New Age Islam
Fri Sep 20 2024, 12:10 PM

Urdu Section ( 27 Jun 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What has Happened to Us ہمیں کیا ہوگیا ہے

عرفان صدیقی

‘‘غلام قادر رہیلہ ’’ بانگ درا کی ایک معروف نظم ہے ۔اقبال کی اس فکر انگیز اور بڑی حد تک لرزہ خیز نظم کا آغازیوں ہوتا ہے۔

رہیلہ کس قدر ،ظالم، جفا جو، کینہ پرور تھا

نکا میں شاہ تیموری کی آنکھیں نوک خنجر سے

دیا اہل حرم کو رقص کا فرماں ستم گر نے

یہ انداز ستم کچھ کم نہ تھا آثار محشر سے

بھلا تعمیل اس فرمان غیرت کش کی ممکن تھی

شہنشا ہی حرم کی نازنینان سمن بر سے

بنایا آہ سامان طرب بے درد نے ان کو

نہاں تھا حسن جن کا چشم مہرو ماہ واختر سے

لرزتے تھے دل نازک ،قدم مجبور جنبش تھے

رواں دریائے خوں شہزادیوں کے دید تر سے

علامہ منظر کشی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ تیموری حرم کی شہزادیوں کو رقص پر مجبور کرنے کے دوران غلام قادر رہیلہ نے کمر بند کھول کر اپنا خنجر ایک طرف رکھ دیا۔ آنکھیں بند کرلیں او ر یہ تاثر دیا جیسے سوگیا ہو۔ خاصی ویراسی حالت میں رہنے کے بعد ..........

پھر اٹھا اور تیمور ی حرم سے یوں لگا کہنے

شکایت چاہئے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے

مرامسند پہ سوجانا بناوٹ تھی تکلیف تھا

کہ غفلت دور ہے شان صف آران لشکر سے

یہ مقصد تھا مرا اس سے کوئی تیمور کی بیٹی

مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے

مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر

حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

حمیت کیا ہے؟ شایہ ای عہد بے ننگ ونام میں کچھ بھی نہیں ۔ دانشور بس یہ کہہ کر ڈانٹ دیتے ہیں کہ تم ایک غریب ، مفلس ،قلاش ،مجبور ،فاقہ زدہ اور بے بس ولاچاری قوم ہو۔ دوسروں کے دست کرم کے بغیر تم اپنی سانسوں کا تسلسل بھی برقرار نہیں رکھ سکتے ۔ سارا سال تم کشکوں لئے دور پار کی بستیوں میں صد ا لگاتے رہتے ہو۔سو اب تمہیں اپنی لغت سے حمیت ،غیرت، خودی اور خودداری جیسے الفاظ نکال دینے چاہئیں ۔امریکہ کرۂ ارض کا تاجدار ہے اور تم اس کےدست بستہ خدمت گزار ۔سودہ تمہارے ساتھ جو بھی سلوک چاہے روار کھے ۔ یہ دانشورانہ دلیل درحقیقت خوئے غلامی کی انتہائی مگر وہ صورت ہے۔ مرض کا وہ درجہ کمال ہے جب عزت نفس دم توڑ جاتی ہے اور جسم کے کسی مفوج عضو کی طرح دل اوردماغ کی حیاسیت بے حمینی وبے غیرتی کو محسوس کرنے سے عاری ہوجاتی ہے۔

بظاہر کوئی نئی بات نہیں ۔ امریکیوں کے ڈرون حملے اب معمولات حیات بن چکے ہیں۔ جب ہماری ہی سرزمین پر واقع کسی اڈے سے اڑان بھرنے کا عزم کرتے ہیں تو کنٹرول ٹاورز کو نیند آجاتی ہے۔ ریڈا ر اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ کہیں کوئی الارم بجتا ہے نہ کسی اسکرین پر کوئی دھبہ رونما ہوتا ہے ۔ ڈرون کو روکنے کے لئے ہمارے دفاعی نظام کے تمام اجزائے ترکیبی غیر موثر ہوجاتی ہیں ۔ کوئی اہلکار کسی دوسرے اہلکار کو ہنگامی سگنل نہیں دیتا کہ ایک غیر ملک کا نامطلوب طیار ہ ہماری فضاؤں میں داخل ہوگیا ہے۔ ڈرون اپنی من پسند راہوں پہ پرواز کرتا کوہساروں ،وادیوں اور سبزہ زاروں کے مناظر سے لطف اندوز ہوتا ، مطلوبہ مقام تک پہنچتا ،میزائل گراتا ،آگ کے شعلوں میں سیاہ دھویں پہ ایک نگاہ ڈالتا اور مسکراتا ہوا اپنے آشیانے کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ جاتے ہوئے بھی دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کا دفاعی نظام اس کے راستے میں حائل نہیں ہوتا ۔

ہم امریکہ کے دست نگر ہیں لیکن کیا دنیا کے لاتعداد ممالک امیر ملکوں اور اداروں کے مقروض نہیں ؟کیا ہم 1998میں بھوک کے ہاتھوں فاقوں مرنے لگے تھے جب نہ صرف امریکہ بلکہ پورے یورپ نے ہمارا مقاطعہ کردیا تھا؟ کیا ہمارے اندر اتنی سکت بھی نہیں کہ گدا گری ترک کریں،اپنے اللوں تللوں قابوں پائیں اور تذلیل کی زندگی گزارنے سے انکار کردیں۔ کیا اس رزق سے موت اچھی نہیں جس نے ہمیں ایک بے حمیت ،بے آبرواور بے حس گروہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ منگل کے روز جنوبی وزیر ستان میں امریکیوں نے کئی ڈرون حملے کئے ۔ تحصیل لدھا کے ایک گاؤں پر ان حملوں میں سو کے لگ بھگ عام شہریوں جاں بحق ہوگئے ۔ زخمیوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ پہلے حملے میں ایک گھر کو نشانہ بنایا گیا جس میں چھ افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے ۔ مقامی لوگوں کو کہنا ہے کہ شہید ہونے والے تمام افراد مقامی لوگ اور عام شہری تھے ۔ لوگوں نے ان کےلئے پھٹے اجزا جمع کئے ۔ سرشام ان کی تدفین سے قبل نماز جنازہ ادا کی جارہی تھی کہ تین امریکی ڈرون ایک بار پھر نمودار ہوئے ۔ نماز جنازہ کے اجتماع پر میزائل برسائے ،جس سے شہر کے لگ بھگ افراد شہید ہوگئے ۔تیسرا حملہ لوگوں کے ایک اکٹھ پر ہوا جسے ‘‘جنگجوؤں کے اجلاس ’’ کا نام دیا گیا۔ تینوں حملوں میں ایک سو افراد کے چیتھڑے اڑدیئے گئے۔ پہلی دفعہ امریکیوں نے نماز جنازہ پڑھنے والوں کو نشانہ بنایا اور بیسیوں افراد کو خون میں نہلا دیا۔ جنازہ بھی ایک نماز ہے جو ایک امام کی اقتدا میں ادا کی جاتی ہے۔ یہ اہل اسلام کا دینی فریضہ ہے۔ نماز جنازہ میں شریک لوگوں پر میزائل برسانا پرانے درجے کی درنگی اور شقاوت ہے۔ اور اس درندگی اس شقادت پر چپ سادھ لینے والوں کے لئے میرے پاس کوئی لفظ نہیں ۔ صدر مملکت خاموش ،وزیر اعظم خاموش ،ایک سو ارکان کی کابینہ خاموش ،چارسو بیالیس ارکان کی پارلیمنٹ خاموش ،مسلح افواج کے قیادت خاموش ۔ چار سو ایک سناٹا ہے جسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ کسی سیاسی جماعت کا کوئی بیان نہیں آیا ، کسی قومی راہنما کی رگ حمیت نہیں پھڑکی ،کسی ٹیلی ویژن چینل نے نماز جنازہ پہ امریکی حملے کو ایشو نہیں بنایا، انسانی حقوق کی کسی تنظیم نے نوحہ نہیں کیا۔ اور سترہ کروڑ عوام رزق روزی کے کولہو میں جتے رہے۔

گزشتہ روز مجھے عافیہ صدیقی کی والدہ کا فون آیا۔جو نہی میرے کان میں یہ جملہ گونجتا ہے ۔ ‘‘میں عصمت صدیقی بول رہی ہوں’’ میرے ہاتھ کپکپانے اور زبان ہکلانے لگتی ہے ۔ میں کچھ سمجھ نہیں پاتا کہ اس حرماں نصیب خاتون سے کیا کہوں ؟ وہ حرف تسلی کہاں سے لاؤں جو اس کے درد کا ورماں بن سکے؟ بتانے لگیں کہ عارفیہ کا کچھ پتہ نہیں چل رہا ۔ اسے ٹیکساس کے نفسیاتی ہسپتال سے کسی اور جگہ منتقل کردیا گیا ہے۔‘‘ماں روئے جارہی تھی اور میرے پاس اس کے آنسوپونچھنے کو کچھ نہ تھا۔ ٹیکساس ،فورٹ ورتھ میں واقع کارلس ویل (CARLSWELL) کی نفسیاتی علاج گلو‘‘ ہارر ہاؤس’’ کے نام سے بھی مشہور ہے جہاں لوگوں کو ہولناک نفسیاتی تجربوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ عافیہ دس ماہ سے یہاں پڑی تھی ۔9جون کو پاکستانی سفیر جناب حسین حقانی نے عافیہ سے کوئی گھنٹہ بھر ملاقات کی ۔ انہوں نے دس منٹ تک عافیہ کی اپنی والدہ سے بات بھی کروائی ۔ یہ حق امریکہ میں سزا یافتہ مجرموں کو بھی حاصل ہے کہ ہفتے میں دودفعہ وہ اپنے عزیزوں سے بات کرسکتے ہیں ۔ عافیہ سال دوسال سے اس حق سے محروم ہے۔ اس ملاقات کے چار دن بعد عافیہ کو یہاں سے نکال کر نیویارک کی ایک بدنام جیل میں ڈال دیا ۔پاکستانی سفیر عافیہ کے وکلا یا امریکہ میں موجود اس کے بھائی کو بھی کچھ نہ بتایا گیا۔ اب ذہبی اور جسمانی طور پر ایک ڈھانچہ بن جینے والی لڑکی ،گوانتانامو جیسے ایک پنجرے میں بند ہے اور ہم کچھ نہیں کر پارہے ۔کیا ہمارے حکمران اپنی غلامانہ خدمات کے عوض ایک پاکستانی بیٹی کی رہائی کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتے ۔آخر امریکہ اس سے کیا چاہتا ہے؟ ہماری حکومت اسے ایک ایشو کیوں نہیں بنارہی ؟ہمارا میڈیا طوفان کیوں نہیں اٹھارہا ؟

نماز جنازہ پہ امریکی حملہ، عافیہ صدیقی ، حرم تیمور کی بیٹیاں ،غلام قادررہیلہ ،سب کچھ گڈ مڈ ہورہا ہے ،حمیت، غیرت ،خودی ،خورداری ،عزت نفس سب انبوہ خس واخاشاک ہوا۔ کہنے کہ سترہ کروڑ ، ایک ایٹمی قوت اور حفظ غیرت کے حوالے سے حشرت ارارض سے بھی حقیر تر، ہمیں کیا ہوگیا ہے؟

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/happened-/d/1502

 

Loading..

Loading..