ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
8 اپریل 2025
یہ سچ ہے کہ ہندوستان جیسے تکثیری سماج اور جمہوری نظام نے یہاں کے باشندوں کو فکری حریت ، اپنے اپنے دھرم و دین اور عیقدہ و ایمان کے ساتھ رہنے کی اجازت دی ہے ۔ جب ہم اس تنوع پر بھارت میں عمل در آمد ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے ۔ یہ خوبصورت منظر ہمیں تہوار ، شادی بیاہ یا دیگر معاشرتی رسوم کی ادائیگی کے مواقع پر دیکھنے کو مل جاتاہے ۔اسی طرح عبادت گاہوں میں جب لوگ اپنے اپنے دھرم کی روایات و تعلیمات کے مطابق عبادت کرتے ہیں تو بھی یہ خوبصورتی بھارت کے سماجی حسن کو دوبالا کرتی ہے ۔ اسی وجہ سے ہندوستان کے باشندے خود کو ہندوستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ بھارت کے باشندوں کے مابین سماجی میل جول اور ایک دوسرے کی خوشی وغم میں شرکت کا رواج بھی ہمیں اخوت و محبت اور بھائی چارگی کا احساس دلاتا ہے ۔
تصور کیجیے جس سماج کی اتنی خصوصیات ہوں اور جو اپنے فکر و فلسفہ کے لیے جانا جاتا ہو، اس معاشرے کی یکجہتی اور تعدد پسند روح کو مجروح و مخدوش کرنے کی سعی کرنا قطعی طور پر مناسب نہیں ہے۔ بھید بھاؤ اور مذہب و دھرم کے نام پر سیاست کرنا یا ارباب اقتدار کو اپنی مخصوص آئیڈیا لوجی کے نفاذ کے لیے نوع بنوع کے ہتھکنڈے اختیار کرنا تکثیری سماج کی تعمیر و ترقی میں سدباب ہے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اگر ملک کے کسی حصہ میں کوئی جرم ہوتا ہے تو مجرمین کا مذہب دیکھ کر معاملہ کیا جاتاہے۔ اس کی تازہ کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ جرم کو جرم کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے خواہ مجرم کا تعلق کسی بھی ذات و رنگ اور مذہب و دھرم سے ہو ۔ یاد رکھیے مجرم مجرم ہوتا ہے اس کی قبیح حرکتیں اورمنفی سوچ و فکر پورے سماج کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے ۔ مجرم کوئی بھی ہو وہ اس وقت با ہمت ہوتا ہے جب معاشرے کے لوگ اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ اگر صاحب اختیار گروہ کسی مجرم اور گناہ گار یا خاطی کا ساتھ دینے لگے تو پھر وہ مجرم معاشرے کے لیے اور بھی زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے اور پھر اس کی خباثت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ مگر کیا کیجیے ہو ایسا ہی رہا ہے۔ اس بات کا علم ہوتے ہوئے کہ فلاں شخص نے جرم عظیم کیا ہے، کسی کی بہن بیٹی کی آبرو کو روندا ہے مگر سماج کا ایک طبقہ ایسے خاطیوں کا استقبال کرتا ہے اور ان کو مالائیں پہناتا ہے۔ اسی پر بس نہیں اب تو وطن عزیز میں نفرت و عداوت کا زہر گھول دیا گیا ہے۔ ایک طبقہ دوسرے طبقے سے جس طرح نفرت کا مظاہرہ کر رہا ہے اس کا اندازہ ہجومی تشدد کے واقعات سے لگایا جاسکتا ہے ۔ اس پر حساس اداروں کا دوہرا رویہ نفرت کو بڑھاوا دے رہا ہے ۔
ذرا غور کیجیے کہ جب ملک میں کسی کی عزت و عصمت کو تار تار کیا جائے، اسی طرح اگر کسی معصوم کو راہ چلتے سر پھرے گائے کے نام پر، یا بلا کسی جرم کے صرف شک کی بنیاد پر قتل کردیں اور مجرمین و خاطئین کی شناخت بھی ہو جائے اس کے بعد انہیں کوئی سزا نہ دی جائے، یا ایسے گناہگاروں کی حمایت میں مظاہرے کیے جائیں تو پھر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کس طرح کا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں ؟ عوام کے ساتھ ساتھ سوچنا تو ارباب اقتدار کو بھی ہوگا کہ اگر مجرموں کی اسی طرح حمایت ہوتی رہی تو اس سے معاشرے پر منفی اور مایوس کن اثرات مرتب ہوں گے ۔ ہمارا سماج یہ کیوں نہیں سوچتا ہے کہ جرم کوئی بھی کرے اس کی قطعی حمایت نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ اس سے پورے معاشرے کی توہین ہوتی ہے اور اس کے اثرات پورے سماج پر پڑتے ہیں ۔ بلکہ سماج کے افراد کو مجرمین و خاطئین کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لیے پولیس اور سرکاری محکموں کا تعاون کرنا چاہیے ۔
موجودہ سیاسی اور سماجی منظر نامہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس میں تنگ نظری ہے اور سیکولر و جمہوری نظام کی بنیادوں کو کمزور کیا جارہاہے ۔ ملک کے آئین و دستورکو بالائے طاق رکھ کر الگ طرح کی باتیں کی جا رہی اور پھر منطق یہ پیش کی جارہی ہے کہ یہ سب ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کیا جارہاہے ۔ سچ یہ ہے کہ ہر وہ عمل جو آئین ہند اور سیکولر اقدار و روایات کے منافی ہو وہ ہندوستان جیسے تکثیری سماج کے لیے قطعی ٹھیک نہیں ہے خواہ اس کو کتنا ہی جدید لب و لہجہ اور خوبصورت سانچہ میں ڈھال کر پیش کیا جائے۔ وطن عزیز میں جو نظریہ تیزی کے ساتھ تشکیل دیا جارہاہے اس کی بنیادی خامی یہی ہے کہ اس کے اندر توازن و اعتدال نہیں ہے ۔ یاد رکھیے نظریہ کوئی بھی ہو ملک و معاشرے کو آگے لیجانے کے لیے اس کے اندر توازن و اعتدال اور عمومی مفادات کا پایا جانا ضروری ہے ، تبھی جاکر ایک ایسا سماج تشکیل دیا جا سکتا ہے جس کے اندر حساسیت ہوگی اور وہ امن و امان کا علمبردار ہوگا ۔ اس تناظر میں بات کہی جائے توبے جا نہیں ہوگا کہ مسئلہ صرف مجرمین کی حمایت کا نہیں ہے بلکہ اس سے جو سوچ پروان چڑھ رہی ہے وہ بڑی ضرر رساں ہے کیوں کہ نوجوانوں کے اندر سے خوف نکل رہا ہے وہ سوچ لیتا ہے کہ جب غلطی کرکے سزا نہیں مل رہی ہے بلکہ مزید اس کہ عزت افزائی کی جارہی ہے تو معاشرے میں کتنے مجرمین نئے تیار ہو جائیں گے۔ اس لیے مجرم کو دین و دھرم کی عینک لگا کر قطعی نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اس کو جرم کے مطابق جو سزا قانون نے مرتب کی ہے وہ اسے ملنی چاہیے ۔
ملک کا سیاسی منظر نامہ بظاہر تو کچھ تبدیل ہواہے ، حتی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے بل بوتے پر پوری سیٹیں بھی نہیں لاسکی اور حکومت سازی کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کا سہارا بھی لیا گیا ،مگر مسلم اقلیت کے ساتھ جس طرح کا جانبدار رویہ اختیار کیا جارہاہے وہ بڑا شرمناک ہے ۔ تیسری مرتبہ حکومت سازی کے بعد ملک میں ہجومی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ۔ وقف املاک کے خلاف بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اگر چہ یہ بل ابھی منظور نہیں ہوا بلکہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس چلا گیا ۔ اسی طرح شان رسالت مآب میں گستاخی کرنے والے کی حمایت اور جواس جرم کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے اس کے خلاف کارروائی یہ سب واقعات سیکولر معاشرے کے لیے ٹھیک نہیں ہیں ۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے واقعات سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہیں ۔ سوال تو ہندوستان کی عوام کو یہ بھی اٹھانا چاہیے کہ آخر اس طرح کی حرکتیں کب تک انجام دی جاتی رہیں گی ؟ یقین جانیے جب بھی سرزمین ہند پر کوئی ایسا واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے جو آئین ہند کے خلاف ہے یا خاص کمیونٹی کے خلاف دوہرا رویہ اختیار کیا جاتاہے تو ہمارے ملک کے آئین کی روح بری طرح متاثر ہو جاتی ہے ۔ لہذا آج ضرورت ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی ناروا سلوک اختیار کیا جائے یا کوئی مجرم جرم کا ارتکاب کرے تو اسے ایسی سخت سزا دی جائے جس سے کوئی دوسرا پھر جرم کرنے کی ہمت نہ کرسکے ۔ جب ہم چیزوں کو اور مجرمین کو ذات و رنگ اور دھرم کے نام پر تولتے ہیں ، اور خاموش حمایت ارباب اختیار کی بھی ہوتی ہے تو اس وقت جمہوریت پوری طرح چرمرا جاتی ہے۔ سماج میں نفرت پیدا کرکے یا دھرم کے نام پر اقتدار حاصل کرنے سے مفادات تو حاصل ہوسکتے ہیں ، اقتدار پر تو متمکن ہواجا سکتا ہے لیکن اس سے سماج کے اندر خصوصا نوجوان نسل کے اندر جو خرابیاں پیدا ہوں گی اور ان کے جو مسموم اثرات پیدا ہوں آگے چل کر ہم ان کی بھرپائی بھی نہیں کرسکتے ہیں۔
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/judging-criminals-religion-unjust/d/135091
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism