New Age Islam
Tue Apr 22 2025, 03:56 PM

Urdu Section ( 21 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Judge Turns to Trading in Decisions منصف تو فیصلوں کی تجارت میں لگ گئے

ڈاکٹر یامین انصاری

15دسمبر،2024

ملک کے موجودہ حالات نے ہر انصاف پسند اور محب وطن کی پیشانی پر پریشانی کی لکیریں کھینچ دی ہیں۔ اب تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ نفرت اور اقلیت دشمنی کا یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔ معاشرے کو اس قدر زہر آلود کردیا گیا ہے کہ اس سے نہ بچے محفوظ ہیں، نہ خواتین اور نہ ہی بزرگ۔ نفرت کے زہر میں ڈوبے ان لوگوں میں اب تو تعلیم یافتہ اور جاہل، اَن پڑھ کا فرق بھی ختم ہوگیا ہے۔اب عہدے اور وقار کا خیال بھی نہیں رہا۔ملک کے اعلیٰ ترین پر بیٹھے سیاستدانوں کی تو کیا ہی بات کی جائے، جج، وکیل، سادھوسنت، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذمہ دارانہ عہدوں پر فائز لوگ بھی اب کھلے عام نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ تو بہت طویل ہے،مگر حال ہی میں پیش آنے والے چند واقعات سے ہی حالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ واقعات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ حصول اقتدار کے لئے ہندوستان کی اقدامات وروایات کو پامال کیا جارہا ہے۔ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی گرے زمانے کی باتیں لگنے لگی ہیں۔ مقامی عدالتوں سے لے کر ہائی کورٹ کے جج تک مسلم دشمنی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ یہی حال سماج کے نچلے طبقے کا بھی ہے۔ جج صاحب کی بات بعد میں کریں گے، اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ ممبئی کے ایک ہستپال کے باہر ایک بزرگ شخص غریبوں کو کھانا تقسیم کرتے وقت ایک خاتون کو صرف اس لئے کھانا دینے سے منع کردیتاہے کہ وہ مسلمان ہے۔ اس کے علاوہ مرادآباد کی ایک کالونی میں ایک مسلم ڈاکٹر ک گھر خریدنے پروہاں کے دوسرے مکین احتجاج پر اتر آئے کہ اس کالونی میں کوئی مسلم فیملی نہیں رہے گی۔احتجاج کررہے یہ لوگ بظاہر تعلیم یافتہ نظر آرہے تھے، مگر محبت، بھائی چارہ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے جیسے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ اسی طرح شملہ میں ایک تعلیم یافتہ لگنے والی خاتون کشمیر کے مسلم تاجروں سے وہاں سے چلے جانے کو کہتی ہے۔ عبادتگاہوں اور مذہبی جلوس میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ تو معمول ہی بن گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ سلسلہ بھی دراز ہوتا جارہا ہے کہ ہر تاریخی مسجد، درگاہ اور تہذیبی علامتوں کے خلاف مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔ وہ تو غنیمت ہے کہ سپریم کورٹ دیر سے ہی صحیح، کچھ حد تک شرپسندوں کے ارادوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے فی الحال اس سلسلہ کو روک دیا ہے، جس کے ذریعہ ہر روز ملک کے کسی نہ کسی کونے سے ہندو مسلم تنازعہ کو ہوا دی جارہی تھی۔ پارلیمنٹ سے پاس ایک قانون کی کھلے عام خلاف ورزی کی جارہی تھی۔ کبھی کسی مسجد کے نیچے، کبھی کسی درگاہ کے نیچے تو کبھی کسی مسلم تہذیب کی علامت اور تاریخی عمارت کے نیچے مندر ہونے کا شوشہ چھوڑا جارہا تھا۔ذیلی عدالتیں بھی جیسے تیار بیٹھی تھیں کہ کوئی کسی مسجد یا درگاہ کے نیچے مندر ہونے کے دعوے کے ساتھ آئے اور عرضی پیش کرے کہ اس کا سروے کرایا جائے یا اس مقام پرپوجا کی اجازت دی جائے۔اور اگر کسی عدالت میں آلہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو جیسے جج بیٹھے ہوں تو سونے پر سہاگہ۔ سنبھل کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ عبادتگاہوں کے تحفظ سے متعلق 1991ء کے قانون کا مذاق بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس کی بنیادمیں سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندچوڑ کا ایک زبانی تبصرہ تھا۔لہٰذا اس تعلق سے سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ یقینا قابل ستائش ہے۔ عدالت نے زیربحث مقدمہ کے دوران کسی نئی درخواست کو عدالتوں میں منظور کرنے اور پہلے زیر سماعت مقدمات پر کوئی مؤثر یا حتمی فیصلہ دینے یا سروے کا آرڈردینے پر روک لگادی ہے۔عدالت نے یہ واضح کردیا کہ اب کوئی نیا مقدمہ اس وقت تک درج نہ کیا جائے جب تک کہ اس پر سپریمکورٹ کوئی واضح فیصلہ نہ دے دے۔

شاید ہی کسی نے سوچاہوگا کہ ہندوستان میں ایسا دور بھی آئے گا جب جج ہی قانون کامذاق اڑائیں گے۔ الہٰ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو تو سب پر سبقت لے گئے۔ کسی شرم ولحاظ کے بغیر وشوہندو پریشد جیسی شدت پسند تنظیم کے پروگرام میں نہ صرف شرکت کی، بلکہ وہاں انہوں نے اپنے دل کی باتیں بھی کہہ دیں۔ جسٹس شیکھر یادو نے 8دسمبر کو وشو ہندو پریشد کے لیگل سیل کے پروگرام میں مسلمانوں کے خلاف انتہائی نازیبا اور متنازعہ تبصرے کئے، انہوں نے کہا کہ یہ ملک اکثریتی آ بادی کی خواہش کے مطابق چلے گا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کے لئے ’کٹھ ملا‘ کا لفظ استعمال کیا تھا اور جلد ہی ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بھی یقین دہانی کرائی تھی۔ ان کے ان آئین مخالف او ر نفرت انگیز تبصروں نے نہ صرف عدلیہ کا وقار مجروح کیا،بلکہ عدلیہ کے تئیں لوگوں کا اعتماد بھی متزلزل کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ سماج کے انصاف پسند طبقے کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ ملک کے وکلاء نے بھی اپنے بیانات سے عدالتی پیشے کی معتبریت اور اس سے وابستہ لوگوں کی نیک نامی پرپانی پھیر دیا۔ ملک کے انصاف پسند طبقہ کے رد عمل اور سپریمکورٹ کی ناراضگی کے بعد جسٹس شیکھر یادو کواہم معاملوں کی سماعت سے ہٹادیا گیا ہے۔ الہٰ آباد ہائیکورٹ کے جاری کردہ نئے روسٹر کے مطابق جسٹس یادو اب نچلی عدالت سے آنے والے مقدمات کے خلاف صرف اپیلوں کی سماعت کرسکیں گے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے الہٰ آباد ہائی کورٹ سے جسٹس شیکھر کمار یادو کے بارے میں تفصیلات طلب کی ہیں۔

جسٹس شیکھر یادو کے متنازعہ تبصروں سے پہلے ملک کے نامور اور سینئر وکیل دشینت دوے اور جسٹس نریمن ملک کے حالات اور عدالتی نظام کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں۔ ملک میں مساجد اور درگاہوں کے سروے کے نام پر دنگا وفساد کرانے کی کوششوں پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر دشینت دوے نے تو ان واقعات کے لئے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کو ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مساجد کے سروے کی اجازت دے کر جسٹس چندر چوڑ نے آئین اور اس ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے بابری مسجد قضیہ کا فیصلہ کے بارے میں کہا تھا کہ ایودھیا کافیصلہ ان پر خدانے منکشف کیا تھا۔ دوے نے ملک میں اقلیتوں کے خلاف اقدامات پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تقسیم کے بعد نہیں پاکستان جانا تھا، وہ چلے گئے لیکن جنہیں یہاں رہنا تھا، وہ یہیں رُک گئے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا اب ہندوستان کے مسلمانوں سے 600 / اور 700/ سال پہلے کے واقعات کا حساب لیا جائے گا؟ دشینت دوے کرن تھا پر کوانٹرویو دیتے وقت آبدیدہ ہوگئے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے سابق جج، جسٹس نریمن نے ملک کے عدالتی نظام کوآئینہ دیکھاتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ بابری مسجدکیس میں انصاف نہیں ہوا، بلکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف کے ساتھ سب سے بڑا دھوکہ یہ ہوا کہ سیکولرزم کے اصولوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ ملک کے نامور منصفوں کے یہ تاثرات یقینا باعث تشویش ہیں۔ انصاف اور آئین کی بالادستی کے لئے ضروری ہے کہ ملک کا انصاف پسند طبقہ کھل کر سامنے آئے اور شرپسندوں وفرقہ پرستوں کے عزائم کو ناکام بنائے۔ اگر ان کی حوصلہ شکنی نہیں کی گئی تویہ ملک اور معاشرے کے لئے بہت زیادہ نقصان پہنچائیں گے۔

15 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

----------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/judge-turns-trading-decisions/d/134092

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..