New Age Islam
Tue May 13 2025, 10:39 PM

Urdu Section ( 29 Feb 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Update Islamic Jurisprudence Using Traditional Method Of Dialogue مکالمے، مباحثے اور تخلیقی صلاحیتوں کے روایتی طریقوں کا استعمال کر کے اسلامی فقہ کو اپ ڈیٹ کیا جائے

گریس مبشر، نیو ایج اسلام

 1 فروری 2024

 فقہ ہزاروں سال تک شدید داخلی مباحثوں اور اصلاحی سرگرمیوں کا نتیجہ رہی ہے۔ آج فقہ کا استعمال صرف چھوٹے موٹے جھگڑوں اور تفرقہ بازی کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اب آگے بڑھنے کے لیے اسلامی فقہ کی اصلاح کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔ مباحثہ اور مکالمہ اس کی بنیاد ہے۔ اس مضمون میں اسلامی فقہ کی اصلاح میں مباحثے اور مکالمے کے تاریخی کردار کو اجاگر کیا گیا ہے۔

 اہم نکات:

 1. فقہ، علم کی دیگر شاخوں کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور متنوع ہے۔ اس میں وقت، جگہ اور حالات کے مطابق توسیع و تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ تعبیر و تشریح کے حوالے سے فقہ کی یہی خوبی اسے ہمیشہ کے لیے افادیت بخش بنا دیتی ہے۔

 2.  اسلامی فقہ کسی ایک فکر و نظر کی داعی نہیں ہے۔ بلکہ یہ اختلاف رائے سے بھری ہوئی ہے۔ کوئی فقیہ تب بنتا ہے جب وہ مختلف رائے اور اقوال کا جاننے والا ہو۔

 3.   مباحثے اور مکالمے نقطہ نظر کو وسیع کرنے اور انداز فکر میں گہرائی و گیرائی پیدا کرنے میں معاون بنتے ہیں۔ یہی بات فقہ کے میدان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس طرح کے مباحثوں اور مکالموں سے فقہ کی مختلف شاخوں کے درمیان تعلق مضبوط ہوتا ہے، اور عداوت و مخاصمت کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔

 -----

 مکالمہ و مباحثہ کا سہارا لینا انسانی فطرت کا حصہ ہے، اور یہ اصول خود قرآن کے درج ذیل فرمان سے واضح ہے کہ "اور آدمی ہر چیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے" (سورۃ الکہف)۔ مکالمہ و مجادلہ کی طرف یہ فطری رجحان انسان کو مختلف مسائل کی باریک بینی کے ساتھ جانچ پرکھ کرنے کے قابل بناتا ہے، جس سے حق اور باطل کے درمیان مکمل امتیاز پیدا کیا جا سکتا ہے۔ علماء اسلام کے اندر مباحثے اور مکالمے کا یہ رجحان روایتی علما کی تحریروں سے عیاں ہے، جن میں مصنفین اکثر مدعی اور مدعا علیہ دونوں کا کردار ادا کرتے ہیں، اور اپنا نقطہ نظر نکھار سنوار کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ فکری مکالمہ و مباحثہ اسلامی فقہ کا جزو لازم ہے، جو کہ ایک ایسا علمی شعبہ ہے، جو اپنی وسعت فکر اور دقت نظر اور کثیر جہتی سیاق و سباق سے مطابقت رکھنے کے لیے مشہور ہے۔ عصر حاضر کے معاشرے میں قدیم قانون کی پائیدار مطابقت کو، محمود کوریا جیسے قانون دانوں نے اجاگر کیا ہے، جو اسلامی فقہ اور (Butterfly Effect) بٹر فلائی ایفیکٹ اور (Longue Duree) لونگیو ڈوری کے درمیان مماثلتیں ظاہر کرتے ہیں، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ماضی میں چھوٹی سے چھوٹی چوک یا حرکت بھی کس طرح حال میں سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ مزید برآں، فقہ کی تعبیر پذیری، اس کے لیے از سر نو تشریح اور حالات کے مطابق اس کے اطلاق و انطباق کی گنجائش پیدا کرتی ہے، جس کی بدولت فقہ اسلامی، بدلتے ہوئے سماجی طور طریقوں اور نت نئے چیلنجوں کے پیش نظر بھی، اپنی مطابقت اور اہمیت و افادیت برقرار رکھتی ہے۔

 اسلامی فقہ کی یہ متحرک نوعیت، امام نووی کی منہاج جیسی عظیم کتب کی تشریحات سے واضح ہے، جس کی مختلف خطوں اور مختلف زمانوں میں متعدد شروحات لکھی گئی ہیں۔ ان شروحات کے ذریعے اصل کتاب کو سیاق و سباق میں ڈھالا اور اس کے بعض حصوں سے اختلاف رائے کا اظہار کیا جاتا ہے، جن میں اکثر پیش کردہ دلائل کی چھان بین اور جانچ پھٹک کی جاتی ہے۔ اسلامی فقہ کے اندر علمی مباحثوں کا موضوع تنقید رہا ہے، جس میں علماء کی رائے کی نتیجہ خیزی اور اس کے مصدر و ماخذ پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ تاہم، احمد الشمسی جیسے علماء نے ان کتابوں کی اہمیت کا دفاع کیا ہے، اور ان کے تنقیدی تجزیہ اور اسلامی قانونی نظریہ کے فروغ میں اس کے تعاون پر زور دیا ہے۔

 اسلامی فقہ میں اختلاف رائے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، جس میں علماء فقہ پر کامل دسترس حاصل کرنے میں، مختلف تعبیرات و تشریحات کو سمجھنا اہم اور ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس میں اختلاف رائے کا عمل مکمل احتیاط کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے، اور ایک دوسرے کے دلائل کا احترام کیا جاتا ہے، جیسا کہ علماء کے درمیان اختلاف رائے کی ان مثالوں سے واضح ہے، جو ان کی سوانح عمری اور دیگر کتابوں میں موجود ہیں۔ اس قسم کے مباحثے اور مکالمے سے فکر و نظر میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور تنقیدی سوچ میں گہرائی و گیرائی پیدا ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں فقہ اسلامی کے مختلف مکاتب فکر کے درمیان تعلق اور افہام و تفہیم کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔

 تلاش حق اور افہام و تفہیم کے سلسلے میں، فقہ اسلامی کے اندر، مباحثے اور مکالمے اخلاقی قدروں اور احترام کے ساتھ گفتگو کے اصولوں سے مزین ہوتے ہیں۔ علماء دوران مکالمہ عاجزی و انکساری، صبر و تحمل اور اخلاقی دیانت داری کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، اور علمی و فکری مکالمے میں اخلاقیات کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو اجاگر کرتے ہیں۔ فقہ اسلامی کے اندر مکالمے اور مباحثے کے منظم مطالعہ سے، وقت کے ساتھ ساتھ اس کے ارتقاء کا علم ہوتا ہے، جس پر امام خفل اشعشی جیسے علماء نے مکالمے اور مباحثے کا عملی خاکہ پیش کرنے کے لیے، تکنیکی اصطلاحات کے استعمال کی بنیاد رکھی ہے۔ فقہ اسلامی کے اندر مکالمے اور مباحثے کی تاریخ کو الگ الگ مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں سے ہر ایک میں قابل ذکر پیش رفت اور نقطہ نظر کی تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔

 عصر حاضر کے علماء بھی اسلامی فقہ کے اندر مکالموں، طریقوں اور حالات کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں، اور امام شیرازی جیسی تاریخی شخصیات کی میراث اور اسلامی قانون کے ارتقاء پر ان کے مباحثوں کے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ کئی شعبوں پر مشتمل اس تحقیق نے، جس میں تاریخ، فلسفہ اور قانون جیسے شعبے داخل ہیں، اسلامی فکری روایت کی پیچیدگی اور جامعیت کو واضح کر دیا ہے۔ کھلے مکالموں اور علمی مباحثوں کا سہارا لیکر، علماء، مذہبی رہنما اور قوم کے افراد اسلامی قانون کی روایتی تشریحات کا تنقیدی جائزہ لے سکتے ہیں اور ایسی بامعنی اصلاحات کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں جن سے انصاف، مساوات اور ہمدردی کے بنیادی اصولوں کو تقویت حاصل ہو۔

 مباحثے اور اسلامی قانون کا ارتقا: روایت اور ترقی کے درمیان ہم آہنگی کی تلاش

 اسلامی قانون کو بھی، بہت سے دیگر قانونی نظاموں کی طرح، اپنی شاندار تاریخ اور بنیادی اصولوں کو عصری معاشرے کی ابھرتی ہوئی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے جیسے چیلنج کا سامنا ہے۔ مکالمے اور مباحثے نے طویل عرصے سے اس کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس سے علماء اور معاشرے کے متعدد طبقات کو متنوع تشریحات تلاش کرنے اور نئے زاویہ سے غور و فکر کرنے میں مدد ملتی ہے۔

 قرآن خود فکری مکالموں اور مباحثوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اور مباحثوں کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جدید سیاق و سباق کی روشنی میں روایتی تشریحات کا از سر نو جائزہ لینے کے لیے کھلے مباحثوں کا سہارا لینا از حد ضروری ہے۔ صنفی مساوات، انسانی حقوق، اور سماجی انصاف جیسے مسائل، بنیادی اسلامی اقدار پر قائم رہتے ہوئے، ایک محتاط انداز میں فقہ اسلامی کے نفاظ اور اطلاق کا مطالبہ کرتے ہیں۔

 امام شیرازی جیسی شخصیات نے علمی مباحثوں کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ مکالمے اور مباحثے میں ان کی مہارت اور دوسرے مکاتب فکر کے ساتھ تعامل کے ان کے عزم و حوصلے نے، باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دیا اور نقطہ نظر میں وسعت پیدا کیا۔ تاہم احتیاط ضروری ہے۔ اسلامی قانون کی پیچیدگی، ایک ایسی باریک بین اور دور رس نظر کا مطالبہ کرتی ہے، جس میں تاریخی تناظر، متنوع تشریحات اور ممکنہ سماجی و مذہبی اثرات کا لحاظ رکھا گیا ہو۔ صرف مباحثوں کے ذریعے ہی اصلاحات کو نافذ کرنے سے، دیرپا تبدیلیوں کا حصول ممکن نہیں۔

 اس کے بجائے، باوقار مباحثے اور مکالمے، جامعیت، اور مختلف نقطہ ہائے نظر کی حساس تفہیم ضروری ہے۔ اکثر بامعنی اصلاح کے حصول میں، تعبیر و تشریح اور معاشرتی تبدیلیوں میں نامیاتی تبدیلیاں، خالصتاً رسمی اعلانات یا مباحثوں سے، کہیں زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

الغرض، فقہ اسلامی کے اندر مباحثے اور مکالمے، اسلامی قانون کی تعبیر و تشریح اور اطلاق میں، اہم کردار ادا کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے درمیان تبادلہ خیال اور باہمی افہام و تفہیم کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ مکالموں میں جامعیت، متنوع نقطہ ہائے نظر اور اخلاقی طرز عمل کو اپنا کر، علماء اور عوام پیچیدہ مسائل کی شناخت کر سکتے ہیں، اور ایسے اصلاحات کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں جو آج کی معاشرتی ضروریات اور مطالبات کے مطابق ہوں۔ مباحثے اور مکالمے مختلف نقطہ ہائے نظر کو زیر غور لانے کا ایک پلیٹ فارم پیش کرتے ہیں، جبکہ حقیقی اصلاح تعبیرات و تشریحات اور سماجی تبدیلیوں میں نامیاتی تبدیلیوں کے ذریعے ہی پیدا ہوتی ہے، جس کے لیے حساسیت، احتیاط اور مختلف نقطہ ہائے نظر کے حوالے سے احترام و رواداری کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان علمی و فکری مکالموں اور مباحثوں کے ذریعے ہی، فقہ اسلامی، اسلام کی بنیادی اقدار سے جڑے رہتے ہوئے، دور جدید کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتی ہے، اور اپنی مطابقت اور اہمیت و افادیت کا دائرہ وسیع کر سکتی ہے۔

English Article: Update Islamic Jurisprudence: Use Traditional Method Of Dialogue, Debate And Creativity

URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-jurisprudence-traditional-creativity/d/131817

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..