New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 04:17 PM

Urdu Section ( 27 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

When Justice Is the Only Path Left: The Legal Battle Against the Waqf Amendment Act 2025 کوئی اور راستہ بھی نہیں

ودود ساجد

25 مئی 2025

وقف ترمیمی قانون 2025کے خلاف دائر عرضیوں پر فریقین کی طرف سےتین دن کی تفصیلی بحث اور استدلال کے بعد گزشتہ 22مئی کوسپریم کورٹ نےعبوری حکم امتناعی کی درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدلیہ کسی ایک جج کا نام نہیں ہے۔جج بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور انسان ناقابل قیاس مخلوق ہے۔مختلف جج‘مختلف انداز سے سوچتے ہیں  لیکن عدالتوں میں عموماً آئین اور قانون کی متعلقہ دفعات کی بنیاد پر ہی بحث آگے بڑھتی ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ججوں کے افکار کا ان کے فیصلوں پر اثر نہیں  پڑتا۔اس سب کے باوجود جس دور میں ہم اور آپ جی رہے ہیں اس میںمعتوب طبقات کی راحت کیلئے عدلیہ کے سواکوئی اور راستہ بھی نہیں ہے۔اس لئے جو عناصر عدالتوں میں ہونے والی بحثوں‘ججوں کے تبصروں اوران کے فیصلوں پرجوش وجذبات کے تحت تبصرے کرتے ہیں وہ اس لٹی پٹی ملت کیلئے کوئی مفید کارنامہ انجام نہیں دیتے۔

موجودہ چیف جسٹس ‘بھوشن راما کرشنا گوائی ہندوستان کے اولین ’بودھ‘ چیف جسٹس ہیں۔وقف ترمیمی قانون پر سماعت کرنے والی دو رکنی بنچ کے دوسرے جج‘جسٹس آگسٹائن جارج مسیح ہیں۔دونوں ججوں کا تعلق اقلیتی فرقوں سے ہے۔ 16-17اپریل کووقف قانون کی اس شق پر‘جس میں وقف بورڈوںاور وقف کونسل میں  غیر مسلم ممبران کوبھی رکھنے کا التزام ہے‘پچھلے چیف جسٹس ‘سنجیو کھنہ نے حکومت کے وکیل اور سالیسٹرجنرل تشار مہتا سے سوال کیا تھا کہ ’کیا آپ مندروں   کے بورڈوں میں بھی مسلمانوں کو رکھیں گے۔‘اس پر انہوں نے ایک عجیب بات کہی تھی کہ: پھر اس منطق کے حساب سے تو آپ کو بھی اس مقدمہ کی سماعت نہیں کرنی چاہئے۔ اس وقت اس مقدمہ کی سماعت تین ججوں کی بنچ کر رہی تھی اور جسٹس سنجیو کھنہ سمیت تینوں جج ہندو تھے۔جسٹس سنجیو کھنہ نے تشار مہتا کی اس منطق پر سخت ناگواری ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جب ہم یہاں (عدالت میں) بیٹھتے ہیں تو اپنی مذہبی شناخت کھودیتے ہیںاور اس وقت ہم خالصتاً سیکولرہوتے ہیں۔‘ اب یہ اتفاق ہی ہے کہ وقف قانون کے خلاف دائر عرضیوں  پرجن دو ججوں کی بنچ نے سماعت کرکے فیصلہ محفوظ کیاہے وہ دونوں ہندو نہیں ہیں۔

جسٹس گوائی نے چیف جسٹس کے عہدہ کا حلف 14مئی کو لیا تھا۔ 23مئی  کو انہوں نے عدالت میں یہ اعلان کردیا کہ وہ سبکدوشی کے بعد کوئی عہدہ قبول نہیں کریں گے۔ابھی ان کے پاس پورے چھ مہینے باقی ہیں۔ لیکن محض دس دنوں کے بعد ہی ان کا یہ اعلان کردینا بہت کچھ کہتا ہے۔کم سے کم یہ تویقین ہوگیا ہے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ یہ ذہن میں رکھ کر نہیں کریں گے کہ سبکدوشی کے بعد انہیں حکومت سے کوئی عہدہ لینا ہے۔جسٹس گوائی بہت صاف گو اور سیدھی بات کرنے والے جج ہیں۔ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ڈرتے نہیں اور جو کہنا ہوتا ہے کہہ دیتے ہیں۔22مئی کو جب عرضی گزار مولانا ارشد مدنی کےوکیل کپل سبل حکومت کے جواب کا جواب دے رہے تھے تو سالیسٹر جنرل بار بار اٹھ کر انہیں ٹوک رہے تھے۔ جو وکلاء بحث کے دوران عدالت میں موجود تھے ان میں سے کچھ سے میں نے بات کرکے سمجھنے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ دراصل کپل سبل حکومت کے جھوٹ اور مکروفریب کا پردہ فاش کر رہے تھے۔اس سے تشار مہتا خوف زدہ تھے۔کپل سبل نے کئی بار تشار مہتا کو غیر ضروری مداخلت پر ٹوکا بھی لیکن وہ باز نہیں آئے۔آخر کار چیف جسٹس نے انہیں انتباہ دیا اور پوچھا کہ آپ بار بار کیوں مداخلت کر رہے ہیں۔کپل سبل نے کہا کہ وہ خوف زدہ ہیں۔اس پر تشار مہتا نے پھر کھڑے ہوکر کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن چیف جسٹس نے ان سے کہہ دیا کہ ’اپنے اوپر قابو رکھئے۔‘ اس کے بعد پھر وہ اٹھ نہیں سکے۔ان کا چہرہ پڑھنے والوں کو معلوم ہوگا کہ جب تک کپل سبل بولتے رہے تشار مہتا کس کیفیت سے دوچار رہے۔

 جسٹس اے ایس اوکانے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ بھی کوئی عہدہ قبول نہیں کریں گے۔جسٹس اوکا جمعہ کے روز سبکدوش ہوگئے۔انہوں نے کبھی کہا تھا کہ جج کو آخری دن بھی کام کرنا چاہئے۔قدرت نے ان کا امتحان لیا اورجمعرات کے روز ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔اگلے روز وہ عدالت میں بیٹھے اوردس مقدموں کا فیصلہ کیا۔وہ میرے چند پسندیدہ ججوں میں سب سے اوپر ہیں۔ انہوں نے پہلے بامبے ہائی کورٹ اور پھرکرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طورپر جو فیصلے کئے وہ انتہائی شاندار ہیں۔انہوں نےبی جے پی کے اس وقت کے وزیر اعلی یدی یورپا کے خلاف بند ہوجانے والے درجنوںمجرمانہ معاملات کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ دیا۔انہوں نے ان مسلم مکینوں کے خلاف درج ایف آئی آر کوبھی ختم کرنے کاحکم دیا جواپنی زیر ملکیت ایک فلیٹ کو مسجد کے طورپر استعمال کر رہے تھے۔پانچ دسمبر2024کو ایک پروگرام میں بامبے ہائی کورٹ کے سابق جج‘جسٹس گوتم پٹیل نے ممتاز ماہر قانون پروفیسر اوپیندر بخشی سے پوچھاتھا کہ وہ تین اوصاف کیا ہیں جو ملک کا عام شہری ہر جج کے اندر دیکھنا چاہتا ہے؟۔پروفیسر بخشی نے انگریزی میں  جواب دیا:اسپائن‘اسپائن اینڈ اسپائن۔یعنی پہلی دوسری اور تیسری چیز ریڑھ کی ہڈی ہے جو عام شہری ہر جج کے اندر دیکھنا چاہتا ہے۔یعنی جج کو سخت‘بے خوف اورمضبوط ہونا چاہئے۔اس پروگرام میں جسٹس اوکا بھی موجود تھے۔گرسمرن کور بخشی نے ایک مضمون لکھ کرکہاکہ  جسٹس اوکاپر یہ بات مکمل طورپر صادق آتی ہے۔

مجھ جیسے لوگ ‘جو اپنے قارئین کو قانونی باریکیوں کو سمجھنے اور عدلیہ پر بھروسہ رکھنے کیلئے ’اکساتے‘رہتےہیںبابری مسجد کے فیصلہ کا ذکر آنےسے دشواری میں پڑجاتے ہیں۔یہ ایسا فیصلہ تھا جس نے انصاف کی عمارت کو ایک جھٹکے میں منہدم کردیا تھا۔اس مقدمہ کو سننے والی بنچ میں پانچ جج تھے۔ان میں سے تین ججوں نے سبکدوشی کے بعدمودی حکومت سےعہدے قبول کرلئے تھے۔ان میں  چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے پارلیمنٹ کی رکنیت اورجسٹس ایس عبدالنظیرنے گورنرشپ قبول کرلی تھی۔جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس بوبڈے نے کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔ یہ فیصلہ جسٹس چند رچوڑ نے ہی لکھا تھا۔ اس ملک کے مسلمانوں کوجسٹس سنجیوکھنہ کا ہمیشہ احسان مند رہنا چاہئے۔ چیف جسٹس بننے سے پہلے انہی کی بنچ نے پورے ملک میں اور خاص طورپر یو پی میں اس فتنہ کا سر کچل دیا تھا جو بڑی اور تاریخی مسجدوں    کے نیچے مندر تلاش کر رہا تھا۔ اگر ان کی بنچ نے مسجدوں کے سروے کی درخواستوں  کے رجسٹریشن اور ان پر سروے  کے احکامات جاری کرنے پر پابندی نہ لگائی ہوتی تو بنارس اور سنبھل کی طرح مسجدوں کے خلاف سروے کے نام پر کھدائی کی ایک باڑھ تو آہی گئی تھی۔شرپسندوں نے درگاہ اجمیر تک کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کردی تھی۔

یوپی میں 2017کے بعد سے سرکاری بلڈوزر نے جو دہشت مچائی تھی اس کا اثر دہلی ‘راجستھان‘ مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ کی حکومتوں نے بھی قبول کیا تھا ۔ دہلی کے جہاں گیر پوری میں مسلمانوں کی آبادیوں کے خلاف سڑکوںپراترے ہوئے بلڈوزروںکو سپریم کورٹ نے ہی روکا تھا۔ بعد میں  جسٹس گوائی کی بنچ نے پورے ملک میں انہدام سے متعلق ضابطے بناکر حکومتوں کو اس کا تابع کردیا تھا۔اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو یوپی میں آج ہر طرف بلڈوزر نے دہشت برپا کر رکھی ہوتی۔ تبدیلی مذہب کے نام پربھی پولیس اور انتظامیہ نے کتنی دہشت مچائی تھی۔اس پر بھی عدالت نے ہی قدغن لگائی۔تازہ فیصلہ الہ آباد کی ایک اگریکلچرل یونیورسٹی کے عیسائی ڈائریکٹرونود بہاری لال کے تعلق سے آیا ہے۔یوپی حکومت نے ان کے خلاف گینگسٹر ایکٹ کے تحت درجنوں مقدمات درج کرلئے تھے۔الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی انہیں کوئی راحت نہیں دی تھی۔سپریم کورٹ میں جسٹس جے بی پاردی والا کی بنچ نے ان کے خلاف تمام مقدمات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پولیس اور حکومت کے خلاف انتہائی سخت تبصرے کئے ہیں۔

  ایک بات اور سمجھنے کی ہے۔آئین سازوں نے پارلیمنٹ‘حکومت اور عدلیہ کے کام کاج اور ان کی حدود طے کر رکھی ہیں۔یہ تینوں ادارے آئین کے پابند ہیں۔پارلیمنٹ حکومت نہیں ہے اور حکومت عدالت نہیں ہے۔لہذا عدالت بھی حکومت کا کام انجام نہیں دے سکتی۔ اس کے علاوہ جب عوام پر حکومت زیادتی کرتی ہے اور مقدمہ عدالت میں پیش ہوتا ہے تووہاں بیٹھے ہوئے ججوںکو فریق بن کر نہیں ثالث بن کراوردونوں فریق کے دلائل سن کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔سوشل میڈیا کے جوشیلےمسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے ہی ہم عدالت میں پہنچیں ججوں کو فورا حکومت کے خلاف فیصلہ کرکے قانون کی عمل داری اپنے ہاتھ میں لے لینی چاہئے۔یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔یہ ممکن ہی نہیں ہے۔آئینی‘ قانونی اور جمہوری نظام میں یہ ہوہی نہیں سکتا۔اس سے انکار نہیں ہے کہ ایسے فیصلے بھی آتے رہتے ہیں کہ جن کی کوئی معقولیت نہیں ہوتی ۔تازہ مثال جسٹس سوریہ کانت کی بنچ کے دو فیصلے ہیں۔تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے لیکن ایک مسلم پروفیسر اور مدھیہ پردیش کے ایک وزیر کے دو منفرد معاملات میں ان کے دو فیصلے غیر معقولیت کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔25نومبر2025کو چھ ماہ کی مدت کیلئے وہی چیف جسٹس کا حلف اٹھائیں گے۔ان چھ مہینوں کے بخیر وخوبی گزر جانے کیلئے دعا کرنی چاہئے۔

وقف ترمیمی قانون کے خلاف عرضی گزاروں کے وکلاء کپل سبل‘ا بھشیک منو سنگھوی‘راجیو دھون‘سی یو سنگھ اور حذیفہ احمدی نے بہت جامع اور شاندار بحث کی ہے۔اس کے برخلاف حکومت کے وکلاء کے دلائل انتہائی ناقص اور بہت بودے تھے۔فیصلہ کیا آئے گا نہیں معلوم لیکن دونوں ججوں کو  دلجمعی کے ساتھ بحث کے دوران بہت سے نکات لکھتے ہوئے دیکھا گیا۔ اندازہ ہے کہ عبوری فیصلہ بہت تفصیلی اور جامع آئے گا۔جب فیصلہ محفوظ کیا جاتا ہے تو اس کا ایک بڑاسبب یہ ہوتا ہے کہ ججوں کوتمام نکات اورموضوع سے متعلق ماضی کے فیصلوں کامطالعہ کرکے معقول دلائل اور اسباب کے ساتھ تفصیلی فیصلہ لکھنا ہوتا ہے۔اس کا وہ سبب نہیں ہوتا جس کا اظہار بہت سے جوشیلے مسلمان کر رہے ہیں۔ اس مقدمہ کے نوڈل کونسل اعجاز مقبول ہیں۔ بحث کے دوران جب تشار مہتا ’سجادہ نشین‘کا ذکر کر رہے تھے تو وہ اسے’ سجدہ نشین‘ کہہ رہے تھے۔اعجاز مقبول نے انہیں ٹوکا اوران کاتلفظ درست کرایا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ کپل سبل نے امام ابوحنیفہ‘امام ابویوسف اور کتاب ردالمختارکا حوالہ دیتے ہوئے انتہائی درست تلفظ ادا کیا۔اعجاز مقبول کی اردو دانی اور اردو نوازی کے سبب ان کی متعددججوں   سے شناسائی ہے۔انہوں نے عدالتی لطائف پر انگریزی میں ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ان کا خیال ہے کہ چونکہ اس بار جزوی تعطیلات ہورہی ہیں  اور چیف جسٹس بھی تعطیلاتی بنچ میں  بیٹھیں گے تو فیصلہ یکم جون سے پہلے آسکتا ہے۔ورنہ 13جولائی کوچھٹیاں ختم ہونے کے بعد توآئے گاہی۔لہٰذا کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے اس وقت تک کا انتظار کرنا چاہئے۔

---------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/justice-path-waqf-amendment-legal-battle/d/135679

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..