کنیز فاطمہ، نیو ایج اسلام
18 اگست 2018
قرآن جو اسلام کا بنیادی ماخذ ہے ، اس کا آفاقی مقصد جنگ کے حالات میں امن اور ہم آہنگی قائم کرنا ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ کفار اور دور اوائل کے مسلمانوں کے درمیان جنگیں ہوئیں اور ان جنگوں میں قرآن نے مسلمانوں کی رہنمائی کی۔
ہم یہ جانتے ہیں جنگیں دو طرح کی ہوتی ہیں جن کا ہم آج بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں، ایک وہ جو دہشت گردی بھڑکاتی ہے جو آج داعش لڑ رہا ہے اور دوسری جو دہشت گردی کو ختم کرتی ہے ۔ بارہ برس تک مسلسل صبر اور رواداری کا مظاہرہ کرنے کے بعد دور اوائل کے مسلمانوں نے کفار عرب کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خلاف جنگی کیں تاکہ وہ اپنے مذہبی معمولات کی ادائیگی اور اپنی جانوں کی سلامتی کے لئے آزادی حاصل کر سکیں۔
ایک عظیم غیر مسلم مفکرایم ایم پیکتھال جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کیا اور قرآن کا انگریزی ترجمہ کیا، اس حوالے سے لکھتے ہیں :
‘‘مسلمان وہ ہیں جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، (جیسا کہ قرآن میں بیان کیا گیا ہے)، اور ان کی لڑائی اپنے دفاع میں ہے یا معاشرے کے دبے کچلے لوگوں کے لیے ہے یا ظلم و ستم کے خاتمے کے لئے ہے۔ صرف لوگوں کے مذہبی خیالات و نظریات کی بنیاد پر ہی میدان جنگ گرم کرنے کی اجازت نہیں ہے، اور نہ ہی ایسی جنگ کو کسی بھی صورت میں جہاد کا نام دیا جا سکتا ہے۔ جہاد تو اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنے کا نام ہے، اور اگر ہم راہ للہ کے لئے کوئی مارڈن لفظ منتخب کرنا چاہیں تو وہ لفظ ‘‘انسانیت کی ترقی کیلئے لگن’’ ہوگا۔ جب کوئی قوم یا کوئی معاشرہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرے اور ان کو مٹانے کی کوشش کرے یا انہیں غلام بنانے کی کوشش کرے اور جبر و استبداد کے پنجے سے حقیقت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرے تو ان کے خلاف جنگ کرنا مسلمانوں کا فریضہ ہے۔ (M. M. Pickthall, The Cultural Side of Islam, p. 27, Islamic book Trust, India)
کچھ لوگ اکثر قرآن کی ان آیتوں کو پیش کرتے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ‘‘اور کافروں کو جہاں پاؤ مارو اور انہیں نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکا لا تھا اور ان کا فساد تو قتل سے بھی سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک وہ تم سے وہاں نہ لڑیں اور اگر تم سے لڑیں تو انہیں قتل کرو کافروں کی یہی سزا ہے،’’(2:191)، جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو مشرکوں کو مارو جہاں پا ؤ اور انہیں پکڑو اور قید کرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰة دیں تو ان کی راہ چھوڑ دو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے (9:5)، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ ان آیتوں کو ان کے صحیح معنوں میں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور صرف ان آیتوں کو اٹھاتے ہیں اور ان کا عمومی اطلاق کرتے ہیں اور مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان فساد پیدا کرتے ہیں۔ اس کی زبردست مذمت کی جانی چاہیے۔
جب وہ ان آیتوں2:191، 9:5 کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ وہ آیتیں مسلح مشرکین کے خلاف جنگ کے لیے تھیں جو مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا اور انکے وجود کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے۔ جب مکمل طور سے ان کے تناظر میں ان آیتوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے:
‘‘اور اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو اللہ پسند نہیں رکھتا حد سے بڑھنے والوں کو، اور کافروں کو جہاں پاؤ مارو اور انہیں نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکا لا تھا اور ان کا فساد تو قتل سے بھی سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک وہ تم سے وہاں نہ لڑیں اور اگر تم سے لڑیں تو انہیں قتل کرو کافروں کی یہی سزا ہے، پھر اگر وہ باز رہیں تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے، اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور ایک اللہ کی پوجا ہو پھر اگر وہ باز آئیں تو زیادتی نہیں مگر ظالموں پر،ماہ حرام کے بدلے ماہ حرام اور ادب کے بدلے ادب ہے جو تم پر زیادتی کرے اس پر زیادتی کرو اتنی ہی جتنی اس نے کی اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ڈر والوں کے ساتھ ہے، اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں، ہلاکت میں نہ پڑو اور بھلائی والے ہو جاؤ بیشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں’’۔(2:190 –195)
اگر ہم اس آیت2:191 ، کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ مطالعہ کریں گے تو اس کے بارے میں جو بدگمانی زبردستی ہمارے ذہن میں پیدا کر دی گئی ہے وہ ختم ہوجائے گی، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔
دوسری آیت9:5، جو کہ آیت2:191 کی ہی طرح ہے، اس کی بہترین تشریح ڈاکٹر عبد الحلیم نے اپنے ان الفاظ میں پیش کی ہے:
‘‘ہمیں ان آیتوں پر بھی تبصرہ کرنا چاہیے جنہیں کثرت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور جنہیں سیاق وسباق سے باہر غلط طریقے سے اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ انہیں تلوار والی آیت کا نام دے دیا گیا ہے’’...پھر جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو مشرکوں کو مارو جہاں پا ؤ اور انہیں پکڑو اور قید کرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو،’’(9:5)۔ مسلمانوں سے کافروں کی دشمنی اور عداوت(2:193; 8:39) اور ان کا فتنہ فساد اس قدر بڑھ گیا کہ کفار مسلمانوں کو کفر کی طرف واپس پھیرنے یا ان کو ختم کر دینے پرکمر بستہ ہو گئے تھے۔‘‘اور ان کا فساد قتل سے سخت تر ہے اور ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیردیں اگر بن پڑے’’[2:217]۔
عرب کے یہی وہ سیکڑوں ظالم کافر تھے جو مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالنے یا کفر کی طرف واپس پھرنے سے کم پر راضی نہیں تھے اور جو ہمیشہ اپنے معاہدوں کو توڑ رہے تھے، جن کے ساتھ مسلمانوں کو ایسا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا یعنی ان سے جنگ کی جائے اور انہیں شہر بدر کیا جائے۔ اتنی دشمنی کے باوجود مسلمانوں کو ان پر شکنجہ کسنے اور خوس معاہدوں کو توڑ کر ان سے بدلہ لینے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ ان کی آخری تنبیہ کی گئی اور انہیں خبردار کیا گیا کہ چار مقدس مہینوں کے گزر جانے کے بعد، کہ جن کا ذکر اوپر آیت 9:5 میں کیا گیا، مسلمان ان کے خلاف علم جنگ بلند کریں گے۔ اس آیت سے ‘‘مشرکوں کو قتل کرو’’ یہ بنیادی جملہ کچھ مغربی مفکروں نے اٹھا لیا تاکہ وہ جنگ سے متعلق اسلامی رویہ لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں۔ یہاں تک کہ کچھ مسلمان بھی یہی نقطہ نظر رکھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس آیت نے جنگ سے متعلق دوسری آیتوں کو منسوخ کر دیا ہے۔
یہ سراسر ایک واہمہ، اور ایک جملہ کے ایک چھوٹے سے حصے کو اٹھا لینا اور اسے ایک غلط سیاق و سباق میں پیش کرنا ہے۔ اس کی صحیح تصویر آیات -59:1، سے اجاگر ہوتی ہے۔ جن میں مشرکین سے لڑنے کے حکم کی متعدد وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ انہوں نے مسلسل اپنے معاہدوں کو توڑا اور مسلمانوں کے خلاف دوسروں کی مدد کی، انہوں نے مسلمانوں سے دشمنی شروع کردی، دوسروں کو اسلام قبول کرنے سے منع کیا، مسجد حرام سے اور یہاں تک کہ ان کے گھروں سے مسلمانوں کو نکالا۔ کم از کم اس آیت میں مسلمانوں کے خلاف کافروں کے غلط کاموں کو آٹھ مرتبہ بیان کیا گیا ہے۔
دوسرے مقامات پر جنگ پر پابندیوں سے متعلق دوسری آیتوں کی مطابقت میں تلواروالی آیت کے سیاق و سباق میں بھی ایسے کافروں کو‘‘خارج قرار دیا گیا ہے جو اپنے معاہدوں کو نہیں توڑتے اور مسلمانوں کے ساتھ امن سے رہتے ہیں[9:7]’’۔ اس میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو دشمن تحفظ چاہیں ان کی حفاظت کی جائے اور انہیں محفوظ جگہ پہنچا دیا جائے [9:6]۔
آیت 5 کے تمام سیاق و سباق اور اس کی تمام پابندیوں اور ممانعتوں کو ان لوگوں نے یکسر نظر انداز کردیا جو آیت کے ایک حصے کو چن لیتے ہیں تاکہ ‘‘تلوار والی آیت’’ پر اسلام میں جنگ پر اپنی تھیوری قائم کر سکیں ، اگرچہ قرآن میں کہیں بھی لفظ تلوار واقع ہی نہیں ہوا ہے۔(Muhammad Abdul Haleem, “Understanding The Qur’an” {I.B. Tauris & Co Ltd 2005}, pp. 65-66, “Jihad: a war against all Non-Muslims or not? By Kevin Abdullah Kareem”)
مندرجہ بالا اقتباسات کی روشنی میں ہم آیت2:191 اور 9:5 ، کی صحیح تفہیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ اگران آیتوں میں تمام مشرکین مراد ہوتے تو یہ آیتیں 9:6، 9:7، 60:8 قرآن میں نازل نہ ہوتیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ:
‘‘اور اے محبوب اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دو کہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو یہ اس لیے کہ وہ نادان لوگ ہیں’’۔ (9:6)
’’مشرکوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے پاس کوئی عہد کیونکر ہوگا مگر وہ جن سے تمہارا معاہدہ مسجد حرام کے پاس ہوا تو جب تک وہ تمہارے لیے عہد پر قائم رہیں تم ان کے لیے قائم رہو، بیشک پرہیزگار اللہ کو خوش آتے ہیں۔‘‘(9:7)
‘‘اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو، بیشک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں۔’’(60:8)
آیت(60:8) کے بارے میں اکثر مفسرین کی مسلمہ رائے یہ ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور یہ منسوخ نہیں ہوئی۔ ان آیتوں میں مسلمانوں کو مشرکوں اور کافروں سمیت تمام غیر مسلموں کے ساتھ یکساں سلوک کرنے سے منع کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ مسلمانوں کو ان مشرکوں اور کافروں سمیت غیرمسلموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتا جو مذہب کے معاملے میں مسلمانوں سے جنگ نہیں کرتے اور مسلمانوں کے ساتھ امن اور انصاف کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔
ایم ایم پیکتھال اپنی کتاب “The Cultural Side of Islam”, میں لکھتے ہیں کہ ‘‘ قرآن کی جن آیتوں میں جنگ کا ذکر ہے ان میں لفظ کافر سے مراد جنگ کرنے والے اسلام کے دشمن ہیں۔ ان کا اطلاق غیر مسلموں پر نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی مشرکوں پر ان کا اطلاق کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ مشرکوں کے ان بے ایمان قبیلوں سے اظہار برات والی آیت (4-9:1) کے حوالے سے ثابت ہے جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد انہیں مسلسل پامال کیا اور ان پر حملے کی ہے’’۔
URL for English article Part-1: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/islam--a-religion-of-peace-or-violence?-the-evidence-in-quran---part-1/d/116051
URL for English article Part-2: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/kaniz-fatma,-new-age-islam/islam--a-religion-of-peace-or-violence?-the-evidence-in-quran--part-2/d/116083
URL for English article Part-3: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/kaniz-fatma,-new-age-islam/islam--a-religion-of-peace-or-violence?-the-evidence-in-quran--part-3/d/116145
URL for Urdu Part-1: http://www.newageislam.com/urdu-section/kaniz-fatma,-new-age-islam/islam--a-religion-of-peace-or-violence?-the-evidence-in-quran---part-1--(اسلام-امن-یا-تشدد-کا-مذہب؟-(-حصہ-1/d/116108
URL for Urdu Part-2: http://www.newageislam.com/urdu-section/kaniz-fatma,-new-age-islam/islam--a-religion-of-peace-or-violence?-the-evidence-in-quran--part-2--اسلام-دین-ا-من-یا-تشدد؟-قرآنی-شواہد/d/116336
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism