New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 11:05 PM

Urdu Section ( 23 Apr 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Israeli Aggression Against Palestine: Connecting The Dots فلسطین کے خلاف اسرائیلی جارحیت: حالات کا تخمینہ

اسد مرزا، نیو ایج اسلام

20 اپریل 2024

فلسطین میں جاری تنازعہ نے، اقوام متحدہ کی کھوکھلی قرارداد پر، عالم مغرب کے جھوٹے وعدوں، مبہم موقف اور جھوٹی مسرتوں کے تار عنکبوت کو ننگا کر دیا ہے۔

------

(Photo: Opinio Juris)

--------

فلسطین کے خلاف اسرائیلی جارحیت کا یہ ساتواں مہینہ شروع ہو چکا ہے، اور  پوری دنیا ایسے کئی بےہنگم واقعات یا اعلانات کا مشاہدہ کر  چکی ہے، جو مغربی طاقتوں نے فلسطین میں نسل کشی کو روکنے کے لیے کیے تھے۔ اگرچہ پہلی نظر میں، ان میں سے زیادہ تر واقعات بےہنگم معلوم ہوتے ہیں، لیکن قریب سے ان کی تحقیق کی جائے،تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے درمیان ایک نظم ہے،اور تنازعات کو حل کرنے میں وہ واقعات و اعلانات کوئی حتمی کردار ادا کر رہے ہیں یا کر سکتے ہیں۔

آئیے تجزیہ کرنے کی کوشش کریں، اور خود سے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ بےہنگم واقعات کس طرح آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اور موجودہ تنازعہ پر ان کا ایک خاصاں اثر ہے۔

پہلا واقعہ، مارچ کے آخری دن، زمینی سطح پر اسرائیل میں بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف ایک عظیم  احتجاج دیکھا گیا۔ معاملہ یہ ہے کہ ، 30 مارچ کو دسیوں ہزار اسرائیلی، اپنے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف احتجاج کے لیے، تل ابیب اور دیگر مقبوضہ شہروں میں جمع ہوئے۔

پہلی بار ایسا دیکھا گیا کہ، غزہ میں مزاحمت کاروں کے زیر حراست اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ، جو عام طور پر اپنی ریلیاں علیحدہ نکالتے ہیں، حکومت مخالف مظاہرین کے بڑے ہجوم میں شامل ہوئے – جن کی تحریک کا آغاز گزشتہ سال وزیر اعظم کے متنازعہ عدالتی قانون سے ہوا تھا۔ تقریباً چھ ماہ کی جنگ کے بعد، یرغمالیوں کے اہل خانہ حکومت مخالف ریلیوں میں شامل ہو رہے ہیں۔

یروشلم میں بھی مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جہاں 200 کے قریب افراد،مقبوضہ شہر مقدس میں نیتن یاہو کے گھر کے باہر احتجاج کرنے کے لیے، پولیس کی بیریکیڈ توڑ کر آگے بڑھ گئے۔ مقبوضہ سیزریا میں، مظاہرین کو وزیراعظم کی رہائش گاہ کے قریب سڑکیں کاٹتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ دوسرے کئی مقبوضہ شہروں میں بھی، مظاہرے دیکھنے کو ملے، جن میں سڈروٹ، اور اکیوا، اور بیر شیبہ شامل ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ ہے کہ 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے، یہ سب سے بڑے مظاہرے تھے۔

دوم، یہ ایک طرف اسرائیل کے لیے مسلسل امریکی حمایت اور جاری تنازعہ پر، اس کے سفارتی اور سیاسی اقدامات سے متصادم ہے۔ تاریخی طور پر، اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ لیکن غزہ کی صورتحال نے امریکہ کے اندر رائے عامہ میں اختلاف پیدا کر دیا ہے - امریکیوں کا ایک بڑا طبقہ  اب اسرائیلی کارروائیوں اور اس کے لیے امریکہ کی مکمل حمایت، دونوں کے ہی خلاف ہے۔

اگرچہ زمینی سطح پر امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیلی حکومت کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں، لیکن سیاسی سطح پر وہ مسلمانوں اور حتیٰ کہ اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کرنے والے امریکیوں کا بھی اعتماد جیتنے کی بھرپور کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں، جو  صدارتی انتخابات میں ان کے لیے گھاتک ثابت ہو سکتے ہیں۔

تنازعہ سے نمٹنے میں  صدر بائیڈن کے رویہ سے، نامزد ووٹروں میں سے مجموعی طور پر 57  فیصد لوگوں کے ناخوش ہونے  کے باوجود، یہ بات توجہ کے قابل ہےکہ  نوجوان ووٹروں کو  صدر بائیڈن کے رویہ پرسخت اعتراضات ہے۔ The Times/Siena کے ایک حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 29 سے18 سال کی عمر کے 72فیصد ووٹر، فلسطین معاملے میں صدر بائیڈن کے رویے سے ناخوش ہیں۔

سوم، اسی وجہ سے امریکہ کو لگا، کہ اقوام متحدہ میں فوری جنگ بندی کے مطالبے کو رد کرنے کے لیے، اپنا ویٹو استعمال نہ کرنا ہی سیاسی عقلمندی ہے۔ درحقیقت، چند دنوں قبل ہی، خود امریکہ نے ایک قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی تھی، جس میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا  گیا تھا، جسے روس نے ویٹو کر دیا، کیونکہ اس  میں کچھ باتیں ناقابل قبول تھیں۔

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخی طور پر، امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اکثر اپنے ویٹو پاور کا استعمال کر کے، اسرائیل کو بڑی سیاسی مدد فراہم کی ہے ۔ کل 83 معاملات میں، جہاں امریکہ نے اپنا ویٹو پاور استعمال کیا ہے، 42 مرتبہ اس کا استعمال امریکہ نے ان قراردادوں کو روکنے کے لیے کیا ہے،  جو اسرائیل کی مذمت میں پیش کی گئی تھیں۔ 1991 سے لیکر  2011 کے درمیان، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے استعمال کیے  گئے 24 ویٹووں میں سے 15 کا مقصد، خصوصی طور پر  اسرائیل کو مذمت سے بچانا تھا۔ تاہم اس بار امریکہ اور بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کی حمایت نہیں کی اور قرارداد کو پاس ہونے دیا ہے۔

سیاسی طور پر، سابق صدور بل کلنٹن اور براک اوباما کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، بائیڈن نےمسلمانوں کو اپنی مہم میں شامل کرنے کے مقصد سے، نیویارک میں مسلم/عرب امریکی ووٹروں کے لیے فنڈ ریزنگ تقریب کا انعقاد کیا ہے۔ شاید یہ سوچنا کہ حسین اوباما عرب امریکیوں کا دل جیتنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں مظاہرین ان تینوں کے خلاف تھے۔

نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے تناظر میں، عرب امریکیوں کا دل جیتنا انتہائی ضروری ہے۔ صدر جو بائیڈن کے لیے عرب اور مسلم ووٹوں کے ساتھ ساتھ، ڈیموکریٹک پارٹی کے بائیں بازو کے ووٹ بھی اہم ہیں - اور یہ ووٹر اسرائیل پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ مشی گن اور وسکونسن جیسی ریاستیں (جنہیں بائیڈن نے 2020 میں جیتا تھا) میں اچھی خاصی مسلم آبادی ہے، اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ممکنہ طور پر، دوبارہ صدارتی مقابلے میں ، ان ریاستوں کا جیتنا بائیڈن کے لیے ضروری ہوگا۔ نیز، بہت سے عرب ممالک، جن میں سے کچھ امریکہ کے اہم اتحادی بھی ہیں، ان کے درمیان بھی اسرائیل کے اقدامات پر تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔

درحقیقت امریکہ نے اقوام متحدہ میں یہ پوزیشن انتہائی مخصوص صورتحال میں اختیار کی ہے۔ اس کے رہنماؤں نے  امریکہ اسرائیل کے وسیع تر تعلقات پر کافی وقت اور توانائی صرف کی ہیں۔ وہ نیتن یاہو کو ہی پورا اسرائیل نہیں سمجھتے، جن کے موجودہ امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات نمایاں طور پر خراب ہو چکے ہیں۔ اس مہینے کے شروع میں، سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر نے، نیتن یاہو کو امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا تھا، اور اسرائیل میں قبل از وقت انتخابات کرائے جانے کا مطالبہ کیا تھا – یہ موقف  ڈیموکریٹس کا ہے، کہ وہ خود کو حکومت اور ان کے سیاسی فیصلےسے دور کر رہے ہیں، لیکن اسرائیل سے نہیں۔

اس لیے بائیڈن کے امریکی مسلمانوں کے تئیں رویے اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے لیے امریکی حمایت، کو الگ نہیں دیکھا جانا چاہیے، بلکہ یہ اپنے حامیوں اور ناقدین کا دل جیتنے کے لیے بائیڈن کی ایک چال ہے۔ اس کے علاوہ، نوجوان امریکی رائے دہندگان، جو اس جنگ کو غیر ضروری سمجھتے ہیں، اور اس کے لیے بائیڈن اور ڈیموکریٹس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، بائیڈن کو ان کا بھی دل جیتنا ہوگا۔

دریں اثنا، اپریل کے اوائل میں، بائیڈن کے بیان کے چند گھنٹے بعد ہی، واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ بائیڈن حکومت نے حالیہ دنوں میں اسرائیل کے ساتھ اربوں ڈالر مالیت کے اضافی بموں اور جنگی طیاروں کے ڈیل پر دستخط کیے ہیں۔

اس سے امریکہ اسرائیل تعلقات کا اصل چہرہ ظاہر ہوتا ہے۔ جب ہم مختلف اقدامات اور واقعات کی بکھری کڑیو کو جوڑنا شروع  کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو، امریکہ کھلے اور چھپے طور پر اسرائیل کی حمایت کرنا جاری رکھے گا، اور ایسے کسی بھی منصوبے کو ناکام بنائے گا، جن سے خطے میں امن قائم کرنا ممکن ہو۔ مشرق وسطی کا  ابال پر ہونا،  امریکہ کے تجارتی، دفاعی اور سیاسی مقاصد کو پورا کرتا ہے۔

English Article: Israeli Aggression Against Palestine: Connecting The Dots

URL: https://newageislam.com/urdu-section/israeli-aggression-palestine/d/132186

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..