جوآن کول
23 اپریل 2013
( انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
بل مہر کی طرح متعصبوں کا جو کہنا ہے اس کے بر عکس، مسلمان دیگر مذاہب کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ متشدد نہیں ہیں۔ اکثر مسلم ممالک میں قتل کی شرح امریکہ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
جہاں تک سیاسی تشدد کی بات ہے ، بیسویں صدی میں عیسائیوں نے دو عالمی جنگوں اور نوآبادیاتی جبر و تشدد میں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری نہیں ہوئی اس لئے کہ یورپی عیسائیوں بدتر یا دوسرے انسانوں سے مختلف ہیں، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ جنگ کو صنعتی شکل دینے اور ایک قومی ماڈل کی تگ و دو کرنے والے سب سے پہلے تھے۔ کبھی کبھی یہ دلیل دی جاتی ہے کہ انہوں نے دین کے نام پر یہ کارنامے انجام نہیں دئے بلکہ قوم پرستی کے نام پر یہ کارنامے انجام دئے ۔ لیکن، یقیناً یہ کتنا معصومانہ ہے ۔ مذہب اور قوم پرستی ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ برطانوی بادشاہ چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ بھی ہے ، اور یہ کہ کم از کم اب بھی، بیسویں صدی کے پہلے نصف میں اس کا کچھ تو مطلب ہے۔ سویڈش چرچ ایک قومی چرچ ہے۔ اسپین؟ کیا یہ واقعی کیتھولس ازمن سے غیر منسلک تھا؟ کیا اس کے تئیں چرچ اور فرانسسکو فرانکو کے احساسات نے خانہ جنگی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا؟ اکثر مسلم تشدد کے پیچھے جدید قوم پرستی کی صورتیں بھی کارفرما ہیں۔
میں یہ نہیں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں نے پوری بیسویں صدی میں سیاسی تشدد کے واقعات میں 2 ملین افراد یا اس سے زیادہ کو ہلاک کیا ہو، اور یہ کہ بنیادی طور پر، ایران عراق جنگ 1980- 1988 اور افغانستان میں سوویت اور مابعد سوویت یونین جنگوں میں، جس کے لئے یورپ کے سر کچھ الزام ہیں۔
عیسائی یورپی اعداد شمار سے اس کا موازنہ جو کہ 100 ملین ہے (پہلی جنگ عظیم میں 16 ملین اور دوسری جنگ عظیم میں 60 ملین ان میں سے کچھ کو ایشیا میں بدھ مت کے پیروکاروں اور نوآبادیاتی جنگوں میں مزید لاکھوں سے منسوب کیا گیا ہے ۔
بیلجیم-جی ہاں،بیلجیم اسٹابری بیئر اور کوینٹ گریو اسٹون کیسٹل جسے کانگو کے ذریعہ فتح کیا گیا ا سکے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس وقت کے نصف باشندوں کو ہلاک کر دیا گیا جو کہ کم از کم 8 ملین کی تعداد ہے ۔
یا، 1916- 1930 کے درمیان روسی سلطنت اور سوویت افواج وسطی ایشیا کی بغاوت کا سامنا کرتے ہوئے عیسائی (اور اس کے بعد مارکسی) کو علیحدہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یورپی حکومت - روسی فورسز نے ایک اندازے کے مطابق 1.5 ملین افراد کو ہلاک کر دیا ۔ ان علاقوں میں سے ایک (کرغستان) میں بڑے ہونے یا پیدا ہونے والے دو لڑکوں نے 4 افراد کو مار ڈالا اور دوسروں کو سخت زخمی کر ڈالا ۔ وہ خوفناک ہے، لیکن روس میں یا یورپ میں یا شمالی امریکہ میں کسی کو اس بات کا ذرا سا بھی خیال نہیں ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران بڑے پیمانے پر وسطی ایشیائی لوگوں کا قتل کیا گیا تھا اور اس سے پہلے اور بعد بھی ، اور ان کا اکثر مال لوٹ لیا گیا ۔ روس جب بری طرح سے فتح کیا گیا اور اس پر حکومت کی گئی اس وقت قفقاز اور وسطی ایشیا ایک مشرقی آرتھوڈوکس عیسائی سلطنت تھے (اور ایسا لگتا ہے کہ یہ دوبارہ ابھر رہا ہے!) ۔
اس کے بعد، تقریباً دیڑھ ملین الجیریائی لوگ فرانس سے ، 1954-1962 میں اس ملک کی آزادی کی جنگ میں اس وقت مارے گئے جب اس کی آبادی صرف 11 ملین تھی!
میں اس کی اور بھی مزید وضاحت کر سکتا ہو ۔ آپ افریقی ایشیا میں یورپی استعماریت میں جہاں بھی کھودیں گے لاشیں ہی لاشیں ملیں گی ۔
اب میرا اس بارے میں خیال ہے کہ، ہو سکتا ہے کہ اصل سے کم اندازے کے مطابق بیسویں صدی میں یورپ کے عیسائیوں کے ذریعہ 100 ملین افراد مارے گئے ۔
جہاں تک مذہبی دہشت گردی کا تعلق ہے تو وہ بھی آفاقی ہے۔ البتہ کچھ جماعتیں بعض اوقات دہشت گردی کو دوسروں کے مقابلے میں میں زیادہ ایک حربہ گردانتی ہیں ۔ ایک برطانوی نقطہ نظر سے صیہونی برطانوی منشور میں فلسطین 1940s میں سرگرم دہشت گرد تھے، اور 1965- 1980 کے زمانے میں، ایف بی آئی نے یہودی دفاعی لیگ کو سب سے زیادہ فعال امریکی دہشت گرد جماعتوں کے درمیان سمجھا۔ اب یہودی قوم پرست بڑی حد تک اپنے راستے پر آ رہے ہیں ، ان کے درمیان دہشت گردی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن اگر ان کا راستہ بند کر دیا گیا تو دوبارہ ابھر کر سامنے آنے کا امکان ہے ۔ دراصل اسرائیلی سیاست دان اسرائیلی دخیلوں کو مغربی کنارے میں فلسطینی اراضی پر قبضہ کرنے کے لئے جن کو انہوں نے غصب کر رکھا ہے جو دلائل پیش کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ انہیں واپس نکالنے کی کوشش سے تشدد پیدا ہوتی ہے۔ یعنی آبادکاروں نےدراصل نہ صرف یہ کہ فلسطینیوں کو دہشت زدہ کیا، بلکہ انہوں نے اسرائیل کے لئے دہشت گردی کے ایک مستقل خطرے کی تشکیل کر دی ہے (جیساکہ مرحوم وزیر اعظم رابن نے ظاہر کیا ) ۔
یہاں تک کہ حال ہی میں تیمورلنگ سارنایفاور اور ہیبرون قتل عام کے مرتکب باروچ گلدستاین کے درمیان اتنے بڑے فرق کو دیکھنا میرے لئے مشکل ہے۔
یا بھاوش پٹیل اور ہندو قوم پرستوں کے ایک گروہ کے ذریعہ ہندوستان میں اجمیر درگاہ پر خطرناک بم حملے ہوئے تھے ۔ جب ان کے ذریعہ نصب کیا گیا دوسرا بم بلاسٹ نہیں ہو ا تو وہ پریشان تھے اس لئے کہ جتنی تباہی کے ساتھ انہوں نے بدلہ لینا چاہا تھا اتنی تباہی کے ساتھ نہیں لے سکے ۔ اجمیر ایک عام صوفی مزار ہے جہاں ہندو بھی حاضری دیتے ہیں ، اور وہ متعصب ایسے کھلے ذہن کے روحانیت کے اشتراک کو روکنا چاہتے ہیں اس لئے کہ وہ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں ۔
بدھ مت کے پیروکاروں نے دہشت گردی اور ساتھ ہی ساتھ دیگر تشدد کا بھی ارتکاب کیا ہے ۔ بیسویں صدی کے پہلے نصف میں جاپان میں زین سلسلے کے بہت سے لوگوں نے فوج کی حمایت کی، جس کے لئے ان کے رہنماؤں نے بعد میں معافی مانگی۔ اور تمہارے پاس 1930s میں جاپان میں اینویو شیرو کے قتل کی مہم تھی۔ آج کل برما/میانمار میں عسکریت پسند بدھ مت کے راہب روہنگیا کے خلاف نسلی صفائی مہم پر زور دے رہے ہیں۔
جہاں تک عیسائیت کا تعلق ہے ، یوگنڈا میں حکومت کی مزاحمتی فوج نے فساد شروع کر دیا جس نے دو ملین لوگوں کو بے گھر کر دیا ۔ تاہم یہ ایک افریقی مسلک ہے، یہ اصل میں عیسائی ہے اور افریقہ میں مغربی عیسائی مشنریوں کی تبلیغ کا نتیجہ ہے ۔ طالبان کے لئے اگر سعودی وہابی مبلغین کو براہ راست مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے تو جب ہم ان کے شاگردوں کی شر انگیزیوں کو در خور اعتناء سمجھتے ہیں تو عیسائی مشنریاں کیوں خار کھاتی ہیں؟
یورپی مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کے باوجود، 2007- 2009 میں اس براعظم میں اس کمیونٹی کے لوگوں کی جانب سے 1 فی صد سے بھی کم دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دی گئیں تھی ۔
دہشت گردی ہر مذہب کے اندر، سیکولر مذاہب، مارکسزم یا قوم پرستی کے اندر انتہا پسندوں کا ایک حربہ ہے ۔ اسلام سمیت کوئی بھی مذہب معصوم لوگوں کے خلاف اندھا دھند تشدد کی تعلیم نہیں دیتا ہے۔
یورپی عیسائیوں کو "اچھا" سمجھنا یہ اور مسلمانوں کو موروثی طور پر متشدد سمجھنے کے لئے ایک انوکھے اندھے پن کی ضرورت ہے ، جیسا کہ بیسویں صدی میں مرنے والوں کی تعداد سے واضح ہے جو کہ میں نے مندرجہ بالا میں ذکر کیا ہے ۔ انسان انسان ہیں اور ایک جماعت سے دوسری جماعت میں ممتاز ہونے کے لئے انسان انتہائی نوجوان اور با ہم مربوط ہے ۔ لوگ خواہش یا رنجش کی وجہ سے تشدد کا سہارا لیتے ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ وہ جتنے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اتنے زیادہ تشدد کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ اچھی خبریہ ہے کہ بے شمار جنگیں وقت کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہیں، اور تاریخ کا سب سے منحوس واقعہ دوسری جنگ عظیم دہرائی نہیں گئی ۔
ماخذ: http://www.juancole.com/2013/04/terrorism-other-religions.html
URL for English article
https://newageislam.com/interfaith-dialogue/terrorism-other-religions/d/11313
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/terrorism-other-religions-/d/13062