جیسن ابراہم، نیو ایج اسلام
02 جون 2014
میں اپنی پوری زندگی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بے شمار منفی احساسات اور جذبات کا شکار رہا (کیونکہ میری ذہنی تربیت اسی طرز پر کی گئی تھی)۔ اگرچہ یہ ایک ایسا مذہب ہے جس کا آغاز عیسائیت کی ہی طرح مشرق وسطی سے ہوا تھا لیکن صدیوں سے مختلف لوگ اس کی غلط ترجمانی کر رہے ہیں اور اس کا غلط استعمال بھی کر رہے ہیں۔ اور میں ان میں سے ایک تھا جس نے اسلام کا صحیح طریقے سے مطالعہ کئے بغیر ہی اس کے تعلق سے غلط رائے قائم کر لی تھی۔
اسلام کے تئیں میرے ان منفی تصورات کی چند بنیادی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ یہ دقیانوسی تصور ہے کہ "اسلام تشدد کو فروغ دیتا اور مسلمان دہشت گردی کو اپنا ہتھیار بناتے ہیں اور جہاد کو اللہ کے لئے مرنے اور مارنے کے لئے ایک مقدس جنگ سمجھتے ہیں"۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ اسلام میں مختلف طریقوں سے تشدد کا استعمال ہر چیز کو بہ جبر و اکراہ اسلامی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ لوگوں کو زبردستی اسلام قبول بھی کروایا جاتا ہے۔ اگر آپ القاعدہ، لشکر طیبہ، طالبان اور بوکو حرام جیسے اہم متشدد گروپوں پر بھی نظر ڈالیں تو یہ تمام گروپ بھی اسلام کا ہی دعویٰ کرتے ہیں۔ اور افضل گرو، اجمل عامر قصاب، حافظ سعید اور اسامہ بن لادن جیسے لوگوں ایسی اہم مسلم شخصیات ہیں جو اپنے کٹر متشدد رویے کے لئے جانی جاتی ہیں اور بڑے پیمانے پر معصوم لوگوں کے قتل عام کے پیچھے انہیں لوگوں کا ہاتھ رہا ہے۔
اور بہت سے دیگر بے بنیاد غلط فہمیوں نے میرے اندار اسلام کے تئیں بہت زیادہ منفی تصورات کو جنم دیا۔ مثال کے طور پر، تعلیم نسواں کی تو بات ہی چھوڑ دیں اسلام میں صنفی مساوات کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے، لہٰذا اسلام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ اسلام کے تئیں یہ چند بنیادی غلط فہمیاں تھیں جن کا شکار میں تھا۔
شلونگ میں ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقد کیے جانے والے ایک سمر کورس میں اسلام اور بین المذاہب تعلقات کا مطالعہ کرنے کے بعد اسلام کے حقائق سے با خبر ہونے پر عیسائی ہونے کے باوجود مجھے افسانوں سے حقیقت کو الگ کرنے میں مدد ملی۔ اسلام کے تئیں میرے نزدیک جو منفی تصورات تھے وہ اسلامی تعلیمات کی غلط تشریحات اور تعبیرات کا نتیجہ تھے۔ اسلام کا ماخذ اور مادہ ہی لفظ "سلام" ہے جس کا مطلب امن و سکون ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے لفظ "جہاد" کا غلط استعمال کیا اور اس کا غلط فائدہ اٹھایا ہے۔ دوسرے الفاظ میں "جہاد" ایک قلبی اور روحانی جدوجہد کا نام ہے۔ اس لیے کہ قرآن مہربانی، رحمدلی اور محبت کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو اپنی حیات مبارکہ میں قیام امن اور رواداری کی بہت ساری مثالیں پیش کی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اہل کتاب (یہودیوں اور عیسائیوں) کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کرتے تھے لیکن کیا واقعی آج اس پر عمل ہو رہا ہے؟ نہیں! ایسا بہت کم ہے۔
قرآن صنفی مساوات کا پیغام دیتا ہے، قرآن مجید کا فرمان ہے "اور جو نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہوگا تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کی تل برابر بھی حق تلفی نہ کی جائے گی۔ "(4:124)۔
رواداری، باہمی مفاہمت اور اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے احترام کی سب سے بہترین مثال پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے آخری خطبہ میں ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ "اے لوگوں یہ بات سچ ہے کہ خواتین کے حوالے سے تمہیں کچھ حقوق حاصل ہیں لیکن تم پر بھی ان کے حقوق ہیں۔ اگر وہ تمہارے حقوق کی پاسداری کرتی ہیں تو ان کا حق ہے کہ تم نیک دلی کے ساتھ انہیں کھانا کھلاؤ اور انہیں اچھے لباس پہناؤ۔ اپنی عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اس لیے کہ وہ تمہاری شریک حیات اور تمہاری مخلص معاون بھی ہیں۔ لیکن کیا واقعی کہیں بھی آج اس پر عمل ہو رہا ہے؟ نہیں! ایسا بہت کم ہے۔
"تمام بنی نوع انسان آدم اور حوا سے ہے نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے؛ نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ ہی نہ کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے بلکہ فضیلت اور بر تری کا معیار صرف تقویٰ ہی ہے۔ " (پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم)
المیہ یہ ہے کہ اسلام کے تئیں ہم جن دقیانوسی تصورات کا شکار ہیں وہ 1400 سال پہلے نازل کی گئی مذہبی نصوص کی لغوی تشریحات کا نتیجہ ہے جو کہ ثقافتی اور تمدنی اعتبار سے وقت اور جگہ کی زنجیر میں مقید ہیں۔ دیگر مذاہب کے لوگوں کے خلاف تشدد کو فروغ دینے کے پس پشت مذہبی نہیں بلکہ سماجی اور سیاسی مفادات کار فرما ہیں۔ لیکن اب بھی اسلامی ممالک میں ظلم و تشدد کا بول بالا ہے اور بہت سے معاشروں میں مذہب کے نام پر خواتین کے ساتھ بدسلوکیاں کی جا رہی ہیں اور انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس طرح اسلام کے پیغام کو پرتشدد، نفرت انگیز اور منفی انداز میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ میں اپنے مسلمان دوستوں سے نیک اور صالح زندگی گزارنے اور دوسروں کو اپنی ہی طرح دیکھنے کی درخواست کرتا ہوں۔
مسٹر جیسن ابراہم کیرل کے ایک پروٹسٹنٹ عیسائی ہیں۔ وہ پونے کے ایک عیسائی ادارہ میں اپنی مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا یہ خاص مضمون نیو ایج اسلام کو پیش کیا ہے۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-pluralism/how-i-came-appreciate-misunderstood/d/87299
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/how-i-came-appreciate-misunderstood/d/98037