جاذب رومی
25جون،2021
(Photo courtesy: Tehran Times
-----
معتزلہ اسلام کی فکری
دنیا کا عقل پرست گروہ تھا جس کا باقاعدہ آغاز تابعین کے دور میں ہوا۔ اس زمانے کی
سیاسی و فرقہ وارانہ کھلبلی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والے معتزلہ مکتبہ فکر نے
علم الکلام (عقلی اور منطقی دلائل سے عقائد کو ثابت کرنا) کی اقلیم میں جرأت
آزمائی کی اور منطقی دلائل کے ذریعے عقیدے او رعقل میں مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش
کی۔
مذہب کے اسرار کو ماورائے
عقل قرار دینے والے روایتی علماء کے برعکس معتزلہ نے حق و صدارت کا معیار عقل کو
قرار دیا، اور استدلال کیا کہ عقل کے میزان پر پورانہ اترنے والا ہر نظر یہ باطل
ہے۔ چونکہ وحی برحق ہے،لہذا اس کی کوئی بات عقل کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ اگر قرآن میں
کوئی عقل کے تقاضوں کے خلاف محسوس ہوتو یہ دراصل ہماری فہم کا نقص ہے اور ہمیں
آیات کی توجیہ اس اندازے سے کرنی چاہئے کہ ان کا مفہوم عقل کے تقاضوں سے ہم آہنگ
ہوجائے، اور اگر آیات کے لغوی معانی خلاف عقل محسوس ہوں تو ان کو استعار اتی مفہوم
میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
ایمان اور عقیدے کے ساتھ
ساتھ عقل کی اہمیت پر زور دینا اور عقل طرز استدلال کو فروغ دینا معتزلہ فکری
تحریک کی سب سے نمایاں خصوصیت تھی۔ تمام فکری اور عملی مسائل کو عقل کی روشنی میں
حل کرنے کے مشن کے زیر اثر معتزلہ نے فلسفے اور منطق کی کتابوں کا انہماک کے ساتھ
مطالعہ کیا۔
عقل پرست اعتزالی مفکرین
کی جانب سے مظاہرکی عقلی تعبیرات پیش کرنے کی کاوشوں کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں
فکری علوم و فنون کی ترویج کا آغاز ہوا۔ جو اباً مخالف مکتبہ نے بھی اعتزالی دلائل
کا توڑ کھوجنے کے لئے فلسفہ کی گتھیاں سلجھا نا شروع کیں۔ عوام الناس نے اس اختلافی بحث میں بے حد دلچسپی ظاہر کی۔ جبریہ
اور قدریہ کی مذہبی اور سیاسی بحثوں نے دلیل، منطق اور مشاہدے کے رجحان کو تقویت
فراہم کی۔ مطالعہ او رکتب بینی کی عادات کو فروغ حاصل ہوا۔
اسی دوران مسلمانوں نے
چینیوں سے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھا۔ 794ء میں بغداد میں کاغذ سازی کا پہلا
کارخانہ قائم ہوا۔ کاغذ کی فراہمی نے مسلم دنیا کے علمی ارتقاء پر ویسے ہی اثرات
مرتب کیے جیسے گیوٹن برگ کے چھاپہ خانے نے سولہویں صدی کے یورپ پر۔نتیجتاً نویں تا
بارہویں صدی پر محیط اس دور کا آغاز ہوا جو نہصرف اسلامی تہذیب بلکہ عقلی علوم کے
لیے بھی سنہرے ترین دور کی حیثیت رکھتا ہے، جس دوران فلسفہ، ریا ضی، فلکیات،
کیمیا، طب تاریخ، جغرافیہ اور ادب میں بے پناہ ترقی ہوئی۔
ان تمام علمی کا مرانیوں
کے باوجود عقل کو کبھی بھی اسلامی دنیا میں فکری رہنمائی کی مسند اعلیٰ نصیب نہ
ہوسکی کیونکہ بہر حال یہ تمام رنگا رنگ بزم آرائی عقیدے کی ہی رچائی ہوئی تھی۔
اسلام کی بنیادی تعلیمات نے کبھی بھی عقلی کاوشوں اور حصول علم کی حوصلہ شکنی نہیں
کی لیکن دارالسلام کے علمائے مذہب کا انتہائی روایت پرست طبقہ ہمیشہ عقل کی چیر و
دستیوں سے خائف رہا او راشیاء کی حقیقت کا علم حاصل کرنے کا الحاد قرار دیتا رہا۔
سواداعظم عقلی علوم کی تحصیل و تحقیق کو فرض قرار دینے کے باوجود عقل کی حدود و
قیود کا تعین کرنا اور عقیدے کی بالادستی قائم کرنا ضروری سمجھتا تھا۔
فکری علوم کا شعبہ مذہبی
نرعماء کی عقیدہ پرست نگاہوں میں نہیں کھٹکتا تھا، لیکن یہ علم الکلام (عقائد کی
عقلی توضیح) کا میدان تھا جہاں عقیدہ او رعقل کی دو بدو لڑائی میں گھمسان کا رن
پڑا۔ قرون وسطیٰ جامع العلوم شخصیات کا دور تھا جہاں صاحبان علم بیک وقت بہت سے
مضامین پر دسترس رکھتے اور کسی ایک علم کا مخالفت سے تمام علوم کا ارتقاء متاثر
ہوسکتا تھا اور بالآخر ایسا ہی ہوا۔ فلسفہ کے الہیاتی مباحث میں دو طرفہ تشدد در
آیا اور یہ عدم برداشت ایک عظیم الشان علمی تہذیب کے زوال کا سبب بن گئی۔ تاریخ نے
ایک شاندار تہذیب کے زوال کی علمبرداری کا ذمہ دار ابوحامد الغزالی (1058ء تا
1111ء) کے افکار کو قرار دیا۔ اگرچہ غزالی ایک روایتی ملا نہیں تھے بلکہ اپنے
زمانے کے ا ہم ترین فلسفی تھے۔ تاہم ان کی تعلیمات کو غلط اندازسے سمجھا گیا اور
سماجی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔
بذات خود غزالی ریاضیاتی
اور طبعی شواہد کی اہمیت سمجھتے تھے اور ان کا جھٹلانے کی کوشش کو کار لاحاصل قرار
دینے تھے۔غزالی اس حق میں نہیں تھے کہ خالصتانی طبیعاتی اور سائنسی معاملات میں
فلاسفہ کے افکار کو مذہب سے متصادم قر ار دیا جائے۔ سائنسی نقطہ نظر کا الحاد
پرستی کے قرار دینے والے علما ء کو غزالی نے شریعت کے نادان دوست قرار دیا کیونکہ
ان کے سائنس مخالف نظریات کے سبب سے مذہب کو خفت اٹھانا پڑتی ہے۔ حتی کہ غزالی یہ
تک کہتے تھے کہ اگر کوئی حدیث طے سائنسی امور سے متصادم ہوتو ان امور کو جھٹلانے
کی بجائے کہ اس حدیث کی تاو یل کی جانی چاہئے۔
فلسفہ کے خلاف اپنی مشہور
عالم تصنیف تہافتہ الفلاسفہ کی ابتداء میں ہی الغزالی نے سائنس کے حوالے سے اپنے
اس موقف کی تفصیلی وضاحت کی ہے۔تہافتہ الفلاسفہ کے دوسرے مقدمہ میں غزالی لکھتے
ہیں:”ایسے امور جن پر فلاسفہ تو یقین رکھتے ہیں،لیکن وہ کسی مذہبی اصول سے متصادم
نہیں ہیں، ان معاملات میں فلسفیوں سے اختلاف کرنا ایمان بالر سالت کا تقاضا نہیں
ہے۔ مثلاً ان (فلسفیوں) کا ماننا ہے کہ چاند گرہن کا سبب یہ ہے کہ سورج اور چاند
کی روشنی کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے، کیونکہ چاند سورج ہی سے روشنی مستعار
لیتاہے او رزمین ایک کرہ ہے۔ سواگر چاند زمین کا سایہ پڑجائے تو اس سے سورج کا نور
چھین جائے گا۔ اسی طرح ان (فلاسفہ) کا نظریہ ہے کہ سورج گرہن کا سبب ناظر اور سورج
کے درمیان کا چاند حائل ہوتا ہے: ایسا اس وقت ہوتا ہے جب چاند اور سورج ایک ہی
زاویے پر ایک دوسرے کا آمنے سامنے ہوتے ہیں۔
ہمیں اس نوعیت کے نظریات
کے ابطال میں کوئی دلچسپی نہیں، کیونکہ اس طرح کے رد سے کچھ حاصل نہیں۔ اگر کوئی
ایسا سوچتا ہے کہ ان امور کا ابطال کرنا اس کا مذہبی فریضہ ہے تو دراصل وہ مذہب کے
ساتھ زیادتی کرتاہے اور مذہبی مقاصد کو نقصان پہنچاتا ہے۔کیونکہ یہ امور ایسے
فلکیاتی اور ریاضیاتی ثبوتوں کی بنیاد پر متعین شدہ ہیں کہ جن کے بعد شک و شبہ کی
کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
وہ شخص جس نے ان امور کا
مطالعہ کررکھا ہے اور وہ ان سے متعلقہ اعداد و شمار کا مکمل جائزہ لے چکاہے، او ر
وہ یہ پیشنگوئی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے کہ سورج اور چاند گرہن کب او رکتنی مدت کے
لئے قائم ہوگا اور آیا مکمل ہو یا جزوی، اگر یہ کہا جائے کہ یہ نظریات مذہب سے
متصادم ہیں تو اس شخص کا اعتقاد ان نظریات کی بجائے مذہب پر سے متزلز ل ہوگا۔
مذہب کو زیادہ نقصان ایسے
بے سلیقہ مددگاروں کی جانب سے پہنچتا ہے،بہ نسبت ان دشمنوں کے کہ جن کی عداوت کیسی
ہی شدید کیو ں نہ ہو، لیکن کسی اصول اور ضابطے کی پابند ہوتی ہے۔ جیسا کہ مثل
مشہور ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے“۔(تہافتہ اللاسفہ مقدمہ دوم)
مزید آگے،سورج اور چاند
گرہن کی احادیث کے حوالے سے غزالی لکھتے ہیں: ”اگر کوئی کہے کہ رسول اللہ نے
فرمایا: بے شک سورج اور چاند خدا کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت یا
زندگی کی وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم انہیں (گرہن لگتے) دیکھو تو خدا کے
ذکر او رنماز کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔’تو ہم کہیں گے کہ اس روایت میں ایسا کچھ نہیں جو
فلاسفہ کے موقف کے خلاف ہو۔ اس میں صرف یہ بات کہی گئی کہ کسی کی موت یا حیات سے
گرہن لگنے کا کوئی تعلق نہیں، اور اس وقت نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ جو شریعت کے غروب و طلوع آفتاب کے
وقت نماز کا حکم دیتی ہے، وہ اگر کسوف کے وقت کسی مستحب نماز کا حکم دے تو کون سی
تعجب کی بات ہے؟
اگر کوئی کہے کہ اسی حدیث
کے آخر میں کہا گیا ہے کہ جب اللہ کسی چیز پر تجلی کرتا ہے تو وہ اس کے آگے سربسجود
ہوجاتی ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ گرہن دراصل تجلی کو کیا جانے والا سجدہ
ہے؟ تو ہم کہیں گے کہ یہ آخری جزو اضافی اور تکذیب کے لائق ہے۔ حدیث اتنی ہی ہے
جتنی کہ اوپر بیان کی گئی۔ لیکن اگر یہ اضافہ صحیح بھی ہو تو کیا اس کی تاویل پیش
کرنا آسان نہیں، بہ نسبت اس کے کہ مسلمہ امور کو رد کیا جائے۔ لوگوں نے بہت سے
ایسے متن کی عقلی تاویلات کی ہیں جن کے مفہوم واضح نہیں تھے۔ اگر مذہب کے معاونین
ایسے مسلمہ امور کو بھی خلاف شرع قرار دیں گے تو یہ ملحدین کے اطمینان کا باعث
ہوگا کیونکہ پھر ان کے لئے مذہب کا ابطال کرنا آسان ہوگا۔
یہی صورتحال عالم کے حادث
یا قدیم ہونے کی بحث کی ہے۔ اگر دنیا کا حادث (یعنی دنیا ازلی نہیں بلکہ تخلیق کی
گئی ہے) ہونا ثابت ہوجائے تو پھر (ہمیں اس سے غرض نہیں کہ) چاہے عالم کرہ(گول) ہو،
بسیط (فرش کی صورت بچھا ہوا) ہو، مسدس ہو یا مشمن،چاہے آسمان اور جو زیر آسمان ہے
اس کے تیرہ طبقات ہوں جیسا کہ فلاسفہ کہتے ہیں، یا اس سے کم یا زیادہ ہوں۔ ان امور
کی تحقیق البیاتی مباحث کے لئے اتنی ہی غیر متعلقہ ہے جتنا کے پیاز کے چھلکوں یا
انار کے دانوں کی تعداد کی تحقیق۔ ہمیں دلچسپی صرف اس امر سے ہے کہ یہ عالم خدا کے
تخلیقی عمل کی پیداوار ہے، خواہ تخلیقی عمل کی نو عیت کچھ بھی ہو۔“(تہافتہ
الفلاسفہ الغزالی مقدمہ دوم)۔
مقدمہ کے اختتام پر غزالی
واضح کرتے ہیں کہ وہ صرف ان فلسفیانہ نظریات کا رد کریں گے جو کسی مذہبی اصول سے
صریح متصادم ہیں جب کہ دیگر فلسفیانہ نظریات سے صرف نظر کریں گے۔
بعد ازاں غزالی فلسفہ کے
بیس نظریات پر فردافراد بحث کرتے ہیں۔ ان مسائل میں سے بیشتر کا تعلق خالصتاً
عقیدے سے ہے جن کے بارے میں کوئی سائنسی نقطہ نظر اختیار نہیں کیا جاسکتا۔لیکن دو
مسائل ایسے تھے جو سائنس کے ذیل آتے ہیں۔ ان میں سے ایک مسئلے پر غزالی کا نکتہ
نظر بالآخر سائنسی لحاظ سے درست ثابت ہوا۔ یہ مسئلہ کائنات کے آغاز اور انجام سے
متعلق ہے۔ اس دور کے فلسفی یہ مانتے تھے کہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی،
جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ کائنات تخلیق کی گئی ہے۔ جدید سائنسی نظریہ کے
مطابق بھی کائنات ہمیشہ سے او رہمیشہ کے لئے نہیں ہے بلکہ کچھ ساڑھے تیرہ ارب سال
پہلے تخلیق ہوئی اورخاص مدت کے بعد فنا ہوجائے گی۔
تہافتہ الفلاسفہ کا دوسرا
او راہم ترین سائنسی مسئلہ خدا کا علم جزئیات اور رعلت او رمعلول کا باہمی تعلق
تھا۔ یہ وہ معاملہ ہے جس پرغزالی کی تعلیمات نے اسلامی دنیا میں سائنسی سوچ کے
زوال اور تصوف کے عروج کا نظریاتی سبب فراہم کیا، اور اس ڈاکٹر ائن کا سیاسی
استعمال او ربزور طاقت نفاذ اسلامی تہذیب کے علمی زوال پر منتج ہوا۔فلسفیوں کا
ماننا تھا کہ ایک دفعہ جب خدا نے کائنات کو پیداکرلیا تو اس کے بعد یہ کائنات فطری
قوانین کے تابع اپنے خود کا ر نظام پر چلنے لگی۔بالکل ایسے ہی جیسے ڈومینوز کے
کھیل میں جب پہلی نیکٹکی کو گرایا جاتاہے تو یکے بعد دیگرے آگے رکھی گئی ٹکیوں کے
الٹنے کا مسلسل عمل شروع ہوجاتاہے۔ پس خدا نے کائنات کو شروع تو کیا ہے لیکن اس
پہلی کڑی کے بعد کائنات کی جزئیات میں خدا کی مزید مداخلت نہیں کرتا او رکائنات
فطری قوانین کے تحت آگے بڑھ رہی ہے۔ فلسفے کا کام یہ ہے کہ عقل کے ذریعے ان قوانین
کو دریافت کرے۔
دوسرے لفظوں میں فلسفی
قوانین فطرت او رعلت اور معلول کے لازمی اور متواتر یکساں (Cause
and Effect)
کے قائل ہیں۔
دوسری جانب غزالی کہتے
ہیں کہ یہ عقیدہ کہ خدا کائنات کا صرف پہلا سبب تھا جس کے بعد سے کائنات کو ثانوی
اسباب چلارہے ہیں،خدا کے بعد سے کائنات کو ثانوی اسباب چلارہے ہیں،خدا کی شان میں
کمی کرنے کے مترادف ہے۔درحقیقت کائنات کا ایک پتا بھی خدا کی مرضی کے بغیر نہیں
ہلتا۔کائنات کے ہر چھوٹے بڑے واقعے میں خدا کی مداخلت ہمہ وقت موجود ہے۔ بالفاظ
دیگر خدا ہر لمحے میں ایک نئی کائنات تخلیق کررہا ہے۔
غزالی مزید کہتے ہیں کہ
علت اور معلول کے درمیان کوئی لازمی تعلق سرے موجو دہی نہیں ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ
سیب کو اونچائی سے چھوڑا جائے تو زمین کی طرف گرے۔ یہ ضروری نہیں کہ اگر پانی کو
ابالا جائے تو وہ بھاپ بن جائے۔ یہ تمام نتائج خدا کی منشاء پر منحصر ہیں۔ خدا
چاہے تو نتیجہ سبب کے برعکس اور سبب کے بغیر بھی پیدا ہوسکتا ہے۔غزالی لکھتے ہیں
کہ یہ خدا کے اختیار میں ہے کہ کسی بھوکے کی بھوک کھانا کھائے بغیر مٹ جائے، اور
کسی گردن کٹ جائے او روہ زندہ رہے۔
25جون،2021، بشکریہ: روز نامہ چٹان، سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism