کنیز فاطمہ ، نیوایج اسلام
انسانی جان کے خون کی حرمت
ارشاد باری تعالی ہے: مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ ﴿٣:۵﴾
ترجمہ : اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔(سورہ مائدہ ۵:۳۲)
امام ابو منصور ماتریدی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
من استحل قتل نفس حرم الله قتلها بغير حق، فكأنما استحل قتل الناس جميعا، لأنه يكفر باستحلاله قتل نفس محرم قتلها، فكان كاستحلال قتل الناس جميعا، لأن من كفر بآية من كتاب الله يصير كافرا بالكل".........
وتحتمل الآية وجها آخر، وهو ما قيل: إنه يجب عليه من القتل مثلما أنه لو قتل الناس جميعا. ووجه آخر: أنه يلزم الناس جميعا دفع ذالك عن نفسه ومعونته له، فإذا قتلها أو سعى عليها بالفساد، فكأنما سعى بذالك على الناس كافة........وهذا يدل أن الآية نزلت بالحكم في أهل الكفر وأهل الإسلام جميعا، إذا سعوا في الأرضا بالفساد. (تأويلات أهل السنة للإمام أبي منصور الماتريدي: 3:501)
ترجمہ : جس نے کسی ایسی جان کا قتل حلال جانا جس کا ناحق قتل کرنا اللہ تعالی نے حرام کر رکھا ہے تو گویا اس نے تمام لوگوں کے قتل کو حلال جانا ، کیونکہ ایسی جان جس کا قتل کا حرام ہے وہ شخص اس کے قتل کو حلال سمجھ کر کفر کا مرتکب ہوا ہے ، وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے تمام لوگوں کے قتل کو حلال جانا ، کیونکہ جو شخص کتاب اللہ کی ایک آیت کا انکار کرتا ہے وہ پوری کتاب کا انکار کرنے والا ہے ۔
‘‘اس آیت کی (سورہ مائدہ ۵:۳۲) ایک اور توجیہ ہے اور وہ یہ کہ کہا گیا ہے کہ کسی جان کے قتل کو حلال جاننے والے پر تمام لوگوں کے قتل کا گناہ لازم آئے گا (کیونکہ اس نے عالم انسانیت کے ایک فرد کو قتل کرکے گویا اس نے پوری انسانیت پر حملہ کیا ہے )۔
‘‘ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ تمام لوگوں پر لازم ہے کہ اجتماعی کوشش کے ساتھ اس جان کو قتل سے بچائیں اور اس کی مدد کریں۔ پس جب وہ اس کو قتل کرکے فساد بپا کرنے کی کوشش کرے گا تو گویا وہ پوری انسانیت پر فساد بپا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ یہ آیت اس حکم کے ساتھ تمام اہل کفر اور اہل اسلام کے لیے نازل ہوئی ہے جبکہ وہ فساد فی الارض کے لیے سرگرداں ہوں’’ (تأويلات أهل السنة للإمام أبي منصور الماتريدي: 3:501)
امام ابو حفص حنبلی اپنی تفسیر ‘‘اللباب فی علوم الکتاب ’’ میں بیان کرتے ہیں :
۱۔ حضرت مجاہد نے فرمایا : جس شخص نے ایک جان کو بھی ناحق قتل کیا تو وہ اس قتل کے سبب دوزخ میں جائے گا ، جیساکہ وہ تب دوزخ میں جاتا اگر وہ ساری انسانیت کو قتل کر دیتا (یعنی اس کا عذاب دوزخ ایسا ہوگا جیسے نے اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا ہو)
مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے اس فرمان (انما جزاء الذین یحاربون اللہ) میں ہر وہ شخص شامل ہے جو ان بری صفات کا حامل ہو خواہ وہ مسلم ہو یا کافر ۔یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ آیت کفار کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ سبب خصوص کا ۔ (اللباب فی علوم الکتاب، ۷:۳۰۱)
ارشاد باری تعالی ہے
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا ﴿٣٣:۱۷﴾
ترجمہ : اور تم کسی جان کو قتل مت کرنا جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام قرار دیا ہے سوائے اس کے کہ (اس کا قتل کرنا شریعت کی رُو سے) حق ہو، اور جو شخص ظلماً قتل کردیا گیا تو بیشک ہم نے اس کے وارث کے لئے (قصاص کا) حق مقرر کر دیا ہے سو وہ بھی (قصاص کے طور پر بدلہ کے) قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے، بیشک وہ (اﷲ کی طرف سے) مدد یافتہ ہے (سو اس کی مدد و حمایت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی) (سورہ الاسرا : ۱۷:۳۳)
ارشادی باری ہے :
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا
ترجمہ : اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی پوجا نہیں کرتے اور نہ (ہی) کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے بغیرِ حق مارنا اللہ نے حرام فرمایا ہے اور نہ (ہی) بدکاری کرتے ہیں، اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ سزائے گناہ پائے گا (۲۵:۶۸)
ارشاد باری ہے : إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ
یعنی : بیشک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لئے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لئے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے (۸۵:۱۰)
بعض مفسرین اس آیت کریمہ (۸۵:۱۰) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہاں فتنے میں مبتلا کرنے سے آگ میں جلانا بھی مراد لیا گیا ہے ۔مفسرین کے اس معنی کی رو سے دیکھا جائے تو موجودہ دور میں ہونے والے خود کش حملوں ، بم دھماکوں ، اور بارود سے عام شہریوں کو جلاکر مار دینے والے فتنے پرور لوگ عذاب جہنم کے مستحق ہیں ۔
(بقیہ ان شاء اللہ)
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/human-rights-islam-part-2/d/119221
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism