جان عالم خاکی
19 جولائی 20013
(انگریزی سےترجمہ ، نیو ایج اسلام )
نبی ابراہیم(علیہ السلام ) یہودیت، عیسائیت اور اسلام تینوں توحیدی مذاہب کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل نبی ہے۔
قرآن ان کی مثال کو "مثالی" (60:6) کے طور پر بیان کرتا ہے۔ کعبہ کی تعمیر، نمرود کے ذریعہ آگ میں ڈالے جانے اور اس سے بچائے جانے جیسے بہت سارے تاریخی واقعات اور معمولات ان سے منسوب ہیں ۔ اس مضمون میں کائنات اور اپنے رب کے بارے میں بار بار سوال کرنے کی ابراہیمی 'روایت' پر بحث کی جائے گی۔
قرآن ابراہیم علیہ السلام کی شبیہ ایک ایسے نبی کے طور پر پیش کرتا ہےجو مسلسل زندگی اور موت سے متعلق علم کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ ہم قرآن مجید سے دوایسی کلیدی مثالیں لیتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہو گا کہ وہ عظیم نبی خالق اور مخلوق کے بارے میں بنیادی سوالات کے مختلف جوابات کس طرح تلاش کرتے تھے ۔
پہلی مثال کائنات اور اس کے خالق کی تلاش میں چونکادینے والے سوالات کا ان کا تجربہ ہے۔
قرآن فرماتا ہے‘‘(یعنی) جب رات نے ان کو (پردہٴ تاریکی سے) ڈھانپ لیا (تو آسمان میں) ایک ستارا نظر پڑا۔ کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔ جب وہ غائب ہوگیا تو کہنے لگے کہ مجھے غائب ہوجانے والے پسند نہیں ۔پھر جب چاند کو دیکھا کہ چمک رہا ہے تو کہنے لگے یہ میرا پروردگار ہے۔ لیکن جب وہ بھی چھپ گیا تو بول اٹھے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا رستہ نہیں دکھائے گا تو میں ان لوگوں میں ہوجاؤں گا جو بھٹک رہے ہیں ۔ پھر جب سورج کو دیکھا کہ جگمگا رہا ہے تو کہنے لگے میرا پروردگار یہ ہے یہ سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہنے لگے لوگو! جن چیزوں کو تم (خدا کا) شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں’’ (6:76-78) ۔
دوسری مثال براہ راست ان کا خدا سے یہ سوال کرنا ہے کہ ائے رب میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تو کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے ۔ " اور جب ابراہیم نے (خدا سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ خدا نے فرمایا کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔ ۔ (2:260)'۔
ان قرآنی آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ابراہیم اس وقت تک سوال کرتے ہی رہتے جب تک کہ انہیں جواب نہیں مل جا تا ۔ کبھی کبھی وہ نتائج اخذ کرنے کے لئے خود استدلالی منطق استعمال کیا کرتے تھے (جیسا کہ انہوں نے آسمانی اجسام کے معاملے میں کیا) اور کبھی کبھی وہ جوابات کے لئے اپنے (رب) سے استدعا کیا کرتے تھے ۔
ان آیات میں سب سے دلچسپ بات غور کرنے کی یہ ہے کہ خدا نے کسی بھی مقام پر سوالات پوچھے جانے پر کبھی بھی غصہ کا اظہار نہیں کیا۔ سوالات سے پریشان ہونا ایک انسانی مسئلہ ہو سکتا ہے خدا کا نہیں ۔ در اصل خدا یہ چاہتا ہے کہ انسان سوالات پوچھیں اور اس کی مخلوق کے بارے میں مزید جانیں ۔
وہ اس کا بدلہ دیتا ہے جیسا کہ جیسا کہ دوبارہ اس کا مشاہدہ ابراہیم کے بارے میں اس آیت کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے۔ " اور ہم اس طرح ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے تاکہ وہ خوب یقین کرنے والوں میں ہوجائیں " (6:75)۔
آیت واضح طور پر یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کی مہربانی ان پر نبوی کام کے لئے انعام کے طور نہیں تھی بلکہ ان کے دل کو اطمینان بخشنے کے لئے تھی تا کہ "تیقن حاصل " ہو سکے ۔
سخت 'مذہبی' خاندانوں اور سکولوں میں سوالات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ سوال پوچھنا ان کی گمراہی کا سبب نہ بن جائے ۔ اگر خود کے بارے میں ، اپنے ارد گرد کی کائنات کے بارے میں، آسمانوں اور خالق کے بارے میں سوال پوچھنے کی اجازت نہ ہو ، توکس طرح ایک متجسس دماغ سوال کئے بغیر سب کچھ 'قبول' کر سکتا ہے ؟
قرآن کو کیوں خدا کی مخلوق کے بارے میں 'غور و فکر ' کرنے ، اور ‘سوچنے ’ کا مطالبہ کرنا چاہئے ؟ کیا غور و فکر حقیقی اور ایماندار سوال کے بغیر ممکن ہے؟ کیا علم کی تخلیق اچھے سوال کے بغیر ممکن ہے؟ خلاصہ یہ ہے کہ افہام و تفہیم کے بغیر صرف خوف کی وجہ سے قبول کئے گئے ایمان کی قدر و قیمت کیا ہے؟
اندھی تقلید کی مسلم روایت پر نا لاں علامہ اقبال نے بجا طور پر کہا، "اگر اندھی تقلید کوئی اچھی بات ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ ووسلم اپنے آبا و اجداد کی پیروی کرتے ۔" (کلیات اقبال)
جب نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے لوگوں سے ان کی پیروی کرنے کو کہا تو وہ یہ کہا کرتے تھے......جس طریق پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے وہی ہمیں کافی ہے......."(5:104)، یہ آیت واضح طور پر ان کے روایت پرستی کے رویہ کا حوالہ دے رہی ہے ۔
اگر کوئی سوالات کے ساتھ نمٹنے کے قرآنی طریقہ کار پر نظر ڈالے تو وہ یہ محسوس کرنے میں ناکام نہیں ہوگا قرآن مصروف کن اور معقول طریقہ کو اپنا تا ہے۔ پوچھا گیا کوئی بھی سوال کبھی مسترد نہیں کیا گیا ہے ۔ خدا مردوں اور عورتوں کے حوالے سے'ذاتی' سوالات کا بھی جواب دیتا ہے (مثال کے طور 2:222) ۔
قرآن مجید سوالات کے جواب دینے سے کبھی دامن نہیں چھڑاتا ۔ اگر آج اسکولوں/مدرسوں میں ہمارے اساتذہ سے وہ سوالات پوچھے جائیں جو نبیوں اور خدا سے پوچھے گئے تھے اس طرح کے 'ممنوع' سوال پوچھنے پر ڈانٹا جائے گا ۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے سوالات کے تئیں اس کے علاوہ ایک مختلف رویہ اپنا لیا ہے جس کی نبی صلی اللہ علیہ اور خود خدا کے ذریعہ حوصلہ افزائی کی گئی تھی ؟
آج اسکولوں سے یونیورسٹیوں تک اچھے تعلیمی اداروں میں تنقیدی سوچ کی مہارت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ کیا ہمارے بچوں/نوجوانوں کو سوالات پوچھنے سے روکنا چاہئے؟ جب لوگوں کو سوالات پوچھنے سے روکا جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ کم از کم چار نتائج برآمد ہوتے ہیں : (سوال چھپا کر ) نفاق کا جنم ؛ وحشت (مذہب سے، کیونکہ اس سے کوئی حقیقی رابطہ نہیں ہے )؛ مذہب اور عقل کے درمیان تنازعہ، اور آخر کار، اندھی تقلید ۔
کیاایک ایسا مذہب ان نتائج کا حامل ہے جو ہمیں 'پڑھنے'، ‘سوچنے’ اور 'غور و فکر' کرنے کا حکم دیتا ہے عملی طور پر آسمان سے زمین تک ہر اس چیز پر جو انسان کی رہنمائی کا ایک اٹوٹ حصہ ہیں؟
دانشمند ، ذمہ دار، تعمیری اور قابل غور و فکر سوال انسانی دماغ اور روح کو زر خیز بناتا ہے ۔ سوالات کا تجسس منزل نہیں بلکہ ایک سفر ہے۔
جیسا کہ خدا کی مخلوق لا محدود ہے، لہٰذا سیکھنا اور ابراہیمی روایت کی پیروی کرنا ہمارے سولات کی جستجو ہونی چاہئے۔ ہمیں نئے علم کی تخلیق اور ہمارے ارد گرد انوکھی مخلوق کے بارے میں بصیرت پیدا کرنے کے لئے متجسس دماغوں کو فروغ دینا چاہئے، اور اس طرح فکر اور سوچھنے کے خدا کے حکم کی تعمیل کرنی چاہئے۔
جان عالم خاکی پاکستان کی ایک پرائیوٹ یونیورسٹی میں تاریخ اور مسلم معاشروں کی ثقافت پڑھاتے ہیں ۔
ماخذ:
http://dawn.com/news/1030179/the-quest-for-questions
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/the-quest-questions/d/12667
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-quest-questions-/d/12997