ارشاد احمد حقانی
ایک اطلاع کے مطابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ٹی وی اور اسٹیج کے اداکار سہیل احمد کو تحفے میں 30لاکھ کی قیمتی گھڑی دی ہے۔ وزیراعظم کا یہ فیصلہ حیران کن ہے۔ ایک ٹی وی اور اسٹیج کے ادکار کو 30لاکھ کی قیمتی گھڑی تحفے میں دینا قوم کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ وزیر اعظم قوم کے نمائندے ہیں اور ان کے دنوں ان کی کارکردگی کافی اچھی سمجھی جارہی ہے لیکن ہمارے لئے یہ بات باعث حیرت ہے کہ مبینہ اچھی کارکردگی کے حامل وزیر اعظم نے 30لاکھ کی قیمتی گھڑی ایک ٹی وی اداکار کو دے کر غریب عوام کے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔ عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، لوڈ شیڈنگ نے ان کا براحال کررکھا ہے ، مہنگائی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی اور اس پر مشترکہ ادیہ کہ حکومت بجلی کو مزید مہنگائی کرنے کا سوچ رہی ہے اور یہ فیصلہ ایسے حال میں کررہی ہے جب ملک کی صنعتیں بند ہورہی ہیں اور عوام سڑکوں پر آکر ٹائروں ، دکانوں بلکہ خود اپنے آپ کو نذرآتش کررہے ہیں۔ صوبہ سرحد میں دہشت گردی کے خلاف جاری فوجی کارروائی کے نتیجے میں لاکھوں عوام اپنے گھر بارسے محروم ہوچکے ہیں ۔ پوری دنیا سے ان کے لئے امداد آرہی ہے اور ہم ہیں کہ ٹی وی اداکاروں کو تیس تیس لاکھ روپے کی گھڑیاں تحفے میں دے رہے ہیں ۔غضب حدا کا ہمارے حکمرانوں کو سارا ملک سمجھا رہاہے کہ وہ اپنے لچھن درست کریں لیکن وہ ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہورہے ۔ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔
ایک شعر ہے:
غلام دوڑتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
یہی حالت جناب گیلانی کی ہے۔ لیکن افسوس کہ انہیں غلاموں کے دوڑنے پھرنے کی کوئی پرواہ نہیں اور وہ اپنی حالت میں مگن ہیں اور ٹی وی اداکاروں کو 30,30لاکھ کی گھڑیاں پیش کررہے ہیں ۔ آخر اس کا کیا جواز ہے؟ کیا انہیں خوف خدا نہیں ؟ کیا انہیں اللہ اور عوام اور پارلیامنٹ کے سامنے جواب دہی کا احساس نہیں ؟ اگر انہیں احساس ہوتا تو وہ ہرگز اسی حرکت نہ کرتے۔ وہ غریب محنت کش عوام کے منہ پر اس طرح تھپڑ نہ مارتے ۔عوام درد ر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، بھوک اور تنگ نے ان کا برا حال رکھا ہے وزیر اعظم صاحب جوعوام کے نمائندے ہونے کے مدعی ہیں ، ٹی وی اداکار وں کو تحفوں پر تحفے دیئے جارہے ہیں ۔ کیا انہیں ملک کی معاشی صورت حال کا احساس نہیں؟صنعتیں بند ہورہی ہیں، غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کے تمام ذرائع سکڑتے جارہے ہیں ۔ پوری دنیا ایک عظیم اور مہیب مالی بحران کی گرفت میں ہے ایسا بحران جس کی مثال 1930کی کسادبازاری سے دی جارہی ہے ۔ صدر اوباما اس کو سنبھالنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن معلوم نہیں وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ بظاہر کامیابی کے امکانات کچھ ایسے روشن نہیں ہیں لیکن اوباما کی جدوجہد جاری ہے۔ خود میرا بیٹا جو لندن میں مقیم ہے اور ڈاکٹر ہے لیکن اس وقت کا کاروبار پراپرٹی کی خرید وفروخت کا ہے اس بحران کا شدید گرفت میں ہے اور ہمارا سارا خاندان رات دن اس کے لئے دعائیں کررہا ہے۔کچھ قبول کرنے والا ہے ۔قرآن کہتا ہے لا تقنطو امن رحمتہ اللہ ۔ یہی قرآنی دعا ہمارا واحد سہارا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے ۔ ای دیا ازمن وازجملہ جہاں آمین باد ۔لیکن کون حتمی طورپر کہہ سکتا ہے کہ ہماری دعا ئیں قبول ہوگی یا نہیں ۔ مولانا الطاف حسین حالی کہتے ہیں:
پر اس قوم غافل کی غفلت رہی ہے
تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں پر رعونت وہی ہے
ہوئی صبح اور خواب راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں
کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں
نہ ذلت سے نفرت نہ عزت کا ارماں
نہ دوزخ سے ترساں نہ جنت کے خواہاں
لیا عقل ودیں سے نہ کچھ کام انہوں نے
کیا دین برحق کو بدنام انہوں نے
مولانا الطاف حسین حالی نے قوم کا یہ مرثیہ 1879ء میں لکھا تھا جس پر ساری قوم زار وقطار روتی تھی اور خدا سے اپنی حالت بدلنے کی دعا کرتی تھی ۔ لیکن معلوم ہوتا ہے مولانا حالی کی دعا آج تک قبول نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے حکمرانوں کے لچھن آج بھی وہی ہیں جو مرثیہ لکھنے سے پہلے تھے۔ کاش ہم مولانا الطاف حسین حالی کی نصیحت پر عمل کرتے تو آج ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ جناب یوسف رضا گیلانی کے لئے اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں اور خلق خدا کی دعائیں لیں۔ کہتے ہیں صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولانہیں کہتے۔ ہمیں امید ہے کہ وزیر اعظم مولاناالطاف حسین حالی کے مشوروں پر عمل کریں گے۔
کاش ہم چین سے سبق سیکھتے
حکومت کے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا جائے گا کہ اس نے تیسرے بچے کی پیدائش پر ٹیکس عائد کرنے کے سوال پر غور شروع کردیا ہے۔ پاکستان میں آبادی جس رفتار سے بڑھ رہ ہے اگر ہ فیصلہ نہ کیا جاتا تو ہماری مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا ۔ چین نے تو آبادی میں اضافہ روکنے کے لئے ایک خاندان ایک بچہ کی پالیسی اپنائی ہے اور وہاں کے لوگوں نے اسے خوش دلی سے قبول کرلیا ہے۔ میں نے خود چین کے سفر کے دوران لوگوں سے پوچھا کہ حکومت کے فیصلے کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے، انہوں نے کہا یہ فیصلہ بالکل درست ہے اور ہم اس پر عمل کر رہے ہیں۔ چین میں اب حالت یہ ہے کہ بچہ خال خال نظر آتا ہے اور جس مجلس میں نظر آتا ہے مرد وخواتین اس کی طرف بھاگتے ہیں۔ شاید امریتا پریتم نے کہا ہے:
بچے دی اور وست پیاری جس دی بھکی دنیا ساری
ہمیں چین کی اس مثال سے بہت پہلے سبق سیکھ لیناچاہئے تھا لیکن افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے چین سے بہترین تعلقات ہونے کے باوجود اس طرف توجہ نہیں دی۔ بہر کیف اب بھی ہم نے یہ فیصلہ کر کے دوراندیشی کا ثبوت دیا ہے ۔ دیر آید درست آید۔
URL for this article: