‘اور ہم تمہارے لیے آسانی کا سامان کردیں گے’’ (سورہ اعلی ، ۸)
رب تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے:‘‘فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَىٰ’’
ترجمہ: ‘‘تو بہت جلد ہم اسے آسانی مہیا کردیں گے’’ (سورہ لیل ۹۲، آیت ۷)
اور فرماتا ہے:‘‘وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ’’
ترجمہ: ‘‘اور بیشک ہم نے قرآن یاد کرنے کے لیے آسان فرمادیا تو ہے کوئی یاد کرنے والا’’ ( سورہ قمر ۵۴، آیت ۱۷، ۲۲، ۴۰)
ارشاد باری تعالی ہے:‘‘فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُون’’
ترجمہ : ‘‘تو ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں آسان کیا کہ وہ سمجھیں’’ ( سورہ دخان ۴۴، آیت ۵۸)
فرمان رب العالمین ہے:‘‘وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّـهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ يَنشُرْ لَكُمْ رَبُّكُم مِّن رَّحْمَتِهِ وَيُهَيِّئْ لَكُم مِّنْ أَمْرِكُم مِّرْفَقًا’’
ترجمہ:‘‘اور جب تم ان سے اور جو کچھ وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں سب سے الگ ہوجاؤ تو غار میں پناہ لو تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت پھیلا دے گا’’(سورہ کہف ،آیت ۱۸)
جگہ جگہ آسانی کا تذکرہ کر کے دین اسلام پر چلنا اتنا آسان کر دیا کہ اس کے فرائض تک کو تخفیف وتسہیل کر دیا اور بانئ اسلام نے یہ وضاحت کردیا کہ عبادت کے لئے طہارت فرض ہے لیکن اگر تم پانی کے استعمال سے قاصر ہوتو تیمم ہی کر لو پاک ہو جاوگے۔ نماز فرض ہے اپنی تمام فرائض و شرائط کے ساتھ لیکن اگر تم اس کو ادا کرنے کے قابل نہیں ہو تو اپنی سہولت کے مطابق ہی ادا کرلو اگر کھڑے نہ ہو سکو تو بیٹھ کر ہی پڑھ لو اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹ کر یہ بھی نہ ہو سکے تو جیسے ہو اسی حالت میں اشارہ سے پڑھ لونماز ہوجائے گی۔ زکوٰۃ فرض ہے لیکن صاحب نصاب ہو تب۔حج فرض لیکن تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو تب ۔روزے فرض ہے لیکن رکھنے کی طاقت ہو تب بلکہ طاقت ہونے کے باوجود بھی سہولت اتنی کہ اگر سفر میں ہیں تو قضا کرلے مرضعہ ہوتو بعد میں رکھ لے اس امکان کی وجہ سے اس وقت معاف ہے کہ کہیں بچے کو دودھ کی کمی نہ ہو جائے۔عورت کچھ دنوں تک نماز نہیں پڑھ سکتی تو اس کی قضا نہیں اس وجہ سے کہ کہیں عورت کی نزاکت پر بوجھ نہ بن جائے۔
فرائض میں اس قدرآسانی ہے تو سنن و نوافل میں کیا ہوگا؟
اواللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
‘‘اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَۃؕ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۲۸۰’’ (البقرة)
تمہارا قرض دار تنگ دست ہو، تو ہاتھ کھلنے تک اُسے مہلت دو اور جو صدقہ کر دو، تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔
اسلام نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ اتنی آسانی فراہم کیا کہ ایک قرض دار کے لئے اتنی رعایت کر دیا گیا یہاں تک کہ معاف کرنے کو ہی بہتری ثابت کردیا۔
صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب ترین دین کون سا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عفوودرگذر اور رواداری پر مشتمل خالص دین، اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ دین اسلام کے خصائل بہت ہی آسان اور عفوودرگذر پر مشتمل ہیں۔
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے آدمی کے بارے میں نہ بتاوں جس پر جہنم کی آگ حرام ہے؟ صحابہ نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر وہ شخص جو قریب رہے اور نرمی اور آسانی والا معاملہ کرے۔
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: یہ دین آسان ہے، جو شخص دین میں تشدد سے کام لیتا ہے وہ دین پر عمل کرنے سے مغلوب ہو جاتا ہے، لہٰذا میانہ روی اختیا کرو، غلو سے اجتناب کرو اور خوشخبریاں دینے والے بن جاو۔
سچ یہ ہے کہ دین اسلام نے ایسے تمام راستوں کو بند کردیا جس سے انسانیت پر سنگین صورتحال کے پیدا ہونے کا اندیشہ تک ہوتا ہے۔ سنن ابوداؤد میں ہے کہ ‘‘کسی مسلم کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے کو ڈرائے اور دھمکائے’’سنن ابوداؤد میں یہ حدیث بھی ہے‘‘جس نے اپنے بھائی کی طرف لوہے سے اشارہ کیا تو فرشتے اس وقت تک اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی حرکت سے باز نہیں آجاتا۔“
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِه وَيَدِه(صحیح بخاری ،کتاب الایمان)
‘‘مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں۔‘‘
لہٰذا ان تمام تفصیلات سے یہ عیاں ہے کہ کسی فرد کے اسلام لانے اور مسلمان ہو جانے کا مطلب سلامتی کے دروازے میں داخل ہو جانا ہے یہاں تک کہ لوگ اس کے شر سے محفوظ ہو جائیں۔
(جاری )
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism