کامران غنی صبا
27 مئی،2022
مایوسی اور نا امیدی قوت
فکر وعمل کر ختم کردیتی ہے ۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کی ناکامیوں او رمحرومیوں کی
وجہ مایوسی اور نا امیدی ہے۔ ہم جب کوئی کام اندیشوں کے سائے میں شروع کرتے ہیں تو
ہمارا جذبہ عمل کمزور پڑنے لگتا ہے ۔ نتیجہ ، کامیابی ہم سے دور چلی جاتی ہے۔
مایوس اور نا امید افراد کے درمیان رہنے والے لوگ بھی کبھی پر اعتماد او رکامیاب
زندگی نہیں گزار پاتے۔ مایوس اور نا امید افراد کی زبان پر گلے اور شکوے ہوتے ہیں،
رنجشیں ہوتی ہیں ۔ اس کے برعکس پر امید افراد کی زبان پر شکر ہوتا ہے،محسنین کی
تعریف ہوتی ہے اور چیلنجز سے مقابلہ کرنے کا عزم ہوتاہے۔
آج ہم میں سے بیشتر لوگ
مایوس ہیں۔مایوسی اور نا امیدی کی نوعیتیں مختلف ہیں۔ والدین بچوں سے مایوس اور نا
امید ہیں۔ بچے مایوس ہیں کہ والدین ان کی خواہشات او رمطالبات کا تعاقب نہیں کرتے
۔قوم قیادت سے مایوس ہے اور قیادت قوم سے ۔ اساتذہ طلبہ سے مایوسی کا اظہار کرتے ہیں
او رطلبہ اساتذہ کا گلہ کرتے ہیں ۔ ایک گھر کے افراد ایک دوسرے سے مطمئن نہیں ہیں۔
جس رشتے میں جنم جنم ساتھ رہنے کی قسم کھائی جاتی ہے، وہ رشتہ بھی مایوسی اور نا
امیدی کی دور سے بندھا ہوا محسوس ہوتاہے کہ نہ جانے کب ٹوٹ جائے، یہاں تک کہ اکثر
زوجین بھی ایک دوسرے سے مطمئن نظر نہیں آتے۔
عدم اطمینان کی وجہ
مایوسی اور نا امیدی ہی ہے۔ یعنی ہم افراد سے، حالات سے بلکہ اپنے آپ سے مایوس
اور نا امید ہوتے جارہے ہیں ۔ مایوسی اور ناامیدی یہی ہے کہ مسائل کے سامنے شکست
تسلیم کرلی جائے۔ یہ مان لیا جائے کہ آپ جیسا چاہتے ہیں ویسا نہیں ہوگا یا آپ
جیسا نتیجہ چاہتے تھے ویسا نتیجہ نظر آتا ہوا محسوس نہیں ہورہا ہے، لہٰذا کوشش
ترک کردینی چاہئے۔ یہی احساس شکست ، شکست ذات اور شکست کائنات کا سبب بنتا ہے۔
بندہ مومن اگر حالات سے
مایوس نہ ہوتو اسے سربلندی کی بشارت سنائی گئی ہے۔ یہ بشارت بادشاہ کون و مکاں کی
ہے، جس کے غلط ہونے کا تصور بھی کفر ہے۔ یعنی ایسا ہوکر رہے گا کہ ہم امید اور
یقین کے ساتھ کوئی کام کریں تو ہمیں کامیابی ملنی ہی ہے۔ پھر وہ بادشاہ یہ بھی
کہتا ہے کہ ہم بندے کے گمان کے مطابق ہوتے ہیں، یعنی غلام جیسا گمان رکھے گا،
بادشاہ اس کے لئے ویسا ہی ہو جائے گا۔ یعنی مسئلہ ہمارے گمان کا ہے۔ ہم نے پہلے سے
فیصلہ کر رکھا ہے کہ بچے باغی ہورہے ہیں ، قوم مردہ ہوچکی ہے ، قیادت مفلوج ہوچکی
ہے ، طلبہ کے اندر جذبہ علم ختم ہوچکاہے ، اساتذہ اپنا فرض منصبی بھول چکے ہیں،
رشتے اور ناطے صرف کہنے کے لئے رہ گئے ہیں، وغیرہ ۔ نتیجہ یہی ہے کہ ہمیں ہمارے
گمان کے مطابق باغی اولادیں عطا کی جارہی ہیں، مفلوج قیادت دی جارہی ہے، اساتذہ کو
اچھے طلبہ نہیں ملتے اور طلبہ گزرے ہوئے اساتذہ کاذکر کرتے ہوئے نوحہ کناں ہیں کہ
’’ اب انہیں ،ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر۔‘‘ ہم رشتہ داروں کاگلہ کرتے رہتے ہیں اور
رشتہ دار ہمارا۔ یہ سلسلہ ایک دوسرے سے اتنا مربوط ہے کہ ہماری زیادہ تر گفتگو
کامرکز و محور گلہ اور شکوہ ہوتاہے اور حالات کا نوحہ ہوتاہے۔
مایوسی اور نا امیدی کی
ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم دنیا میں جنت جیسا نظام چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ
سب کچھ ہماری خواہشات کے مطابق ہو۔ جب توقعات ٹوٹتی ہیں تو انسان مایوس ہونے لگتا
ہے ۔ اگر توقعات اور خواہشات فرد سے ہے تو انسان فرد سے مایوس ہوتا ہے، جماعت سے
ہے تو جماعت سے اس کا اعتماد ٹوٹ جاتاہے ۔ یہ بڑا صبر آزما مرحلہ ہے۔ ہمیں یہ
نہیں بھولنا چاہئے کہ خواہشات پر اختیار کل صرف ذاتِ واحد کو حاصل ہے۔ وہ مالک کُن
ہے۔ جو چاہے، جب چاہے کرے۔ ہمارا کام کوشش کرناہے۔ نتیجے کے مالک ہم نہیں ہیں۔
کوشش کے نتیجے میں کامیابی ملنے کی صورت میں بندہ شکر ادا کرتاہے۔ شکر ادا کرنے
والوں کے لئے وعدہ ہے کہ بادشاہِ کون ومکاں انہیں مزید دیتاہے۔ ناکامی ملنے کی
صورت میں بندہ صبر کرتاہے۔ صبر والوں کیلئے بھی وعدہ ہے کہ بادشاہ صبر والوں کے
ساتھ ہے۔ اب جسے بادشاہ کا ساتھ مل جائے اسے اورکون سی نعمت چاہئے۔ یعنی مومن بندے
کے لئے ہر حال میں خوش خبری ہے۔ کامیابی میں بھی اسی کا فائدہ ہے اور بظاہر ناکام
ہوکر بھی وہی سرخرو ہے۔ کربلا میں امام عالی مقامؓ کی بظاہر شکست ہوگئی لیکن صبر
کے نتیجے میں تا قیامت سرخروئی آپؓ کے حصے میں آئی ۔ فاتح مردود اور ذلیل ہوا۔
کیا اتنی واضح مثالیں آپ
کے سامنے ہوں، پھر بھی آپ مایوس ہوں گے؟ حالات خواہ جیسے بھی ہوں آپ اپنے حصہ کی
شمع تو اٹھائیں اس میں روشنی دینے کی ذمہ داری جس نے لے رکھی ہے وہ آپ کو مایو س
کبھی نہیں کرے گا۔ بقول امیر قزلباش:
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور
نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور
نکلے گا
27 مئی،2022 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism