جہانشاہ رشیدین
7 جنوری 2014
622 عیسوی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کی مکہ سے مدینہ کو ہجرت کے بعد جب ایک نیا مسلم معاشرہ قیام پذیر ہوا تو تعزیری اور سماجی دونوں شعبوں میں شریعت یا اسلامی قوانین کی تدوین و ترتیب کا کام عمل میں آیا۔ دھیرے دھیرے اسلامی قانون اور معمولات کے متعلق پیچیدہ سوالات کا جواب پیش کرنے کی خاطر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شریعت کی ضرورت اشد ہوتی چلی گئی۔ اور آج درج ذیل مصادر و ماخذ کی مدد سے شریعت کو باضابطہ منظم اور منضبط کر دیا گیا ہے:
سنت (احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم)
قرآن کی بعد کی عبارتیں چند محدود مسائل کا حل پیش کرتی ہیں، مثلاً نماز کس طرح ادا کی جائے، کس طرح کی رزق اور سرگرمیوں سے گریز کیا جائے اور اپنے خاندانی اور امت مسلمہ کے ساتھ تعلقات پر کس طرح غور و فکر کی جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کے نائبین اور خلفاء جنہوں نے نئی نئی زمینیں فتح کیں انہیں نئی ثقافتوں اور مذہبی کمیونیٹیوں کا سامنا کرنا پڑا، لہٰذا مسلمانوں کو ایسے بے شمار مسائل درپیش تھے جن کا سامنا انہوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اور ان مسائل کے حل قرآن یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تحریری شکل میں موجود نہیں تھے اسی لیے مسلم فاتحین کو اپنے ذاتی فیصلے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہوکر ان مسائل کا حل خود ہی پیش کرنا تھا۔ انہوں نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔
اجماع یا اتفاق رائے
اس کے باوجود مدینہ منورہ کے معروف حکام اور بعد میں دوسرے مفتوحہ علاقوں کے حکام نے بدلتے ہوئے حالات میں پیدا ہونے والے مسائل کا قرآن و سنت سے حل پیش کرنے کے عمل کو معیاری بنانے کے لیے راہیں تلاش کیں۔ آہستہ آہستہ انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جن مسائل کا حل قرآن و سنت میں براہ راست نہیں پیش کیا گیا ہےانہیں علاقائی کمیونٹی کے ‘‘اصل معمول’’ یا ‘‘اجماع’’ سے استفادہ کرتے ہوئے حل کیا جا سکتا ہے۔
قیاس
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا کچھ ایسے مسائل بھی سامنے آئے جو کسی بھی طرح کے اجماع کے لیے بالکل نئے تھے اسی لیے علماء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پیدا ہونے والے نئے نئے مسائل کا حل پیش کرنے کے لیے قیاس کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے انہوں نے سخت اصول و ضوابط مرتب کیے تاکہ اس عمل کو ممکنہ حد تک ذاتی رائے سے محفوظ کیا جا سکے۔
چار فقہی مذاہب
مختلف شہروں کے مشہور فقہاء نے شریعت کے چار مصادر (قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس) کے استعمال کے لیے جزوی اختلافات کے ساتھ مختلف اصول و ضوابط مرتب کیے، ان میں سے چند فقہاء نے شریعت کے تیسرے اور چوتھے مصادر کے استعمال میں بہت زیادہ کشادگی کی گنجائش رکھی ہے۔ سنی مسلمانوں کے درمیان چار ‘‘فقہی مذاہب’’ مروج اور مشہور ہیں، جبکہ دوسرے نمایاں شیعی فقہی مذاہب بھی وجود میں آئے جو کہ اسلامی حکومتوں کے فقہی اصول کو شامل ہیں خاص طور پر 1979 سے جو فقہی مذہب ایران میں پایا جاتا ہے۔ http://en.wikipedia.org/wiki/Madhhab
شریعت کے اصول و احکام کو کون متعین کرتا ہے؟
ایک ایسا مسلم ماہر قانون جو کہ اپنے تبحر علمی کی وجہ سے مشہور ہو اور جسے ‘‘مجتہد’’ کا خطاب حاصل ہواور مجتہد اسے کہا جاتا ہے جو کسی دوسرے سے استفادہ کئے بغیر ہی آزادانہ طریقے سے تمام ‘‘فقہی’’ مذاہب پر اچھی طرح سے تفتیش و تحقیق کر سکتا ہو۔ سنی روایت میں پہلی سطح کی مزید جرات مندانہ اسکالر شپ کو غیر ضروری بنا تے ہوئے ‘‘آزادانہ تحقیقی و تفتیش کا دروازہ’’ سال 900 تک بند ہو گیا ہے، اس کلاسیکی نظریہ کے مطابق آخری مجتہدین میں چار بڑے فقہی مذاہب کے بانیان ہی شامل ہیں۔
شیعیت میں شریعت اسلامیہ کا تصور
شیعیت میں سب سے بڑے اور ماہر عالم کو آیت اللہ (جس کا معنیٰ ہے اللہ کی نشانی) کا عظیم بڑا خطاب دیا جاتا ہے، جو کہ سنی اسلام میں ایک عظیم عالم یعنی مفتی اعظم کی طرح ایک عظیم آیت اللہ کے عظیم منصبی ذمہ داری یا شیعی اسلام میں مصدر تقلید کو جاری رکھتا ہے۔ متنازع فیہ مسائل میں یا عصر حاضر میں پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں احکامات صادر کرنا انہیں کے اوپر منحصر ہوتا ہے۔ جب کوئی اخلاقی یا قانونی سوال پیدا ہوتا ہے، مثلاً مصنوعی زندگی کی حمایت کا سوال ہو یا کچھ دوسرے دشوار حیاتیاتی مسائل کی بات ہو تو اس صورت میں علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے متعلقہ مصادر کی تحقیق کریں جن سے اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ ہو سکتا ہے کہ در پیش مسئلہ پر قرآن اور حدیث نے کوئی روشنی ڈالی ہو۔ اگر تحقیق و تفتیش کرنے پر ان علماء کو کوئی ایسی ہلکی سی بھی مثال مل جاتی ہے جو کہ اس نئے پیدا شدہ مسئلہ پر ایک ٹھوس فتویٰ صادر کرنے کے لیےکوئی مضبوط شہادت پیش کرتی ہو تو وہ ان مصادر کا مزید گہرائی کے ساتھ مطالعہ شروع کر دینگے تا کہ یہ پتہ چل سکے کہ مسلم معاشرے میں پائے جانے والے معمولات کے پیچھے کوئی ایک ایسا نقطہ نظر کار فرما ہے جس سے ہو سکتا ہے کہ اس درپیش مسئلہ کا حل پیش کیا جا سکے۔ اور اگر وہ مسئلہ اتنا نیا ہے کہ اس کے متعلق اسلامی تناظر میں کوئی کارآمد تاریخی نظیر نہ مل سکے تو علماء قدیم اسلامی مصادر، معمول اور اس نوپید مسئلہ کے درمیان کوئی ربط تلاش کرتے ہوئے استدلال کا استعمال کر سکتے ہیں۔
فتویٰ
ہو سکتا ہے کہ تمام اسلامی مصادر و ماخذ مصنوعی زندگی کی حمایت کے مسئلے میں خاموش نظر آئیں لیکن ان میں اسلامی اقدار کی نوعیت اور ان مسائل میں مداخلت کرنے کے علماء کے اختیار کے بارے میں بہت کچھ موجود ہے۔ اور اپنی ان تحقیقات کی بنیاد پر علماء ایک قانونی مشورہ پیش کر سکتے ہیں جسے فتویٰ کہا جاتا ہے۔ اپنے اس بیان میں علماء اس بات کی طرف اشارہ کریں گے کہ اس مجوزہ راہ عمل (یا یوں کہیں کہ کسی خاص مسئلہ میں زندگی کی عدم حمایت) کا تعلق حرام، مکروہ،مستحب، واجب یا فرض میں سے کس اخلاقی و قانونی زمرے سے ہے۔ مندجہ ذیل لنک پر کلک کر کے اہانت کے جرم میں ایک مشہور برطانوی مصنف سلمان رشدی کے خلاف اور دوسرے اسلام دشمنوں کے بھی خلاف ان فتاوی کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے جن میں امام خمینی نے ان کے لیے موت کی سزا تجویز کی ہے۔ http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_fatwas
اس معاملے میں سنی اسلام میں یہ عمل پایا جاتا ہے کہ فتویٰ پر عمل کرتے ہوئے کیس میں ملوث فریقین اس کیس کو قاضی کی بارگاہ میں پیش کرنے کا فیصلہ لے سکتے ہیں اور قاضی وہ ہوتا ہے جس نے معاملات میں فیصلہ سنانے کے لیے خود کو ایک ‘‘مفتی اعظم’’ قرار دیا ہو۔ ان تمام تشریحات اور مطالعات کا جو ماحصل ہو تا ہے اسے شریعت کہا جاتا ہےجو کہ ہر جگہ اور ہر مسلمان کے لیے ایک الٰہی نظام حیات ہے۔
شریعت کے پینل کوڈ
تعزیراتی قانون کی بات کی جائے تو موت کی سزا کفر و ارتداد کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے مختص ہے جو کہ مفتوحہ علاقوں کے باشندوں اور غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کرنے کے لیےضروری تھا۔ رہزنی اور غیر شادی دہ جنسی تعلقات کا ارتکاب کرنے والوں کو بھی روایتی طور پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنے، غیر قانونی جنسی تعلقات قائم کرنےپر 100 کوڑے، نشہ آور مشروبات کا استعمال کرنے اور بدکاری کا غلط الزام لگانے پر 80 کوڑے مارنے کی سزا متعین کی گئی ہے۔ کسی شخص کے خلاف سول جرائم، مثلاً قتل یا حملہ کرکے زد و کوب کرنے کی سزا اسلام میں قصاص کے ذریعہ دی جاتی ہے، جس میں مجرم کے ساتھ بالکل وہی معاملہ کیا جاتا ہے جو مجرم نے مظلوم کے ساتھ کیا ہے۔ اس قسم کے سول مقدمات میں صرف مظلوم یا اس کے اولیاء کو ہی مقدمہ چلانے کا حق حاصل ہوتا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں کوئی ایسا جرم نہیں تصور کیا جاتا جو کہ ریاست کے خلاف ہو۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مظلوم قصاص کے بجائے (دیت ‘‘خون بہا’’) کا تقاضہ کرتا ہے، اسلامی حکومت ایران کے قوانین کو دیکھیں۔ طالبان کے زیر تسلط ایران، سوڈان، اور افغانستان میں روایتی سزائیں ان کی اصل شکل میں نافذ کی جاتی ہیں۔
اسلامی حکومتوں کے تحت شریعت
اسلام شریعت کو ایک مکمل نظام حیات قرار دیتا ہے، یہ ایک ایسا جامع نقطہ نظر ہے جو زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتا ہے اور بالآخر ایک اسلامی ریاست میں اس کا مکمل مظاہرہ ہونا چاہئے۔ لہٰذا صرف اسلامی معاشروں میں ہی نہیں بلکہ ان ممالک میں ایک سرکاری مذہب کے طور پر بھی اس سخت گیر شریعت پر عمل کیا جاتا ہے جہاں اسلامی حکومتیں ہیں۔ شریعت کے ایک نمونہ کے طور پر سیاسی اسلام سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مدینہ کا مسلم معاشرہ ہے، جس کی وجہ سے لامحالہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ایسی ہی مطلق العنان سلطنت قائم ہو سکتی ہے، مثال کے طور پر انتہائی پسماندہ اور وحشی طالبان، ایران میں اسلامی حکومت، سوڈان میں البشیر کی اسلامی حکومت میں شریعت نافذ ہے، جہاں ایسے اصول اور زیادہ تر پینل کوڈ کا مصدر و منبع چودہ سو سال پرانا عرب کا قبائیلی معاشرہ ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
ماخذ: http://iranian.com/posts/view/post/26394
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/how-sharia-works/d/35192
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/how-sharia-works-/d/35619