اشتیاق بیگ
29 اکتوبر، 2014
9/11 کے بعد مغرب نے اپنے ممالک کو دہشت گردی سے پاک رکھنے کے لئے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع کی تھی، وہ کئی سال گزرنے کے بعد بھی کامیابی سے اتنی ہمکنار نہ ہوسکی جس کی توقع کی جارہی تھی اور اس کی حالیہ مثال کینیڈا کی پارلیمنٹ پر ہونے والا وہ حملہ ہے جس نے دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ شدت پسندی سے دنیا کا کوئی ملک بھی محفوظ نہیں۔ واضح ہو کہ گزشتہ بدھ کو ایک مسلح شخص کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں قومی یادگار کی حفاظت پر مامور فوجی کو فائرنگ کرکے ہلاک کرنے کے بعد اسلحہ سمیت پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہوگیا تھا، اس سے قبل کہ وہ کینیڈا کے وزیراعظم اسٹیفن ہارپر جو اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھے، تک پہنچتا، پولیس نے بروقت کارروائی کرکے حملہ آور کو ہلاک کردیا لیکن اگر حملہ آور اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوجاتا تو آج حالات بہت مختلف ہوتے۔ دہشت گردی کے مذکورہ واقعہ کے بعد ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ حملہ آور مائیکل زیہاف نے حال ہی میں اسلام قبول کیا تھا جس کا تعلق دولت اسلامیہ (داعش) سے بتایا جارہا ہے اور وہ پارلیمنٹ پر حملے کے بعد شام فرار ہونا چاہتا تھا۔ یاد رہے کہ کینیڈین پارلیمنٹ پر حملے سے کچھ روز قبل پولیس نے مونٹریال میں ایک ایسے شخص کو گولی مارکر ہلاک کردیا تھا جس نے اپنی گاڑی سے دو کینیڈین فوجیوں کو کچل ڈالا تھا جس کے نتیجے میں ایک فوجی ہلاک جبکہ دوسرا شدید زخمی ہوگیا تھا۔ مذکورہ شخص کے بارے میں بھی ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ اس نے بھی حال ہی میں اسلام قبول کیا تھا۔
کینیڈا میں ہونے والے حالیہ واقعات نے عوام اور حکومت کو ہلا کر رکھ دیا جس کے بعد دارالحکومت اوٹاوا کی سیکورٹی ہائی الرٹ اور فوجی اڈوں کو عارضی طور پر بند کردیا گیا جبکہ امریکی سفارتخانہ بند کرکے سفارتی عملے کی نقل و حرکت محدود کردی گئی۔ پارلیمنٹ پر حملے کے بعد کینیڈا کے وزیراعظم جنہوں نے حملے کے وقت الماری میں چھپ کر اپنی جان بچائی تھی، نے ٹیلیویژن پر اپنے خطاب میں کہا کہ کینیڈا ان حملوں سے ہرگز خوفزدہ نہیں ہوگا اور دہشت گردوں کے خلاف جاری کارروائیاں تیز کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور نے کینیڈین پارلیمنٹ پر نہیں بلکہ ہمارے معاشرے، روایت اور آزاد جمہوری ملک پر حملہ کیا ہے جو ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتے بلکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ شدت پسندی کے خلاف جاری جنگ میں ہمارا عزم مزید پختہ ہوگیا ہے۔ دوسری جانب کینیڈا کے وزیر خارجہ جان بیرڈ نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے فون پر گفتگو کے دوران پارلیمنٹ پر حملے کو دولت اسلامیہ کے خلاف امریکہ کی قیادت میں کی جانے والی فضائی کارروائیوں میں کینیڈا کی شمولیت کا ردعمل قرار دیا ہے۔ لاکھوں میل رقبے پر پھیلا کینیڈا جس کی سرحدیں امریکہ سے ملتی ہیں، دنیا کا ایک اہم ملک ہے جس نے مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کی امیگریشن پر لبرل پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ کینیڈا میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد مقیم ہے جنہیں وہاں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے اور وہ کینیڈا کی معیشت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں جبکہ پاکستانی نژاد کینیڈین شہری بھی پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ کینیڈا میں یکے بعد دیگرے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں حملہ آوروں کے نومسلم ہونے کے دعوے نے کینیڈا میں رہائش پذیر مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور انہیں یہ خدشات لاحق ہوگئے ہیں کہ کہیں امریکہ کی طرح کینیڈا میں بھی مسلمانوں کو مذہبی تعصب کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع نہ ہوجائے۔
کینیڈا میں پیش آنے والے حالیہ واقعے میں پاکستانی میڈیا کے لئے بھی پیغام پوشیدہ ہے۔ کینیڈین میڈیا نے واقعہ کی کوریج جس انداز سے کی، وہ انتہائی قابل تحسین اور پاکستان جیسے ملک کے لئے قابل تقلید ہے۔ عام طور پر پاکستانی میڈیا ایسے واقعات میں سنسنی پیدا کرکے عوام میں افراتفری پھیلادیتا ہے اور ایسی غیر مصدقہ خبریں نشر کرتا ہے جن سے مختلف مذاہب اور مکتبہ فکر کے لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں لیکن کینیڈین میڈیا نے واقعہ کے بعد دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف کسی ناپختہ مباحثے سے گریز کیا بلکہ اس معاملے پر انتہائی محتاط رویہ اختیار کئے رکھا۔مغربی ممالک کو آج کل غیر ملکی تارکین وطن کی سوچ میں شدت پسندی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی بڑی وجہ اُن کی ناانصافی پر مبنی پالیسیاں ہیں۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ دہشت گردوں نے کینیڈا کو شاید اس لئے اپنا ہدف بنایا کیونکہ کینیڈا، عراق اور شام میں داعش کے خلاف جاری فضائی بمباری میں امریکہ کا اتحادی ہے لیکن کینیڈا میں ہونے والے واقعات کے بعد امریکی اتحاد میں شامل دیگر ممالک کو بھی دہشت گردی کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔یکے بعد دیگرے پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات کے باعث کینیڈین حکومت اپنے شہریوں کے شدت پسندی کی جانب مائل ہونے پر شدید تشویش کا شکار نظر آتی ہے۔ حالیہ دنوں میں مغربی میڈیا پر ایسی خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ سینکڑوں کینیڈین مسلمان عراق اور شام میں داعش کے ساتھ جہاد میں سرگرم عمل ہیں۔
اکثر اوقات یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ دنیا میں پیش آنے والے دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں مسلمانوں کو ملوث کرکے اور ان واقعات کو بنیاد بناکر مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ شروع کردیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنا نام تبدیل کرکے اسلامی نام رکھتا ہے لیکن کینیڈا میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث دہشت گرد جنہیں مغربی میڈیا مسلمان قرار دے رہا ہے، کے جو نام سامنے آئے ہیں، وہ قطعاً اسلامی نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسلام دشمن قوتیں ان واقعات کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ کینیڈا کی حکومت کو چاہئے کہ وہ دہشت گردی کے ان واقعات کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کرائے اور یہ بھی یقینی بنائے کہ کوئی ان واقعات کو مذہبی رنگ دے کر مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش نہ کرے۔
29 اکتوبر، 2014 بشکریہ ، روز نامہ جنگ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/an-act-terrorism-canadian-parliament/d/99764