New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 07:11 AM

Urdu Section ( 10 Sept 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Is the Quran Guidance only for Muttaqin or for All Mankind? کیا قرآن صرف متقین کے لیے ہدایت ہے یا تمام انسانوں کے لیے ؟

 

کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام

سوال یہ ہے کہ قرآن مجید پوری دنیا کے لوگوں کے لیے ہدایت ہے یا صرف متقین کے لیے ؟ سورہ بقرہ کی آیت ۲ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ‘‘یہ (قرآن) متقین کے لیے ہدایت ہے’’۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید متقین کے لیے ہدایت ہے۔

 سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۵ میں ارشاد باری ہے کہ یہ تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : (شھر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس) ۔ (البقرہ :)

ترجمہ: ‘‘رمضان کے مہینہ میں قرآن کو نازل کیا گیا ہے درآں حالیکہ وہ تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے’’

تبیان القرآن میں ہے : قرآن مجید کی صراط مستقیم پر دلالت ہے اور متقین کو قرآن مجید کے احکام پر عمل کی توفیق بھی نصیب ہوتی ہے وہ قرآن مجید کے انوار سے مستنیر اور مستفید ہوتے ہیں اور قرآن مجید میں تدبر اور تفکر کرنے سے ان کے دماغ کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں اور غیر متقین کے لیے بھی قرآن کریم ہدایت ہے، نیکی اور دنیا کی خیر کی طرف رہنمائی ہے، اگرچہ وہ اس کی ہدایت کو قبول نہیں کرتے اور اس کے احکام پر عمل کرکے اپنی دنیا اور آخرت کو روشن نہیں کرتے’’۔

یہ بھی ہے کہ ‘‘قرآن مجید میں جہاں فرمایا ہے کہ یہ تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے اس سے مراد یہ ہے کہ فی نفسہ قرآن مجید کی ہدایت تمام انسانوں کے لیے ہے اور یہاں جو فرمایا ہے کہ یہ متقین کے لیے ہدایت ہے اس سے مراد یہ ہے کہ نتیجہ اور مال کار یہ متقین ہی کے لیے ہدایت ہے کیونکہ اس ہدایت سے وہی فیضیاب ہوتے ہیں ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں میں تعارض نہیں ہیں کیونکہ حقیقت میں انسان وہی ہیں جو متقی ہیں اور رہے غیر متقی تو وہ اس آیت کا مصداق ہیں :

(آیت) ” ولقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن والانس لہم قلوب الیفقھون بھا ولھم اعین لا یبصرون بھا ولھم اذان لایسمعون بھا اولئک الانعام بل ھم اضل اولئک ھم الغفلون (الاعراف :) (ترجمہ) اور بیشک ہم نے دوزخ کے لیے بہت سے جن اور انسان پیدا کیے ‘ ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے (بھی) زیادہ گمراہ ہیں وہی غافل ہیں۔

اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ ہرچند کہ قرآن تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے لیکن چونکہ متقی انسانوں کے اعلی افراد ہیں ‘ اس لیے ان ہی کا تشریفا اور تکریما ذکر کیا گیا ہے۔

تقوی کا صیغہ اور اس کا لغوی معنی :

علامہ زیبدی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

ابن سیدہ نے کہا ہے کہ ‘‘تقوی’’ اصل میں ‘وقوی’ تھا یہ فعلی کے وزن پر اسم (حاصل بالمصدر) ہے اور وقیت سے بنا ہے واؤ کو تا سے بدل دیا ‘ یہ ‘‘تقوی’’ ہوگیا اسی طرح ‘‘تقاۃ’’ اصل میں ‘‘وقاۃ’’ ہے اور ‘‘تجاہ’’ اور ‘‘تراث’’ اصل میں ‘‘وجاہ’’ اور ‘‘وراث’’ ہیں ‘‘وقاہ یقیہ’’ کا معنی ہے : کسی چیز کو اذیت سے محفوظ رکھنا اور اس کی حمایت اور حفاظت کرنا ‘ قرآن مجید میں ہے : (سالھم من اللہ من واق) (الرعد :) ترجمہ : انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہے : (تاج العروس ج ص ‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ‘ھ)

علامہ راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

تقوی کا معنی ہے : کسی ڈرانے والی چیز سے نفس کو بچانا اور اس کی حفاظت کرنا ‘ اور کبھی خوف کو بھی تقوی کہتے ہیں اور اس کا شرعی معنی ہے : گناہ کی آلودگی سے نفس کی حفاظت کرنا ‘ اور یہ ممنوعہ کاموں کے ترک سے حاصل ہوتا ہے ‘ اور کامل تقوی تب حاصل ہوتا ہے جب بعض مباحات کو بھی ترک کردیا جائے جیسا کہ حدیث میں ہے : حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے ‘ سو جو شخص مشتبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کرلیا ‘ الحدیث۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ، طبع کراچی) تقوی کے کئی مراتب ہیں جو حسب ذیل آیات سے ظاہر ہوتے ہیں :

(آیت) ” فمن اتقی واصلح فلاخوف علیہم ولا ھم یحزنون (الاعراف :) (ترجمہ) پس جو لوگ گناہوں سے باز رہے اور انہوں نے نیکیاں کیں تو ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

(آیت) ” اتقوا اللہ حق تقتہ، (آل عمران :) (ترجمہ) اور اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔

(آیت) ” وسیق الذین اتقوا ربہم الی الجنۃ زمرا “۔ (الزمر :٣) (ترجمہ) اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے وہ جنت کی طرف گروہ در گروہ بھیجے جائیں گے۔ (المفردات ص ۔ ‘ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ ‘ ایران ‘ھ)

تقوی کا اصطلاحی معنی :

علامہ میر سید شریف نے تقوی کی حسب ذیل تعریفات لکھی ہیں :

اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرکے نفس کو عدم اطاعت کے عذاب سے بچانا تقوی ہے اللہ تعالیٰ کی معصیت کے عذاب سے نفس و بچانا تقوی ہے اللہ تعالیٰ کے ماوسوا سے خود کو محفوظ کرنا تقوی ہے ‘ آداب شریعت کی حفاظت کرنا تقوی ہے ‘ ہر وہ کام جو تم کو اللہ سے دور کر دے اس سے خود کو باز رکھنا تقوی ہے ‘ حظوظ نفسانیہ کو ترک کرنا اور ممنوعات سے دور رہنا تقوی ہے ‘ تم اپنے نفس میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہ دیکھو یہ تقوی ہے ‘ تم اپنے آپ کو کسی سے بہتر گمان نہ کرو یہ تقوی ہے ماسوی اللہ کو ترک کرنا تقوی ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قولا اور فعلا اقتداء کرنا تقوی ہے۔ (کتاب التعریفات ص ‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ، ھ)

علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

تقوی کا معنی ہے : کسی ناپسندیدہ چیز سے خود کو بچانے کے لیے اپنے اور اس چیز کے درمیان کوئی آڑ بنا لینا ‘ اور متقی وہ شخص ہے جو اپنے نیک اعمال اور پرخلوص دعاؤں سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب بچا لے ‘ زربن جیش کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے ایک دن فرمایا : لوگ بہت ہیں لیکن ان میں بہتر وہ ہیں جو تائب ہوں یامتقی ہوں ‘ پھر ایک دن کہا : لوگ بہت ہیں لیکن ان میں بہتر وہ ہیں جو عالم ہوں یا متعلم ہوں ‘ ابویزید بسطامی (رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا : متقی وہ ہے جس کا ہر قول اور ہر عمل اللہ کے لیے ہو ابوسلیمان دارانی (رح) نے کہا : متقی وہ ہے جس کے دل سے شہوات کی محبت نکال لی گئی ہو ‘ ایک قول یہ ہے کہ متقی وہ ہے جو شرک سے بچے اور نفاق سے بری ہو ‘ ابن عطیہ نے کہا : یہ غلط ہے کیونک فاسق بھی اسی طرح ہوتا ہے ‘ حضرت عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ ) نے حضرت ابی بن کعب (رضی اللہ عنہ) سے تقوی کے متعلق سوال کیا ‘ انہوں نے کہا : کیا آپ نے کانٹوں ولا راستہ دیکھا ہے ؟ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا : ہاں پوچھا : پھر آپ نے کیا کہا ؟ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا : میں نے پائچے اوپر اٹھائے اور ان سے بچ کر نکلا ‘ حضرت ابی بن کعب (رضی اللہ عنہ) نے کہا : یہی تقوی ہے ‘ حضرت ابودرداء (رضی اللہ عنہ) نے کہا : تقوی ہر قسم کی خیر کا جامع ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اولین اور آخرین کی وصیت کی ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ١ ص ۔ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ھ)

امام رازی (رحمۃ اللہ علیہ) لکھتے ہیں :

متقی وہ شخص ہے جو عبادات کو انجام دے اور ممنوعات سے بچے اس میں اختلاف ہے کہ گناہ صغیرہ سے بچنا بھی تقوی میں داخل ہے یا نہیں، حدیث میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک متقین کے درجہ کو نہیں پاسکتا جب تک ان چیزوں کو ترک نہ کر دے جن میں حرج نہ ہو اس خوف سے کہ شاید ان میں حرج ہو ‘ حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : متقی وہ لوگ ہیں جو عذاب سے بچنے کے لیے خواہش نفس پر عمل نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید رکھتے ہیں۔

امام رازی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں : یہاں تقوی سے مراد خوف خدا ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورة نساء اور سورة حج کی ابتداء میں فرمایا : (آیت) ” یایھا الناس اتقوا ربکم “ (النساء : الحج :) ترجمہ : اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو۔

حسب ذیل آیات میں بھی تقوی سے مراد خوف خدا ہے :

(آیت) ” اذ قال لہم اخوھم نوح الا تتقون (الشعراء :) ترجمہ : جب ان کے ہم قوم نوح (علیہ السلام) نے ان سے کہا :

(آیت) ” اذ قال لہم اخوھم ھود الا تتقون (الشعراء :) ترجمہ : جب ان کے ہم قوم ھودعلیہ السلام نے ان سے کہا : کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے ؟

(آیت) ” اذ قال لہم اخوھم صلح الا تتقون (الشعراء :) ترجمہ : جب ان کے ہم قوم صالح (علیہ السلام) نے ان سے کہا : کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے ؟

(آیت) ” اذ قال لہم اخوھم لوط الا تتقون (الشعراء :) ترجمہ : جب ان کے ہم قوم لوط (علیہ السلام) نے ان سے کہا : کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے ؟

(آیت) ” اذ قال لہم اخوھم شعیب الا تتقون (الشعراء :) ترجمہ : جب شعیب (علیہ السلام) نے ان سے کہا : کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے ؟ (آیت) ” وابرھیم اذ قال لقومہ اعبدوا اللہ واتقوہ (النکبوت :)

ترجمہ : اور ابرہیم نے جب اپنی قوم سے کہا : اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو۔ (آیت) ” اتقوا اللہ حق تقتہ۔ (آل عمران :) ترجمہ : اور اللہ نے انہیں کلمہ توحید پر مستحکم کردیا۔

(آیت) ” ولوان اھل القری امنوا واتقوا (الاعراف :) ترجمہ : اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور توبہ کرتے۔

(آیت) ” ان انذروا انہ لا الہ الا انا فاتقون (النحل :) ترجمہ : لوگوں کو ڈراؤ کہ میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ‘ سو میری اطاعت کرو

(آیت) ” واتوالبیوت من ابوابھا، واتقواللہ (البقرہ :) ترجمہ : اور گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہو اور اللہ کی نافرمانی نہ کرو۔

(آیت) ” ومن یعظم شعآئر اللہ فانھا من تقوی القلوب (الحج :) ترجمہ : اور جس نے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تعظیم کی تو یہ دلوں کے اخلاص سے ہے۔

تقوی کا مقام بہت عظیم اور بلند ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(آیت) ” ان اللہ مع الذین اتقوا (النحل :) ترجمہ : بیشک اللہ متقین کے ساتھ ہے۔

(آیت) ” ان اکرمکم عنداللہ اتقکم “ (الحجرات :) ترجمہ : بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے مکرم وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔

حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص یہ چاہتا ہو کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ مکرم ہو وہ اللہ سے ڈرے اور حضرت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : معصیت پر اصرار نہ کرنا ‘ اور عبادت پر مغرور نہ ہونا ‘ تقوی ہے ‘ ابراہیم بن ادھم (رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا : تقوی یہ ہے کہ تمہاری زبان پر مخلوق کا عیب نہ ہو ‘ فرشتے تمہارے افعال میں عیب نہ پائیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے دل میں کوئی عیب نہ دیکھے ‘ علامہ واقدی (رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا : تقوی یہ ہے کہ جس طرح تم اپنے ظاہر کو مخلوق کے لیے مزین کرتے ہو ‘ اس طرح اپنے باطن کو اللہ کے لیے مزین کرو ‘ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو وہاں نہ دیکھے جہاں اس نے منع کیا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کو اپنائے اور دنیا کو پس پشت ڈال دے، اپنے نفس کو اخلاص اور وفا کا پابند کرے اور حرام اور جفا سے اجتناب کرے وہی متقی ہے (تفسیر کبیر ج ١ ص۔ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ھ)

تقوی اور متقین کے متعلق احادیث

امام ترمذی (رحمۃ اللہ علیہ) روایت کرتے ہیں :

حضرت عطیہ سعدی (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک متقین میں سے شمار نہیں ہوگا جب تک کہ وہ بےضرر چیز کو اس خوف سے نہ چھوڑ دے کہ شاید اس میں ضرر ہو۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (جامع ترمذی ص ٣٥٤‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

امام مسلم (رحمۃ اللہ علیہ ) روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ‘ تناجش (کسی کو پھنسانے کے لیے زیادہ قیمت لگانا) نہ کرو ‘ ایک دوسرے سے بعض نہ رکھو ‘ ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو ‘ کسی کی بیع پر بیع نہ کرو ‘ اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ ‘ مسلمان ‘ مسلمان کا بھائی ہے ‘ اس پر ظلم نہ کرے ‘ اس کو رسوا نہ کرے ‘ اس کو حقیر نہ جانے ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے تین بار فرمایا : تقوی یہاں ہے ‘ کسی شخص کے برے ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو براجانے ‘ ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر مکمل حرام ہے ‘ اس کا خون اس کا مال اور اس کی عزت۔ (صحیح مسلم ج ٢ ص ‘مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ھ)

حضرت انس (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارا رب یہ فرماتا ہے کہ میں ہی اس بات کا مستحق ہوں کہ مجھے سے ڈرا جائے سو جو شخص مجھ سے ڈرے گا تو میری شان یہ ہے کہ میں اس کو بخش دوں۔ (سنن دارمی ج ٢ ص ‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان)

حضرت ابوذر (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے ایک ایسی آیت کا علم ہے کہ اگر لوگ صرف اسی آیت پر عمل کرلیں تو وہ ان کے لیے کافی ہوگی ‘ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔ (سنن دارمی ج ٢ ص ‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان)

ابونضرہ بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے ایام تشریق کے وسط میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطبہ سنا اس نے یہ حدیث بیان کی ‘ آپ نے فرمایا : اے لوگو ! سنو تمہارا رب ایک ہے ‘ تمہارا باپ ایک ہے ‘ سنو ! کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں ہے ‘ نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے ‘ نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے ‘ نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے ‘ مگر فضیلت صرف تقوی سے ہے (مسند احمد ج ٥ ص مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت)

حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شاید اس سال کے بعد تم مجھ سے ملاقات نہیں کرو گے ‘ حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فراق کے صدمہ میں رونے لگے ‘ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : میرے سب سے زیادہ قریب متقی ہوں گے خواہ وہ کوئی ہوں اور کہیں ہوں (مسند احمد ج ٥ ص ‘ ٢٣٥ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت)

علامہ غلام رسول سعیدی اسی تبیان القرآن میں سورہ بقرہ کی آیت ۲ کی تفسیر کے آخر میں تقوی کے مراتب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ قرآن مجید کا متقین کے لیے ہدایت ہونا تحصیل حاصل ہے کیونکہ متقین تو خود ہدایت یافتہ ہیں ‘ اس کے کئی جواب ہیں ‘ پہلا جواب یہ ہے کہ متقین سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ تقوی حاصل کرنے کا ارادہ کریں سو یہ کتاب ان کے لیے ہدایت ہے ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ ہدایت سے مراد ہدایت پر دوام اور ثبات ہے یعنی اس کتاب کے مطالعہ اور اس پر عمل کرنے سے متقین کو ہدایت پر دوام اور ثبات حاصل ہوگا ‘ تیسرا جواب یہ ہے کہ تقوی کے کئی مراتب ہیں : (ا) نفس کی کفر اور شرک سے حفاظت کرنا ‘ (ب) نفس کی گناہ کبیرہ سے حفاظت کرنا (ج) نفس کی گناہ صغیرہ سے حفاظت کرنا (د) نفس کی خلاف سنت سے حفاظت کرنا (ھ) نفس کی خلاف اولیٰ سے حفاظت کرنا (و) نفس کی ماسوی اللہ سے حفاظت کرنا ‘ سو جو شخص تقوی کے کسی ایک مرتبہ پر فائزہو یہ کتاب اس کے لیے تقوی کے اگلے مرتبہ کے لیے ہدایت ہے۔(تفسیر تبیان القرآن - سورۃ 2 - البقرة - آیت 2)

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-quran-guidance-only-muttaqin/d/116330


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..