جاوید
آنند (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن ، نیو
ایج اسلام ڈاٹ کام)
نومبر
2005 میں اس وقت پیشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے طارق پرویز خان نے خواتین وکلاء
کو حکم دیا کہ وہ عدالت کے کمرے میں حجاب نہ پہنیں۔حجاب میں آئی وکیل رئیس انجم سے
چیف جسٹس نے کہا ’آپ پروفیشنل ہیں اور ایسا لباس پہننا چاہیے جو ایک وکیل کے لئے ضروری
ہوں‘۔آج یہ فیصلہ کسی اور دور سے تعلق رکھنے والا معلوم پڑتا ہے۔وادئ سوات میں اب لڑکیوں
کے اسکول کو بم سے اڑا کر اس کے وجود کو ختم کر دیا گیا،خواتین کو گھر سے باہر کام
کرنے سے روک دیا گیا اور نائی کی دکان کو زبردستی بند کرا دیاگیا ایسے میں ایک سوال
یہ ہے کہ کیا آنے والے وقت میں پیشاور یا دوسرے علاقوں کی خواتین کو کسی پیشے کیلئ
حجاب یا اس کے بغیر جاری رکھنے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں۔
دریں
اثنا ہماری جانب کے واگھہ سرحد کے ایک جج صاحب نے ڈریس کوڈ کے موضوع پر کچھ کہا ہے
جس پر پورے ملک کی مسلم تنظیمیوں نے آستینں چڑھا لی ہیں۔بھوپال کے نرملا کانونٹ ہائر
سکنڈری اسکول کے ایک طالب علم محمد سلیم نے ادارے کے ڈریس کوڈ کے خلاف سپریم کورٹ میں
داڑھی رکھنے کے اپنے آئینی حق کی توثیق کے لئے عرضی دی ۔عرضی کو مکمل طور پر مسترد
کر دیا گیا۔جس نے جذبات کو بھڑکا دیا وہ جسٹس مرکنڈے کاٹجو کا بیان تھا: ’ہم ملک میں
طالبان نہیں چاہتے ہیں، کل ایک لڑکی آ سکتی ہے اور وہ کہے گی وہ برقع پہننا چاہتی ہے،کیا
ہم اس کی اجازت دے سکتے ہیں؟‘
لمبے
وقت سے’ط‘ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک گندہ لفظ بن گیا ہے اور سپریم کورٹ کا داڑھی
رکھنے کو طالبانی ایجنڈہ کے مترادف بتانا تکلیف دہ ہے۔جسٹس کاٹجو کے بیان کوچونکانے
والا اور بد قسمتی کی بات کہاگیا۔ بجا طور پر یہ خدشہ کی ان کے بیان کاا ستعمال اب
ہندوتوا نظرئیے کے حامی مسلمان اور اسلام کو برا کہنے میں کریں گے۔جمیعتہ سمیت کئی
مسلم تنظیموں نے ڈویژن بنچ کے حکم پر نظر ثانی کے لئے عرضی داخل کرنے کا اعلان کیا
ہے۔
مسلمانوں
کا’ط‘ لفظ کے استعمال پر ناراضگی سمجھ میں آتی ہے لیکن مظاہرہ کر رہی تنظیموں کا عدالت
کے حکم اور اس کے سیاق و ثباق(ایک اسکول کے ڈریس کوڈ) سے انکار یا سمجھنے سے قاصررہنا
سمجھ میں نہیں آتا ہے ۔فیصلہ مسلمان یا کسی کے حقوق ،کسی کے داڑھی رکھنے یا برقع پہننے
کے بارے میں کچھ نہیں کہتا ہے۔ اس کے باوجود ہم جسٹس کاٹجو کے طالبان کے حوالے دینے
پر ان کی سمجھ پر غور نہیں کرتے ہیں،کیا ہمیں اس کے ساتھ ہی کئی اور سوالات بھی نہیں
پوچھنے چاہےۂ: نوجوان مسلمانوں کے دماغ میں یہ بات کون ڈال رہا ہے کہ مرد کے لئے داڑھی
اور عورت کے لئے سر سے لے کر پاؤں تک برقع کے بغیر مذہب کچھ بھی نہیں؟ سلیم کی جانب
سے عدالت میں بطور وکیل پیش ہونے والے بغیر داڑھی والے سابق جج بی اے خان کی اخلاقی
اور دانشورانہ سالمیت کے بارے میں کیا کہنا، جنہوں نے عدالت میں دلیل دی کہ ’داڑھی
اسلام کا ناگزیر حصہ ‘ہے؟
یہ صرف
سلیم کا معاملہ نہیں ہے۔مہاراشٹر کے ایک انسپکٹر نے بھی اپنے مذہبی فریضے کے حصے کے
طور پر داڑھی رکھنے کی اجازت مانگی تھی اور اسی طرح فوج کے ایک جوان کی بھی عرضی سپریم
کورٹ میں زیرالتوا ہے۔مسلم حلقوں میں بھی یہ بات بار بار ہوتی ہے کہ نوکری حاصل کرنے
یا کام کی جگہ پر برقع پہننے والی خاتون کو دشواریاں پیش آتی ہیں۔اور دلیل یہ دی جاتی
ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے: اگر ایک سکھ کو اس کے مذہبی عقیدے
کے مطابق پگڑی باندھنے اور دوسری چیزوں کی اجازت دی جا سکتی ہے تو پھر ایک مسلمان کو
داڑھی رکھنے یا برقع پہننے کے اسی طرح کے حق سے کیوں انکار کرنا چاہیے؟اس طرح یہ تو
طے ہے کہ مجوزہ نظر ثانی کی عرضی نہ صر ف طالبان والے بیان پر احتجاج کرے گی بلکہ مذہبی
فریضہ کے نام پرمسلمانوں کے آئینی حق کی بات کرے گی۔لیکن یہ دلائل بے معنی ہیں۔داڑھی
اور برقع’ملا کے اسلام ‘ کے تحت لازمی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی بھی ملاّ آسانی سے
اس بات کو قبول کرے گا کہ اسلام میں پروہت کی کوئی شرط نہیں ہے۔
مسلمانوں
کے لئے ڈریس کوڈ
سوڈان
کے سخت گیر مذہبی اور سیاسی رہنما حسن عبد اللہ الترابی نے دنیا بھر میں کٹر اسلامی
تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ڈریس کوڈ کے معاملے میں قرآن کا رخ بہت واضح ہے،ترابی
کہتے ہیں’نبی کریم ﷺ کے زوجہ مطہرات کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے جسم کو چہرے اور
ہاتھوں سمیت اس طرح کپڑے سے چھپائیں کی کسی دوسرے مرد کو کئی حصہ نظر نہ آئے، تاہم
باقی تمام دوسری خواتین کواس طرح کی بندشوں سے مستشنیٰ رکھا گیا۔‘جب ایک عورت سے سلام
کریں اور فطرتی طور پر اس سے ہاتھ ملائیں تو شاید اس کی اجازت ہوگی،خاص طور سے ایک
پاکیزہ ماحول میں جب یہ روایتی عمل ہو۔بے شک الگ تھلگ رکھنے اور تنہائی سے ایک عورت
کی فتنہ سے حفاظت ہوتی ہے لیکن اس سے مسلمانوں کی طبقاتی زندگی کے فوائد سے وہ محروم
رہ جاتی ہیں۔یہ علم اور اچھے کام اور آپسی مشاورت میں مدد کے سماجی عمل میں شامل ہونے
کے ان کے جائز کردار سے انکار اور ترک کرتا ہے۔
ایسا
کہنے والے ترابی اکیلے نہیں ہیں۔اپنی کتاب’حجاب کی حقیقت اور احادیث کی معتبریت‘میں
عظیم مصری قانون داں جسٹس محمد سعید الاشماوی نے بھی اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ حجاب
صرف پیغمبر محمدﷺ کی بیویوں کے لئے واجب تھا۔مصر کے معروف شیخ جمال البانا(جو اب
86سال کے ہیں)اور مسلم بردرہڈ کے بانی حسن البانی کے بھائی،کہتے ہیں۔’اسلام عورتوں
پر حجاب مسلط نہیں کرتا ہے بلکہ علم قانون نے حجاب کو مسلط کیا ہے۔‘
برقع
کے واجب ہونے کی جو حقیقت ہے وہ صحیح ہے اور اسی طرح داڑھی کے معاملے میں بھی درست
ہے۔گوگل سرچ پر مرکزی دھارے کی ویب سائٹوں پر ’داڑھی اسلام کا ناگزیر حصہ ہے‘ پر مختلف
آراء ملتی ہیں اور اس کی تلاش کے لئے آدھا گھنٹہ کافی ہے ۔
اگلی
بار جب برقع یا داڑھی پر ایک مسلمان بہت زیادہ جذباتی ہو تو ان سے ضرور پوچھیں کی پیغمبر
ﷺ کی بنیادی تعلیمات کا کیا ہوا،’علم (اسلام میں تمام علوم مقدس ہیں)حاصل کرنا تمام
مرد و خواتین کامذہبی فریضہ ہے،ایک عالم کی سیاہی ایک شہید کے خون سے زیادہ افضل ہے،
علم حاصل کرو چاہے اس کے لئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔‘
کیا
اسلام کے خود ساختہ محافظ ایمان داری سے پیغمبر ﷺ کے اس پیغام کو پھیلاتے ہیں یا اس
کے بدلے میں گئے گزری ثقافت اور پدرانہ نظام کو اسلام بتاتے ہیں۔ مسلم خواتین کو آج
اپنے علم میں اضافہ کرنے پر زور دینا ہوگا اور نوجوان سلیم کو اپنی فہم کو بڑھانے پر
اپنی توجہہ مرکوز کرنی چاہیے بجائے اس کے کہ قوم کا وقت،پیسہ اور جذبات کو محض ہلکی
پرہیزگاری کے مظاہرے میں برباد کیاجائے۔
بشکریہ۔انڈین
ایکسپریس
جاوید
آنند کمیونلزم کمبیٹ کے شریک مدیر ہیں اور مسلم فار سیکولر ڈیموکریسی کے جنرل سکریٹری
ہیں۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/ijtihad,-rethinking-islam/forget-the-beard-and-burqa--focus-on-essential-teachings-of-islam--/d/1304
URL: