جان جعفر
25 جنوری 2014
کیا آپ کو یہ لگتا ہے کہ چیک کوئی آج کی ایجاد ہے؟ یا یہ جدید بینک کاری نظام کی پیدا وار ہے؟ اگر آپ کو ایسا لگتا ہے تو آپ اس پر نظر ثانی کر لیں۔
9ویں صدی میں خلیفہ ہارون الرشید کے زمانہ میں مسلم تاجر بغداد میں اپنے بینک کا چیک چین میں کیش کرا سکتے تھے۔ تاہم اس لفظ ‘چیک’ کا مصدر عربی لفظ میں ساق ہے۔ 10ویں صدی کی ابتداء میں ہی عباس مجوسی کی کتاب نے یوروپ میں علم طب میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ کرسٹوفر کولمبس نے اپنے تاریخی سفر پر نکلنے سے پہلے اسی نقشہ کا مطالعہ کیا تھا جسے مسلمانوں نے تیار کیا تھا۔
سب سے پہلے مقناطیسی کمپاس کا ذکر ایک فارسی محمد العفوی کی کہانیوں کے مجموعہ میں ملتا ہے۔ خلیفہ المامون نے 9ویں صدی میں انسانی تاریخ کا سب سے پہلا رصد گاہ تعمیر کیا۔ تقریبا 300 سال پہلے مغرب نے ترکیوں سے ٹیکاکاری سیکھی۔
اب ہم کافی، گھڑی اور شطرنج جیسی دنیاوی ساز و سامان کی بات کرتے ہیں۔ ہر دن 1.6 بلین کپ کافی پوری دنیا میں پی جاتی ہے جس کی مقدار اتنی ہے کہ 300 اولمپک سائز کے سوئمنگ پول کو بھرنے کے لیےکافی ہے۔ 1200 سو سال سے بھی پہلے خالد نامی ایک عرب نے ایتھوپیا کے کوہستان میں ٹکے رہنے کا طریقہ دریافت کیا تھا۔
13ہویں صدی میں الجزاری نے پانی کی گھڑی سمیت گھڑیوں کا ایجاد پیش کیا جس نے ہمیں وقت معلوم کرنے کا طریقہ سیکھایا۔ تاہم شطرنج کا تصور کوئی نیا تصور نہیں تھا اور عربوں نے اسے کمال تک پہنچایا اور خلافت عباسیہ کے سلطانوں نے اسے بہت پسند کیا۔ اور باقی جو ہم جانتے ہیں وہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔
ان تمام حقائق کا مطالعہ آپ ایک حیرت انگیز کتاب ‘‘1001 Inventions: Muslim Heritage in Our World’’ میں کر سکتے ہیں جس کی اشاعت پبلکیشن آف دی فاؤنڈیشن فار سائنس ٹیکنالوجی اینڈ سویلائیزیشن آف دی یونائیٹڈ کنگڈم ‘‘publication of the Foundation for Science Technology and Civilisations of the United Kingdom’’ نے کی ہے۔ اس کے چیف ایڈیٹر پروفیسر سلیم ٹی۔ایس الحسنی ہیں اور معاون ایڈیٹر ایلیزا بیتھ ووڈکوک اور رابہ سعود ہیں۔
مسلمانوں کی ایجادات سے متعلق یہ ایک دلکش اور انتہائی معلومات انگیز کتاب ہے۔ دوسری کتابوں کے برخلاف یہ ایک دانشورانہ دریافت کا سفر ہے۔ اس کتاب میں ان چیزوں سے لیکر جن کو ہم عام طور پر گھروں، بازاروں، ہسپتالوں اور شہروں میں دیکھتے ہیں اس دنیا اور عالم کے تمام معاملات تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں ادویات، فلکیات، ریاضی اور فن تعمیر جیسے پیچیدہ مسائل سے لیکر دانتوں کے برش، کیمرے، ساؤنڈ سسٹم اور سہ رنگی عشائیہ جیسی معمولی سے معمولی چیزوں کے حوالے سے بھی بحث کی گئی ہے۔
ان ایجادات نے مختلف سطحوں پر انسانی زندگیوں کو متأثر کیا، کسی کے اثرات کا دائرہ وسیع تھا تو شاید کسی کے اثرات کا دائرہ محدود تھا۔ اگر آپ فیز مراکش کی اس مسجد کے بارے میں جانتے ہیں جو بعد میں چل کر یونیورسٹی میں تبدیل ہو گئی تو میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ اس کی بنیاد ‘‘ایک متقی و پرہیزگار نوجوان عورت نے رکھی تھی جن کا نام فاطمہ الفہری تھا، آپ کو معلوم ہے کہ اسلام تعلیم اور عورتوں کی اہمیت کو کیا مقام عطا کرتا ہے۔
ہم جامعہ الازہر الشریف کی تابناک تاریخ سے واقف ہیں جس نے ہمیں ابن الہيثم اور ابن خلدون جیسے علماء عطاء کیے اس سلسلے میں بعد میں آنے والے ان اصلاح کاروں کا ذکر کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے جنہوں نے 19ویں صدی کے اوائل میں ہماری نوجوان نسلوں کو کس قدر متأثر کیا تھا۔
تکلیف کی بات تو یہ ہےکہ اس دنیا میں مسلمانوں نے جو اپنا تعاون پیش کیا ہے ان کے بارے میں لوگوں کو بہت کم ہی علم ہے۔ دنیائے عرب اور یوروپ کے بھی مسلم سلطانوں کی شاندار تاریخ نے علم و حکمت کی دنیا پر اپنا زبردست اثر ڈالا ہے۔ جب اسلامی علوم و فنون اور ایجادات کا سلسلہ اپنے عروج پر تھا اس وقت یوروپین تاریکی کے دور میں ڈوبے ہوئے تھے۔
وہ دور ایسا تھا کہ اس دور میں مسلم علماء یا تو یونانی، چینی اور ہندوستانی جیسی دوسرے تہذیب و ثقافت سیکھ رہے تھے یا مختلف علمی مصادر و مراجع کو عربی زبان میں منتقل کر رہے تھے یا نظم و ضبط اور تہذیب و تمدن کے باب میں ایسے ایسے شاندار نظریات اور تصورات پیش کر رہے تھے جنہوں نے علم و دانش کی دنیا کو ہی بدل ڈالا۔
لہٰذا ڈاکٹر محضير بن محمد کی یہ بات مشہور ہے جو انہوں نے لکھی ہے کہ جب پوری دنیا پہلی ملینیم کا جشن منارہی تھی تو اس وقت مسلمان اپنی کامیابیوں کی چوٹی پر تھے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک ہزار سال کے بعد مسلمان پسماندہ اور کمزور ہوکر حاشیہ پر چلے گئے۔
کسی نے اس کتاب کے مصنف کو علم و حکمت کی دنیا میں شاندار مسلم روایت کے باقی علم کے بارے میں ‘‘خلاء کو پر کرنے’’ کا چیلنج پیش کیا۔9-11 کے بعد کی دنیا نے مسلمانوں کے تعاون کے تئیں جو بھی احترام اور تعریف کا تصور بچا ہوا تھا سب ختم کر دیا۔
اسلامو فوبیا اپنا خطرناک سر ابھار رہا ہے۔ اب اسلام کو ایک ایسا مذہب تصور کیا جانے لگا ہے جو قرون وسطیٰ کی ہی ذہنیت کے ساتھ الجھا پڑا ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں اب یہ سوچا جاتا ہے کہ ان کے اندر اب صرف دوسروں کے درمیان اور خود اپنوں کے درمیان بھی قتل و غارت گری کی وجہ بننے کی ہی صلاحیت ہے۔ آج کے مسلمان اپنے شاندار ماضی کا صرف ایک ہلکا سایہ ہیں۔ یہ ایک ایسی لاجواب کتاب ہے جس کی مدد سے لوگ اسلام کو ایک نئے زاویہ نظر سے دیکھ سکیں گے۔
اور یہ کتاب مسلمانوں کو پھر سے اسی دور میں جانے کی ضرورت کی یاد دہانی کراتی ہے کہ جب مسلمانوں نے تقریباً ان تمام تہذیبوں میں اپنے نشان قدم چھوڑ دیے تھے جن سے اس دور کے لوگ واقف تھے۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
ماخذ: http://www.nst.com.my/opinion/columnist/the-golden-age-of-muslim-scholars-1.469903?2F7.330034%2F7.330034%2F7.3300344
URL for English article:
https://www.newageislam.com/islamic-society/the-golden-age-muslim-scholars/d/35444:
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/the-golden-age-muslim-scholars/d/35618