جاوید آنند
16نومبر،2019
مسلمانو! آپ یقینا اجودھیا کی متنازع اراضی پر سپریم کورٹ کے فیصلہ سے مایوس ہوں گے کیونکہ کچھ ایسا ہے کہ اس سے لگتا ہے کہ آستھا قانون سے اوپر ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ سیکولر ہندوستان نے آپ کو نیچے رکھا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے بھی سیکولر ہندوستان کو نیچے رکھا ہے۔ ملک اور آپ کے درمیان گیم ہی کچھ ایسا ہے کہ ہمیشہ ہندوتو کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ آپ کے زخموں پر نمک چھڑکنا نہیں، بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ مسلمان بھی کمیونٹی کی حیثیت سے وہی کرتے ہیں۔ وہ سپریم کورٹ پر اراضی کے قانون پر آستھا کو ترجیح دینے کاالزام تو لگارہے ہیں لیکن خود آئین کے خلاف شرعی قانون کی بات کرتے ہیں۔بعض علماء اور سیاسی رہنما اسلام میں تھوڑی سی گنجائش کی بات اس لیے کرتے ہیں کہ کوئی حکمت عملی اختیار کرسکیں یا سیکولر جمہوری سیاست میں اپنے لیے بات چیت کے ذریعہ قابل احترام جگہ پا سکیں۔ اس طرح کی چھوٹ او رسہولت ہمیں باربار کھائی میں دھکیلتی ہے، چاہے سوال مسجد، تین طلاق اور مسلم پرسنل لا ء کا ہو یا آبادی پر کنٹرول کامسئلہ ہو۔
ٹھنڈے دماغ سے سوچئے، کیا ہم 1985میں اس وقت سڑکوں پر نہیں اترے تھے جب سپریم کورٹ نے شاہ بانو کیس میں فیصلہ سنایا تھا؟ کیا ہم نے زبردست احتجاج نہیں کیا تھا؟ اور شرعی قانون کوآئین پر ترجیح دینے پر زور نہیں دیا تھا؟
اس وقت وزیر اعظم راجیو گاندھی کی قیادت والی کانگریس سرکارنے ہتھیار ڈال دیا اور مسلم خواتین (تحفظ حق طلاق) ایکٹ 1986بن گیا۔ عقیدہ سیکولر قانون (دفعہ 125کریمنل پینل کوڈ) سے جیت گیا او ر مسلمان خوش ہوگئے۔سیکولر ذہن کے ہندوستانی ناراض ہوئے اور او رہندوتو تنظیموں نے اس کا فائدہ آگے اٹھایا۔ یہ بحث ہونے لگی کہ اگر مسلمانوں کے مذہبی جذبات مخالف قانون بدل سکتا ہے تو ہندوؤں کے مذہبی جذبات کوبھی دیکھنا ہوگا۔ اسی توازن کے لیے راجیوگاندھی نے اجودھیا میں بابری مسجد کاتالہ کھلوانے کی ترکیب نکالی۔ مسلمانو! جب خطرناک نظیر قائم کریں گے توایسا ہوگا۔ ہم نہ صرف 9نومبر2019کو ہارے، اس سے پہلے 1986میں بھی یہی ہوا تھا۔
جب بابری مسجد۔ رام جنم بھومی کی تحریک شروع ہوئی تو علما ء کے غیر دانشمند انہ طرز عمل کی وجہ سے زمین کے قانون کاتنازع عقیدہ اورآستھا کے درمیان مذہبی لڑائی میں تبدیل ہوگیا اور پورا معاملہ رام اور رحیم کے درمیان جھگڑے کا سبب بن گیا۔ رام بھگتوں کا ’مندرو ہیں بنے گا‘ کانعرہ بالکل ویسا ہی تھا، جیسے مسلم رہنماؤں نے کہا کہ ”ایک بار مسجد جس جگہ بن جاتی ہے وہاں ہمیشہ مسجد ہی رہے گی“۔ اس بات کی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی تائید کی۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈر اسدالدین اویسی نے حال ہی میں اسے دہرایا ”مسجد کا تعلق اللہ سے ہوتا ہے او رکسی مسلم کو حق نہیں کہ اسے تحفہ میں دیدے“ جب کہ اسلامی سعودی عرب میں سڑکوں کو چوڑی یا دیگر عوامی مقاصد کے لیے بڑی تعداد میں مساجد کو منہدم کیا گیا یا منتقل کیا گیا لیکن سیکولر ہندوستان میں اسلام دوسرا ہوجاتا ہے۔
یقینا سنگھ پریوار کا فرقہ وارانہ ایجنڈا تھا کہ ’بابر کی اولاد‘ ہی بھگوان رام کے جنم استھان پر مندر کی تعمیر میں رکاوٹ ہیں۔ 1984میں لوک سبھامیں جس بی جے پی کے صرف دوممبر تھے، اس کا 1989میں 85اور 1991میں 120 سیٹوں تک پہنچنا مسلمانوں کے لیے ایک الارم ہونا چاہئے تھا کہ وہ بیدار ہوجائیں،یکے بعد دیگرے فرقہ وارانہ فسادات جن میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کی جانیں گئیں، قیادت اس حقیقت کو سمجھ نہیں سکی کہ جوحکومت ان کی جانوں کوتحفظ فراہم نہیں کرسکی، وہ مسجد کی حفاظت کیا کرے گی؟
کیا کسی کو بابری مسجد کے انہدام سے ایک دوسال قبل آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کا وہ بیان یاد نہیں ”جس طرح مسجد مسلمانوں کے لئے مقدس ہے، اسی طرح وہ جگہ ہم ہندوؤں کے لیے بھگوان رام کے جنم استھان کی حیثیت سے مقدس ہے، میں مسلم بھائیوں سے کہتا ہوں کہ ہم احترام کے ساتھ بابری مسجد کی ایک ایک اینٹ اٹھائیں گے اور دوسری جگہ مسجد بنادیں گے“۔ لیکن مسلمانوں کا جواب تھا کہ مسجد کا مطلب چار دیواریں نہیں، بلکہ وہ زمین ہے جس پر وہ بنی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ قانون کامسئلہ نہیں، عقیدہ کامسئلہ ہے۔
دسمبر1992میں بابری مسجد کے انہدام سے پانچ ماہ قبل ”سنڈے آبزرور“ ویکلی نیوز پیپر میں شائع ایک آرٹیکل میں مسلمانوں سے کہا گیا تھا کہ کیوں نہ اقلیتی کمیونٹی او رملک کے مفاد میں وہ بابری مسجد کامعاملہ یکطرفہ صدر جمہوریہ یا سپریم کورٹ پر چھوڑ دیں کہ سیکولر ہندوستان کے سب سے بڑے محافظ فیصلہ کریں کہ ملک کے مفاد میں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کیا بہتر ہے۔ اس آرٹیکل میں مسلمانوں کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مذہبی مقامات (اسپیشل پرویژن) ایکٹ 1991مستقبل میں ملک کی تمام دوسری مساجد کو اس طرح کی تحریک سے مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ تمام سیکولر ہندودوستوں نے کہا تھا کہ بابری مسجد صرف مسلمانوں کی زمین نہیں بلکہ سیکولر ہندوستان کی علامت ہے، جسے آپ کسے تحفہ میں دیں گے؟
ہم مسلمانوں نے سخت مو قف کے باعث ہندوؤں کادل جیتنے کا موقع گنوا دیا۔ اگر ایسا کردیتے توہم جارح ہندوؤں کی پیش قدمی کو روک دیتے اور سیکولر قوتوں کو تقویت پہنچاتے۔ اسی کی وجہ سے 3000 مسلمانوں کی جانیں گئیں، نیشنلسٹ ہندوؤں کوفرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کاموقع ملا اور اجودھیا اقتدار کی دہلیز پر پہنچنے کا زینہ بن گیا۔
اب 9نومبر 2019کی بات کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت زیادہ پریشان کن ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ متفقہ ہے، ایک بھی جج نے اس سے ہٹ کر ایک بھی جملہ نہیں کہا۔ ہر کوئی سوچنے لگا کہ آخر فیصلہ کے دن پہلے سنگھ پریوار کو ذرا بھی شبہ نہیں تھا کہ فیصلہ رام مندرکے حق میں آئے گا۔ کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ راتوں رات سنگھ پریوار ”مندر وہیں بنے گا“ کانعرہ چھوڑ کر یہ اپیل کرنے لگا کہ تمام ہندوستانی تہہ دل سے فیصلہ کا خیر مقدم کریں، مزید برآں خود ساختہ سیکولر پارٹیاں فیصلہ کا احترام کرنے میں مطمئن نظر آرہی تھیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم مسلمان سوچیں کہ بعض علما کی جذباتی باتیں ہندو۔ مسلم تنازع او رکشیدگی کو جنم دیتی ہیں۔ جب لڑائی سیکولر ہندوستان اور ہندو راشٹر کے درمیان ہوتو ہم ہندو نیشنلسٹ کو ان کا حقیقی ایجنڈا چھپانے کاموقع فراہم نہ کریں۔
16نومبر،2019 بشکریہ: راشٹریہ سہارا، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/indian-muslims-when-where-they/d/120286
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism