جاوید آنند ( ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام )
15 فروری، 2012
آپ کیا کر تے ہیں جب علماء آپ کو بتاتے ہیں کہ طلاق ثلاثیٰ کا عمل ‘سماجی طور پر سخت نا پسندیدہ ہے، لیکن علم دین کے رو سےصحيح ہے؟ '
بظاہر اس پر امّت کو دیا گیا علماء کا مشورہ غیر معمولی طور پر مناسب لگتا ہے: گھر کی تعمیر کے لئے، آپ ایک آرکیٹکٹ کے پاس جاتے ہیں، اور جب بیمار ہوتے ہیں، تو آپ ایک ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، اچھا دکھنے کے لئے، آپ ایک بیوٹیشیئن کے پاس جاتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ، سیکولر امور میں ماہرین کے پاس جاتے ہیں۔ تو آپ اسلام کے بارے میں علم حاصل کرنے کے لئے کہاں جائیں گے؟ یقینی طور پر مذہبی ماہرین (علماء) کے پاس۔ لیکن آپ کو اس پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔
کچھ ایسی باتیں ہیں جنہیں علماء پیروکاروں کو نہیں سکھاتے ہیں۔ آپ کیا کرتے ہیں جب کسی آرکیٹکٹ کے ذریعہ بنائی گئی حویلی اناً فا ناً میں منہدم ہو جائے؟ آپ اس ڈاکٹر کے ساتھ کیا کریں گے جو مریضوں کو ٹھیک کرنے سے زیادہ کو مار دیتا ہے؟ اور تب کیا کرتے ہیں جب علماء آپ کو بتاتے ہیں کہ طلاق ثلاثیٰ کا عمل ‘سماجی طور پر سخت نا پسندیدہ ہے، لیکن علم دین کے رو سےصحيح ہے؟ 'شاید کہیں اور رجوع کرتے ہوں گے؟
اگر آپ کے پاس وقت ہے اور رغبت بھی ہے تو، بین الاقوامی سطح پر معروف اسلامی سکالر اور صنفی مساوات کی چیمپیئن عزیزہ الحبری سے اسلام سیکھ سکتے ہین اور اس کے لئے وہ ایک اچھی انسان ثابت ہوں گی۔ اگر آپ عالم قسم کے نہیں ہیں، تو ان کے پانچ لفظوں کاسادہ منتر اخلاقی قطب کے طور پر کافی ہونا چاہیے: "اگر کوئی چیز غیر منصفانہ ہے تو یہ غیر اسلامی ہے"۔ لہذا سیدھی سادھی بات یہ ہے کہ : کیونکہ یہ غیر منصفانہ ہے، اس لئے مردوں پر مرکوز معاشرہ کبھی اسلامی نہیں ہو سکتا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لمبی داڑھی والے اور شاندار لمبا لبادہ پہننے والے مرد کیا تبلیغ کرتے ہیں۔
غیر محتاط لمحے میں مولوی صاحب بھی تسلیم کریں گے، کہ اسلام میں کوئ پاپائیت نہیں ہے۔ نبی کریم محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ " علم حاصل کرنا ہر مسلم مرد اور خواتین کا مقدس فریضہ ہے"۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ: "علم حاصل کرو ، یہاں تک کہ اگر آپ کو چین بھی جانا پڑے۔" انہیں ایک ساتھ پڑھنے پر دو باتیں واضح ہیں۔ سب سے پہلے تمام علم مقدس ہے، اسلام علم کے معاملے میں مقدس اور سیکولر کی سرحد کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ دوسرا، علم کا حصول ایک مقدس فریضہ ہے جسےعلماء کو منتقل نہیں کیا جانا چاہیے، اور ایمان بھی ایک اہم بات ہے جسے "ماہرین" پر نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔
شاید امت کو علما؍ کے زریعہ وضاحت کی جانی چاہیے کہ کیوں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کے براہ راست خلاف ورزی میں علم کو خانوں میں تقسیم کرتے ہیں اور خود کو مسلمانوں اور ان کے مقدس صحیفوں کے درمیان میں رکاوٹ، نہ کہ سہولت فراہم کرنے والے کے طور پر رکھتے ہیں۔ وضاحت چاہے جلد دستیاب ہونے والی ہے یا نہیں لیکن ایک بات تو طے ہے: اسلامی تعلیمات پراور ملا لوگوں کی اجارہ داری پر ہندوستان اور پوری مسلم دنیا میں تیزی سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جن لوگوں نے براہ راست اسلام کے منبع تک جانا منتخب کیا ہے انہیں قرآن کے صنفی برابری کے پیغام اور مردوں کی بالادستی کے درمیان بہت بڑی خلیج ھےاور جسے علماء صدیوں سے نا قابل عبور بنانے میں لگے رہے ہیں اور اس کےدریافت ہونے سے وہ ہکا بکا ہوگئے ہیں۔
اس کی ایک اچھی مثال کے طور پر حال ہی اسلامی اسکالراصغر علی انجینئر کے ادارے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اور بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن نے مشترکہ طور پر ‘ مسلم پرسنل لاء کے ترتیب دینے کے عنوان سے دو روزہ 4 اور 5 فروری کو دہلی میں مشاورت منعقد کی۔ مشاورت میں ایک مولانا، دو (مسلم) ججوں (ایک سرونگ، دوسرے ریٹائرڈ)، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسلامی اسکالر، لاء کمیشن آف انڈیا کےدو (مسلم) ارکان، ملک بھر سے آئی خواتین کارکنان کی ایک بڑی تعداداور کچھ صحافی موجود تھے۔ مشاورت کے بارے میں سب سے زیادہ قابل ذکر بات اس کا آزادانہ ماحول تھا جس میں بات چیت اور بحث ہوئی۔ کسی نے دوسرے پر ارتداد / توہین رسالت کی دھمکی نہیں دی۔
امّت کے اجتماعات میںسے اس مشاورت میں ایک غیر معمولی بات یہ تھی کہ زیادہ تر شرکاء پر اعتماد اور سرگرم مسلم خواتین تھیں اور ان میں سے ہر ایک کے پاس کئی ڈراونی کہانیاں تھیں جن میں ان کی بہنون پر اسلام کے نام پر نا انصافیوں اور ذلّت کی داستان تھی اور ان میں اضافہ ہونا ابھی جاری ہے۔ ان میں سے کسی نے بھی الحبری کا نام نہیں سنا ہوگا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ان خواتین نے مولی صاحب کو بے شمار مواقع پر زور دیتے ہوئے سنا ہے کہ اسلام انصاف اور مساوات کامذہب ہے۔ اب، بدقسمتی سے علماء نے اپنے طور پر قرآن کو پڑھا ہے اور جانتے ہیں لیکن انصاف اور مساوات کے بنیادی اسلامی اصول کے منطقی اور مذہبی توسیع کے طور پر صنفی مساوات کس طرح ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ آنے والے سالوں میں مولوی صاحبان کو بہت جواب دینا ہوگا۔ پہلی بو چھار ہو چکی ہے۔ مشاورت میں موجود مسلمان مردوں اور خواتین کے اجتماع نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کھوکھلے دعوے کی ہوا نکال دی کہ ہندوستان میں جو کچھ بھی مسلم پرسنل لاء کے نام پر ہوتا ہے وہ "اللہ کا قانون" ہے۔ اگر کچھ ہے، تویہ ایک نوآبادیاتی وراست ہے جس کا آزادی تک "اینگلو محمڈن لاء" کے طور پر حوالہ دیا جاتا تھا۔
نوآبادیاتی خمار کو ایک طرف رکھ کر جب قرآن، رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور مسلم اکثریت والے معاشروں میںاصالاحات کو حوالہ کے طور پر مدنظر رکھتے ہوئے، مشاورت ہندوستان کے لئے مسلم پرسنل لاء کو ترتیب دینے کے اہم عنصر کے اتفاق پر پہنچا:
زبانی اور فوری طلاق (طلاق ثلاثیٰ) کے قابل نفرت اور یکطرفہ عمل کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔ ازدواجی تنازعہ کی صورت میں طلاق لازمی طور پر مصالحت کی تمام کوششوں کے بعد ہونا چاہیے جیسا کہ قرآن (طلاق احسن) میں ہدایت دی گئی ہے۔ تر تیب دئے جانے والے قانون میں باہمی رضامندی سے طلاق ( مبارھ) کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ طلاق کے بعد شوہر کو بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال کے لئے ایک مناسب رقم ادا کرنی چاہیے۔ بچوں کی تحویل کس کا حق کس کے پاس ہونا چاہئے، اس پر اتفاق کیا گیا کہ "بچوں کا بہترین مفاد" اہم معیار ہونا چاہئے۔ شادی کے لئے لڑکیوں کی کم از کم عمر 18 سال اور لڑکوں کے لئے 21 سال ہونی چاہیے اور سبھی شادیوں کا ریاستی حکام کے یہاں اندراج ہونا چاہیے۔ مہر برائے نام نہیں ہونا چاہئے جیسا کہ مقبول رواج ہے بلکہ دولہے کی ایک سال کی آمدنی کے برابر ہونا چاہیے۔
اگرچہ بہت سے معاملات پر تقریباً اتفاق رائےتھی، لیکن کثرت نکاح کا سوال حل نہیں ہو سکا۔ شرکاء کے جمہور کی رائے تھی کہ قرآنی آیات کو جب ہم عصر حاضرکے تناظر میں پڑھتے ہیں تو اس کا مطلب سختی کے ساتھ ایک نکاح پر عمل ہو سکتاہے۔ تدبیری وجوہات کی بنا پر، دوسرے لوگون نے اس بات کی حمایت کی کہ دوسری شادی کے لئے شرائط کو اس قدر سخت بنا دیا جائے کہ ان پر عمل تقریباً ناممکن ہو۔
قانون کے ترتیب دینے کی مہم کو یقینی طور پر علماء کے درمیان بہت سے لوگوں کی طرف سے انتہائی مزاحمت کی جائے گی۔پدرانہ چنگل سےمسلم خواتین کو آزاد کرانے، اور اسلام کو مردوں کی فوقیت پرستی میں یقین رکھنے والے علماء سے بچانا ہی ایک واحد راستہ ہوگا۔ آگے ایک طویل جنگ ہے لیکن جنگ کی تکرار شروع ہو چکی ہے۔
مصنف مسلم فار سیکولر ڈیمو کریسی کے جنرل سیکرٹری اور کمیونلزم کمبیٹ کےشریک مدیرہیں۔
ماخذ: ایشین ایج
URL for English article:
URL for this article: