New Age Islam
Thu Apr 17 2025, 08:32 PM

Urdu Section ( 22 Feb 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why Islamists Resist Democracy: A Critical Review of Their Doctrine, Rationale, and Theological Rationales اسلام پسند جمہوریت کی مزاحمت کیوں کرتے ہیں: ان کے نظریے، استدلال اور مذہبی دلائل کا ایک تنقیدی جائزہ

  گریس مبشر، نیو ایج اسلام

 14 فروری 2025

 اہم نکات:

 جمہوریت کی تردید اسلام پسندوں کی جانب سے اسلامی تعلیمات کی ایک سخت اور منتخب تشریح پر مبنی ہے، جس سے اسلام میں نظام حکومت کی اصل شکل مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔

 یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ حاکمیت الٰہ انسانی قانون سازی کی نفی کرتی ہے، اور یہ کہ سیکولرازم اسلام کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے، اور اکثریت کی حکومت اخلاقی بدعنوانی کا باعث بنتی ہے، سید قطب، ابوالاعلیٰ مودودی، اور حسن البنا جیسے مفکرین نے جمہوریت کو ایک غیر اسلامی تصور قرار دیا ہے۔

 امام الماوردی، ابن خلدون اور الجوینی جیسے کلاسیکی علماء نے مانا ہے کہ اسلامی طرز حکمرانی کسی ایک نمونے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا تعین اخلاقی اور معنوی مقاصد سے کیا جاتا ہے۔

 

 تعارف

 اسلامی نظریہ سازوں نے عام طور پر جمہوریت کی پر زور انداز میں پورے جوش و خوش کے ساتھ مخالفت کی ہے۔ جمہوریت، حکومت کی ایک شکل کے طور پر، جو کہ عوامی خودمختاری، انفرادی آزادیوں، اور قانون کی بالادستی پر مبنی ہے، اسلام پسند نظریات کے حامل افراد ہمیشہ اس کی بھرپور مزاحمت کرتے ہیں۔ بہت سے اسلام پسند کہتے ہیں کہ جمہوریت اسلام سے مطابقت نہیں رکھتی، کیونکہ یہ قانون سازی کا اختیار خدائی قانون (شریعت) کے بجائے، انسانوں کے ہاتھ میں دیتی ہے۔ بڑے بڑے اسلامی مفکرین جیسے سید قطب، ابوالاعلیٰ مودودی، اور حسن البنا نے جمہوریت کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا ہے، کہ یہ سیکولرازم، نسبتِ اخلاقیہ (مورل ریلیٹو ازم)، اور اکثریتی نظامِ حکومت کو فروغ دیتی ہے، اور ان سب کو وہ اسلامی نظام حکومت کے منافی سمجھتے ہیں۔ اور اسلام پسند جمہوریت کو کیوں مسترد کرتے ہیں یہ مذہبی، تاریخی اور سیاسی وجوہات پر مبنی ہے۔

 جمہوریت کی تردید اسلام پسندوں کی جانب سے اسلامی تعلیمات کی ایک سخت اور منتخب تشریح پر مبنی ہے، جس سے اسلام میں نظام حکومت کی اصل شکل مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ حاکمیت (حاکمیت الہ) انسانی قانون سازی کی نفی کرتی ہے، اور یہ کہ سیکولرازم اسلام کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے، اور اکثریتی نظام حکومت اخلاقی بدعنوانی کا باعث بنتی ہے، سید قطب، ابوالاعلیٰ مودودی، اور حسن البنا جیسے مفکرین نے جمہوریت کو ایک غیر اسلامی تصور قرار دیا ہے۔ تاہم، جیسا کہ وسیع قرآنی شواہد، تاریخی نظیروں اور علمی تردید کے ذریعے ظاہر ہو چکا ہے، جمہوریت — جب کہ انصاف، مشاورت (شوریٰ) اور عوامی فلاح (مصلحہ) پر مبنی ہو — نہ صرف اسلام سے ہم آہنگ ہے، بلکہ جدید مسلم معاشروں میں اچھی حکومت کے لیے ضروری بھی ہے۔

پوری تاریخ اسلامی میں، طرز حکمرانی نے اسلامی اقدار سے سمجھوتہ کیے بغیر، جمہوری اصولوں مثلا مشاورت، تکثیریت، اور منتخب قیادت کے ساتھ ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے، مختلف شکلوں میں ترقی کی ہے۔ خلافت راشدہ، عباسی حکومت، اور عثمانی قانونی نظام جیسے سبھی سیاسی نظاموں سے اسلام کی فطری لچک واضح ہوتی ہے۔ امام الماوردی، ابن خلدون اور الجوینی جیسے کلاسیکی علماء نے مانا ہے کہ اسلامی طرز حکمرانی کسی ایک نمونے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا تعین اخلاقی اور معنوی مقاصد سے کیا جاتا ہے۔ مزید برآں، شیخ یوسف القرضاوی، ڈاکٹر خالد ابو الفضل، اور ڈاکٹر طارق رمضان جیسے معاصر علماء نے اس بات پر زور دیا ہے، کہ جمہوریت انصاف، احتساب اور انسانی وقار کو یقینی بنانے کے لیے ایک مؤثر طریقہ کار کے طور پر کام کرتی ہے- اور یہ سب کے سب بنیادی اسلامی اقدار ہیں۔

 اسلام پسندوں کے بنیادی نظریات

 جمہوریت کو مکمل طور پر مسترد کرنا، جیسا کہ اسلام پسندوں کا طرہ امتیاز ہے، ایک خالص اسلامی نظام کی طرف نہیں لے جاتا، بلکہ آمریت، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کو فروغ دیتا ہے۔ اسلامی تحریکیں جو جمہوریت کو مسترد کرتی ہیں، اکثر پرتشدد بنیاد پرستی پر منتج ہوتی ہیں، اور سماجی استحکام اور اسلامی اخلاقیات دونوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس علیحدگی پسند نظریے کو اپنانے کے بجائے، مسلم معاشروں کو ایک متوازن، اخلاقی اور جامع طرز حکمرانی قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جو اسلامی اصولوں اور جدید سیاسی حقائق دونوں سے ہم آہنگ ہو۔ آگے بڑھنے کا راستہ جمہوریت کی صریحاً مخالفت کرنا نہیں ہے، بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ نظام حکومت خواہ جمہوری ہو یا کچھ اور، وہ انصاف، مشاورت اور اخلاقی سالمیت کے قرآنی حکم کو زندہ رکھے۔ ایسا کر کے مسلم دنیا نظریاتی سختی سے نکل کر مزید خوشحال اور عدل و انصاف سے پُر مستقبل کی طرف بڑھ سکتی ہے۔

 کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ جمہوریت کو مکمل طور پر اسلامی خلافت سے تبدیل کر دینے کی ضرورت ہے، جب کہ کچھ لوگ ایسے ہائبرڈ ماڈل بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں کچھ جمہوریت سے بھی لیا گیا ہو، اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ سب کچھ اسلامی قانون کے نیچے رہے۔ اس مضمون میں ان وجوہات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے، جن کی وجہ سے اسلام پسند اپنے نظریاتی دلائل، نظریاتی بنیادوں اور تاریخی تناظر کا تجزیہ کرتے ہوئے، جمہوریت کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ ان کے نظریات کو اعتدال پسند اسلامی علما نے کس طرح چیلنج کیا ہے، جو یہ دلیل دیتے ہیں کہ جمہوریت کو اسلامی طرز حکمرانی سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔

1. حاکمیتِ الٰہ کا اسلامی تصور بمقابلہ مروجہ حاکمیت کا تصور

 اسلام پسندوں کی جمہوریت کو مسترد کرنے کی ایک بنیادی وجہ حاکمیتِ الٰہ پر ان کا عقیدہ ہے، یہ ایک ایسا تصور ہے جس میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ حاکمیت (حکم، یا قانون سازی کا حق) صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ سید قطب اور ابوالاعلیٰ مودودی 20 ویں صدی میں اس نظریے کے اصل حامی تھے، جن کی دلیل یہ تھی کہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین حاکمیت الٰہ کی براہ راست خلاف ورزی کرتے ہیں۔

سید قطب اپنی اہم کتاب (معالم فی الطریق) میں کہتے ہیں: "اسی مقام پر جو خدا کے بغیر خواہش سے قانون سازی کرنے والے کو ظالم سمجھتے ہیں؛ انسانوں پر انسانوں کی حکومت بالکل وہی بات ہے جسے اسلام مٹانے کے لیے آیا ہے - جو کہ در حقیقت جاہلیت ہے۔"

 قطب کے نزدیک جمہوریت شرک کی ایک شکل ہے، کیونکہ یہ انسانوں کو خدائی ہدایات سے آزاد ہو کر قانون سازی کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ ان کا استدلال اس عقیدے پر مبنی ہے کہ حقیقی انصاف اور اخلاقیات صرف شریعت سے ہی ممکن ہیں، اور اسے انسانی قوانین سے بدلنے کی کوئی بھی کوشش خدا کی مرضی کے خلاف بغاوت ہے۔

 اسی طرح ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب اسلامی قانون اور آئین میں لکھا ہے:

 کسی کو قانون بنانے کا حق نہیں ہے۔ یہ خالق کا خصوصی اختیار ہے۔ جو بھی نظام حاکمیت کو عوام کے ہاتھ میں دیتا ہے، وہ حاکمیت الٰہ کے خلاف بغاوت ہے۔

 تھیو ڈیموکریسی کے مودودی کے تصور میں جمہوریت کے کچھ عناصر، جیسے شوریٰ کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن پھر بھی اس نظریہ کو مسترد کر دیا گیا ہے کہ اس میں قوانین انسانی اتفاق رائے سے بنائے جا سکتے ہیں۔ اس کے بجائے، اس میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ ہر نظامِ حکومت کو براہ راست قرآن و سنت پر مبنی ہونا چاہیے۔

 اس لحاظ سے جمہوریت بنیادی طور پر ناجائز ہے، کیونکہ یہ حاکمیتِ الٰہ کی مخالفت کرتی ہے۔ اسلام پسندوں کا ماننا ہے کہ وحی الٰہی سے الگ ہو کر انسانوں کا قانون بنانا، مذہبی اور اخلاقی دونوں طور پر غلط ہوگا، کیونکہ اس سے معاشرہ سیکولر اور غیر اخلاقی طور پر بدعنوان ہو جاتا ہے۔

 2. سیکولرازم اور لبرل ازم کا رد

 اسلام پسند جمہوریت کے خلاف بھی بات کرتے ہیں، کیونکہ اس کی پہچان سیکولرازم ہے، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ جان بوجھ کر مذہب کو عوامی زندگی سے ہٹانے کی کوشش ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سیکولر نظامِ حکومت کا مقصد اسلامی اقدار کو پس پشت ڈالنا اور ان کی جگہ مغربی لبرل نظریات قائم کرنا ہے۔

 اخوان المسلمین کے بانی حسن البنا نے عالمِ اسلام کے نام اپنے پیغام میں سیکولرازم کے خطرات سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا:

 "مغربی جمہوریت مسلمانوں کی سرزمین پر سیکولرازم کو مسلط کرنے کا ایک نیا حیلہ ہے۔ یہ مذہب کو زندگی سے الگ کرنے، نظام حکومت کو خدائی ہدایات سے عاری کرنے، اور اسلام کو محض ذاتی اعتقادی نظام تک محدود کرنے کی کوشش ہے۔

 اسلام پسندوں کے لیے سیکولرازم صرف ایک نیا نظریہ ہی نہیں بلکہ اسلامی وجود کے لیے خطرہ بھی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ سیکولر جمہوریت کے قیام کے بعد، صنفی مساوات، آزادی اظہار اور مذہبی تکثیریت کے لبرل نظریات کا پرچار کرکے، اسلامی اقدار کو بتدریج ختم کیا جا رہا ہے۔

سید قطب نے اپنی کتاب فی ظلال القرآن میں سیکولر جمہوریت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا:

 "جمہوریت، جس کا زور اظہارِ رائے اور اظہارِ خیال کی آزادی پر ہوتا ہے، حق کے ساتھ ساتھ باطل کی بھی آمیزش کا پلندہ ہے۔ یہ اسلام کا طریقہ نہیں ہے، کیونکہ اسلام باطل کو ختم کرنے اور خدائی انصاف کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔"

 لہٰذا اسلام پسند، جمہوریت کو نہ صرف اس کے قانون سازی کے ڈھانچے کی وجہ سے مسترد کرتے ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ اسے سیکولرازم اور اخلاقی بدعنوانی کو پھیلانے کا ایک حیلہ مانتے ہیں۔

 3. اکثریتی نظامِ حکومت اور انسانی قانون سازی پر اسلام پسندوں کی تنقید

 جمہوریت کے خلاف اسلام پسندوں کی ایک اور بنیادی دلیل یہ ہے کہ اس میں قوانین کا فیصلہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ جمہوری نظام میں، منتخب نمائندے عوام کی مرضی کے مطابق قوانین بناتے اور ان میں ترمیم کرتے ہیں، جسے اسلام پسند اصل کے اعتبار سے ہی غلط مانتے ہیں۔

 مودودی نے اسلامی طرز زندگی میں لکھا:

 اسلام اکثریتی نظام حکومت کے اصول کو تسلیم نہیں کرتا۔ سچائی کا تعین اعداد سے نہیں ہوتا۔ باطل پر پوری دنیا متفق ہو جائے تب بھی، باطل باطل ہی رہتا ہے۔ صرف خدائی قانون ہی حکومت کی بنیاد ہو سکتا ہے۔

 اسلام پسندوں کے نقطہ نظر سے، جمہوریت میں اس بات کی گنجائش ہوتی ہے، کہ اگر اکثریت کی حمایت حاصل ہو تو غیر اخلاقی یا غیر اسلامی قوانین نافذ کیے جا سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان ناقص ہیں اور اخلاقی حقائق کو عوامی ووٹ کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔

 اسی قول کی تائید سید قطب نے بھی کی ہے جو لکھتے ہیں:

 "عوامی ووٹ سے منظور شدہ قوانین اسلام کے خلاف ہوں گے۔ اس کے ذریعے انسان اللہ کے اس اختیار کو چھیننے کی کوشش کرتا ہے، کہ کیا جائز ہے اور کیا ناجائز۔"

 اسلام پسند جمہوریت کے بنیادی اصول کو مسترد کرتے ہیں، جس کا اصول یہ ہے کہ ریاست کو عوامی رائے کی نمائندگی کرنی چاہیے، کیونکہ وہ اسے بنیادی طور پر قابلِ فساد اور نسبتِ اخلاقیہ کے لیے خدشہ سمجھتے ہیں۔

 4. تکثیریت اور کثیر جماعتی نظام کی مخالفت

 جمہوری نظام کئی سیاسی جماعتوں کے موجود ہونے کی گنجائش رکھتا ہے، جن میں سے ہر ایک مختلف نظریات اور مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔ اسلام پسند اس تکثیری نظام کی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس سے مسلمانوں کے درمیان تقسیم کو فروغ ملتا ہے اور اسلامی ریاست کی وحدت کمزور ہوتی ہے۔

 حسن البنا کی دلیل ہے:

 "سیاسی جماعتوں کا نظریہ اسلام میں ہے ہی نہیں۔ یہ امت مسلمہ کو دھڑوں میں تقسیم کرتا ہے اور تفرقہ کو بڑھاوا دیتا ہے۔ صرف ایک سیاسی اتھارٹی ہونی چاہیے جو کہ قانون الٰہی کے مطابق حکومت کرے۔"

 اسلام پسند ایک مربوط نظام حکومت کو ترجیح دیتے ہیں، جس میں ہر چیز اس بنیاد پر نافذ کی جاتی ہے جو خدا نے قرآن میں نازل کیا ہے۔ یہ نظام اس نظریہ کو پسند نہیں کرتا کہ مسلمانوں کو دیگر سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونے کا حق حاصل ہے، کیونکہ اسے مذہب کو کمزور کرنے والے نظریے سے مقابلہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ جمہوری ریاست کے بجائے اسلامی خلافت کے قیام کی مخالفت کرنے لگے۔

5. جمہوریت کے متبادل کے طور پر اسلامی حکومت کی دعوت

 چونکہ اسلام پسند جمہوریت کو مسترد کرتے ہیں، اس لیے وہ اسلامی قانون اور مذہبی اتھارٹی پر مبنی طرز حکمرانی کا متبادل ماڈل تجویز کرتے ہیں۔ یہ ماڈل مختلف اسلامی تحریکوں کے درمیان مختلف ہوتا ہے، لیکن اس میں عام طور پر درج ذیل خصوصیات شامل ہیں:

 - ایک اعلیٰ مذہبی اتھارٹی جو اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام قوانین شریعت کے مطابق ہوں۔

 - ایک مشاورتی نظام (شوری)، لیکن صرف اسلامی قانون کے زیر سایہ۔

 - ایسی سیکولر جماعتوں اور ایسے فلسفوں پر پابندی جو اسلامی نظام حکومت سے متصادم ہوں۔

- اخلاقی قوانین کا نفاذ، بشمول تقریر، لباس، یا طرز عمل پر کسی ناخوشگوار پابندیوں کے۔

 مودودی کے تھیو ڈیموکریسی کے تصور نے ایک ایسا نظام قائم کرنے کی کوشش کی ہے جہاں منتخب رہنما اسلامی قانون کے پابند ہوں، لیکن اس میں بھی عوامی خودمختاری اور انفرادی آزادیوں جیسے بنیادی جمہوری اصولوں کو مسترد کیا گیا۔

 تاہم سید قطب نے اس سے بھی آگے بڑھ کر سیکولر حکومتوں کے مکمل خاتمے کی وکالت کی اور کہا:

 ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے تمام قسم کے نظام حکومت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، جو انسانی قوانین سے اپنے اختیارات حاصل کرتے ہیں۔ یہ ہر سچے مومن کا فرض ہے۔"

 انقلابی تبدیلی کے اس مطالبے نے القاعدہ اور داعش سمیت بہت سی اسلامی تحریکوں کو ہوا دی، جنہوں نے انتخابی عمل کے بجائے طاقت کے ذریعے اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔

 اسلام پسند بنیادی طور پر جمہوریت کی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں یہ حاکمیت الٰہ سے متصادم ہے، سیکولرازم کو فروغ دیتی ہے، اور انسانوں کو ایسی قانون سازی کی اجازت دیتی ہے جو اسلامی قانون سے متصادم بھی ہو سکتا ہے۔

 سید قطب، ابوالاعلیٰ مودودی، اور حسن البنا جیسے مفکرین نے جمہوریت کو ایک ناجائز مغربی فکر قرار دیکر اسے مسترد کر دیا ہے، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ اسلامی نظام حکومت کی بنیاد صرف شریعت پر ہونی چاہیے۔

 اعتدال پسند علمائے اسلام نے ان کے نظریات کی بھرپور مذمت کی ہے، اور یہ کہا ہے کہ جمہوریت اسلام کے ساتھ اس وقت ہم آہنگ ہو سکتی ہے جب وہ انصاف، مشاورت (شوریٰ) اور اخلاقی طرز حکومت کی حمایت کرے۔

خلاصہ کلام یہ کہ، اسلام پسندوں کے جمہوریت کو مسترد کرنے کی وجہ خالصتاً مذہبی وجوہات کی بناء پر نہیں ہے، بلکہ یہ سیکولر نظریات کے خلاف سیاسی بغاوت کی ایک شکل ہے، جو ان کے اپنے نظریات پر غالب ہیں۔

 -----

English Article: Why Islamists Resist Democracy: A Critical Review of Their Doctrine, Rationale, and Theological Rationales

URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamist-democracy-islamic-governance-justice-hakimiyya-sovereignty/d/134696

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..