کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
حسن ظن کا مطلب کسی کے متعلق اچھا خیال کرنا اور نیک گمان رکھنا ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں حسن ظن کا فقدان ہے ، ہمارے لوگوں میں ایک دوسرے کے متعلق بد گمانی بہت عروج پاتی جا رہی ہے ۔ہمارے عوام میں اکثرو بیشتر اختلافات بدگمانی کا نتیجہ ہیں ۔عوام کے ساتھ ساتھ خواص بھی اس کے اثر سے محفوظ نہیں ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہم حسن ظن کو اپنی عملی زندگی کا زیور بنا لیں تو ہم دینی اور دنیوی کے اکثر خلاف ونزاع اور تعصب وعناد سے پاک وصاف ہو جائیں ۔
حسن ظن مسلمانوں کا ایمانی زیورہے، بلکہ آپسی ہم آہنگی ،صلح ومصا لحت ، اتفاق واتحاد اور معاشرت انسانی کی صلاح وفلاح کے لیے ناگز یر بھی ہے ۔حسن ظن اسلامی واخلاقی تعلیمات کی ایک مضبوط کڑی ہے، جو دینی ومذہبی ، فقہی وشرعی ، سماجی ومعاشرتی اور روحانی کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے ۔اس کی اہمیت کا اندازہ قرآن مقدس ، احادیث طیبہ ، اقوال صحابہ وتابعین اور صوفیائے کرام کی مجالس ، مکتوبات ، وصایا اور تصانیف وغیرہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔
قرآن مقدس کی متعدد آیات میں حسن ظن کی تعلیما ت ملتی ہے ۔یہاں ہم ایک آیت کریمہ پر اکتفا کرتے ہیں ۔ارشاد باری تعالی ہے :
‘‘اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈھو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے’’ (۴۹:۱۲)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد بار ہمیں حسن ظن کی تعلیم دی ہے ۔
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم گمان کرنے سے بچو کیونکہ گمان کرنا سب سے جھوٹی بات ہے اور تجسس نہ کرو اور (کسی کے حالات جاننے کے لئے) تفتیش نہ کرو اور کسی سے حسد نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو اور نہ کسی بعغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جائو۔ ایک روایت میں ہے : اور کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی کو چھوڑ رکھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :٥۔ ، صحیح مسلم رقم الحدیث : ، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ، سنن ترمذی رقم الحدیث : ، مسند احمد رقم الحدیث : ، عالم الکتب، تبیان القرآن سورہ حجرات آیت ۱۲)
تبیان القرآن میں ہے : بعض علماء نے کہا ہے کہ قرآن مجید کی اس آیت میں اور مذکور الصدر حدیث میں گمان کی ممانعت سے مراد بدگمانی سے منع کرنا ہے اور کسی پر تہمت لگانے سے منع کرنا ہے، مثلاً کوئی شخص بغیر کسی قوی دلیل کے اور بغیر کسی سبب موجب کے یہ گمان کرے کہ وہ شراب پیتا یا زنا کرتا ہے یا اور کوئی بےحیائی کا کام کرتا ہے۔ یعنی ایسے ہی کسی کے دل میں خیال آجائے کہ فلاں شخص فلاں برا کام کرتا ہے تو یہ بدگمانی ہے۔
بعض گمان صحیح ہوتے ہیں اور بعض گمان فاسد ہوتے ہیں، ان میں فرق یہ ہے کہ جس گمان کی کوئی صحیح علامت نہ ہو اور اس کا کوئی ظا پر سبب نہ ہو وہ بدگمانی ہے اور حرام ہے اور یہ اس صورت میں ہے کہ
جس شخص کے متعلق معروف اور مشہور یہ ہو کہ وہ نیک آدمی ہے یا اس کا حال مستور ہے اور کوئی شخص محض کسی شبہ کی وجہ سے اس کے متعلق بدگمانی کرے، جیسے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا ) کے متعلق منافقوں ور بعض مسلمانوں نے محض اس شبہ کی وجہ سے بدگمانی کی کہ وہ قافلہ سے بچھر گئی تھیں اور بعد میں حضرت صفوان بن معطل (رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ آئی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بدگمانی کے رد میں آیت نازل فرمائی :
………(ایسا کیوں نہ ہوا کہ جیسے ہی تم نے اس بات (حضرت عائشہ پر بےحیائی کی تہمت) کو سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنوں کے متلق نیک گمان کیا ہوتا اور یہ کہا ہوتا کہ یہ صریح بہتان ہے۔
اور حافظ یوسف بن عبد اللہ ابن عبد البرمال کی متوفی ھ لکھتے ہیں :
بے شک اللہ نے مسلمان کے خون اور اس کی جان کو حرم کردیا ہے اور فرمایا : مسلمانوں کے متعلق خبر کے سوا اور کوئی گمان نہ کیا جائے، اور سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم کسی کے متعلق (بد) گمانی کرو تو اس کی تحقیق نہ کرو اور حضرت عمر بن الخطاب نے فرمایا : کسی مسلمان شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات سن کر اس کے متعلق بدگمانی کرے جب کہ اس کی بات کا کوئی نیک محمل نکل سکتا ہو اور سفیان نے کہا : ظن کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ ظن ہے جس میں گناہ ہے اور ایک وہ ظن ہے جس میں گناہ نہیں ہے، جس ظن میں گناہ ہے یہ وہ ظن ہے جس کے موافق کلام کیا جائے اور جس ظن میں گناہ نہیں ہے یہ وہ ظن ہے جس کے موافق کلام نہ کیا جائے۔ (التمہید ج س۔، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ھ، منقول از تبیان القرآن )
امام محمد ابن محمد غزالی متوفی ھ لکھتے ہیں :
شیطان آدمی کے دل میں بدگمانی ڈالتا ہے تو مسلمان کو چاہیے کہ وہ شیطان کی تصدیق نہ کرے اور اس کو خوش نہ کرے حتیٰ کہ اگر کسی کے منہ سے شراب کی بو آرہی ہو تو پھر بھی اس حد لگانا جائز نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے اس نے شراب کا ایک گھونٹ پی کر گلی کردی ہو یا کسی نے اس کو ب جبراً شراب پلا دی ہو اور اس کا احتمال ہے، تو وہ دل کے خون کو، اس کے مال کو اور اس کے متعلق بدگمانی کا حرام کردیا ہے، اس لئے جب تک وہ خود کسی چیز کا مشاہدہ نہ کرے یا اس پر دو نیک گواہ قائم نہ ہوجائیں اس وقت تک مسلمان کے متعلق بدگمانی کرنا جائز نہیں ہے اور جب اس طرح نہ ہو اور شیطان تمہارے دل میں کسی مسلمان کے متعلق بدگمانی کا وسوسہ ڈالے تو تم اس وسوسہ کو دور کرو اور اس پر جمے رہو کہ اس کا حال تم سے مستور ہے اور اس شخص کے حق میں نیک پر قائم رہنے اور گناہ سے باز رہنے کی دعا کرو اور شیطان کو ناکام اور نامراد کرکے اس کو غضب میں لائو۔ (احیاء العلوم ج ص، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ھ، منقول از تبیان القرآن )
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ھ لکھتے ہیں :
جو گمان ممنوع ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور نیک مسلمانوں کے متعلق برا گمان کیا جائے اور جس گمان کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جس حکم کے حصول کی دلیل قطعی میسر نہ ہو اور کسی معاملہ میں اس پر حکم نافذ کرنا مقصود ہو تو اس معاملہ میں طن غالب پر عمل کرکے حکم نافذ کرنا واجب ہے، جس طرح ہم پر واجب ہے کہ ہم نیک مسلمانوں کی شہادت قبول کریں (اور ان کا نیک ہونا ظن غالب سے معلوم ہوگا) اور جنگل میں غور و فکر کرکے ظن غالب سے سمت قبلہ معلوم کرنا، اسی طرح اگر محرم نے کسی جانور کا شکار کرکے اس کو ہلاک کردیا اور شریعت میں اس جانور کی مقدار اور قیمت متعین نہیں ہے تو اس کا تاوان ادا کرنے کے لئے ظن غالب سے اس کی قیمت کو تعین کرنا۔ اس قسم کی مثالوں میں ہمیں ظن غالب کے تقاضے پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور جو ظن مباح ہے وہ یہ ہے کہ جب امام کو رکعات کی تعداد میں شک پڑجائے تو وہ غور و فکر کرے اور جتنی تعداد پر ظن غالب ہو اس پر عمل کرے، اگرچہ دوبارہ نماز پڑھنا افضل ہے اور جو ظن مستحب ہے وہ یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کے متعلق نیک گمان کرے، خواہ لوگ اس کو بلا دلیل برا کہہ رہے ہوں۔ (عمدۃ القاری ج ص، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ھ، بحوالہ تبیان القرآن سورہ حجرات آیت ۱۲ )
حسن ظن کے بے شمار فائدے ہیں ۔اس سے عمدہ فکر کی تعمیر ، مثبت خیالات کا فروغ اور معاشرے سے جنگ و جدال کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔حسن ظن سے باطنی وقلبی امراض کا علاج ہوتا ہے ۔آپسی تنازعات واختلافات کا ارتفاع ہوتا ہے ۔ذہن وقلب کو سکون حاصل ہوتا ہے ۔ اس طرح حسن ظن کے ذریعے ایک نیک اور صالح معاشرہ تشکیل بنایا جا سکتا ہے ۔
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism