New Age Islam
Fri Oct 11 2024, 10:58 PM

Urdu Section ( 14 May 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Journey of Meraj معراج کا سفر

 

اقبال شیخ

ایک محترم نے نبئ آخر الزماں حضرت محمدﷺ کے معراج کے سفر پرکچھ استفسار کیا ہے۔ یہ موضوع اس قدر حساس ہے کہ چند جملوں کے حصار میں اس کو سمیٹا نہیں جا سکتا۔بہر حال کوشش کروں کہ بیان مختصر رہے اور بات بھی مکمل ہوکر اپنا فریضۂ ابلاغ ادا کر دے، کہ وقت کی قلت بھی تفصیل اورطوالت اختیار کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ بہر حال کچھ گراہیں آپ کی تفکیر کے حوالے کر دوں گا تاکہ آپ ان کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہو سکیں۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقلِ سلیم کے ساتھ ساتھ اردہ اورعمل کی حیرت انگیزطاقت عطا فرمائی ہے تاکہ تسخیر ِکائنات کی گھمبیر دشواریوں کے عمل سےگزرنے میں اسے آسانیاںمیسر ہو سکیں۔لیکن یہ متاعِ عقل اپنی محدودیت کے سبب اپنی متعین حدود سے تجاوز اختیار نہیں کر سکتی۔ اس کے برعکس اللہ سبحان و تعالیٰ کی قوت ، طاقت، عظمت ، شوکت، رحمت لا محدود ہے۔ایک محدود شے کسی لا محدود کا احاطہ کر ہی نہیں سکتی کہ حدود کی دسترس میں آ جانے کے بعد لا محدویت بے معنی ہوجایا کرتی ہے۔ انبیا ء کرام کوبھیبشر ہونے کے ناطے اپنی حدود سے تجاوز کرنے کی استطاعت نہیں تھی، لہٰذا وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام ملائکہ(میں ملائکہ کو آسمانی یا کائناتی قوتوں سےتعبیر کرتا ہوں، جیسےریڈیو ویوز یا لائٹ ویوز، الیکٹرو میگنیٹک ویوز، ساؤنڈ ویوز، مائکرو ویوز ، وغیرہ ،جو ریموٹ سگنلز کو نشر اور وصول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں)کے ذریعے ہی ان تک پہنچایا۔وحی کے ذریعے پیغام رسانی کے عمل سے ایک عام انسان نابلد ہے، یہ عقدہ ایک عام انسان کی دسترس سے باہر ہے جسے اللہ اور اسکے رسول کے سوا کوئی بھی ذی شعور حل کرنے سے قاصر ہے۔اگر اللہ تعالیٰ کا وجودحدود فراموشی کی قوت سے مبرا ہوتا تو وہ بھی بادشاہوں کی طرح اپنے انبیاء کرا م کو بلا کر صحیفے تھما دیتا، اللہ اللہ ، خیر سلا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی لامحدودیت کے ناطے اس امرکے امکان کا تصور بھی ممکن نہیں۔ صرف پانچ نمازوں (جس کا تصور قرآن میں موجود ہی نہیں)کاحکم یاتحفہ دینے کے لئے اللہ سبحان و تعالیٰ اپنی لامحدودیت کو انسان ، جو اسکی تخلیق ہے، کے ہاتھوں روندنے یا داؤ پر لگانے، بھینٹ چڑھانے کا قصد بھلا کیونکر کر سکتا تھا(نعوذباللہ)۔

(معراج کے معنی "سیڑھی " ہوتے ہیں۔یہ لفظِ تو قرآن میں کہیں آیا ہی نہیں)

اب مسجدِ اقصیٰ کی کہانی کے اسرار و رموز پربھی ایک نظر ڈال لی جائے تو بہتر ہوگا۔ اقصیٰ کے معنی دور دراز کے ہوتے ہیں۔جس جگہ مسجد ِ مذکور کا قیام سیدنا عمر کی خلافت کے بہت بعد عمل میں آیا (نبی صلوٰۃ السلام کے زمانے میں اس مسجد کا وجود بالکل غیر یقینی ہے) اس سے پہلے وہاں بیت المقدس (جو یہودیوں کا ہیکل یا عبادت گاہ تھی )کے کھنڈرات تھے جنہیں رومیوں نے (نبی صلوۃ السلام کی بنوت اور رسالت سےبہت پہلے )مسمار کردیا تھا۔ یہودیوں کی تباہی رومن عیسائیوں کے ہاتھوں سن 70 عیسوی میں ہوئی،جنہوں نےیروشلم پر قبضہ کرکے اس ہیکل کو کھنڈرات میں بدل دیا۔حضرت عمر‏ؓرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی یہ ہیکل نہیں تھا تو پھر نبی صلوٰہ السلام کے زمانے میں اسکا وجود کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔عیسائی ہیکل کے کھنڈرات پر اپنا کوڑا کرکٹ بھی پھینکتے تھے۔حضرت عمر نےاپنے دورِ خلافت میں اسے صاف کروایا ، اسکی صفائی میں وہ خود بھی بہ نفسِ نفیس شامل تھے۔پھر ایک چٹان"صخراء"پر صلوٰۃ بھی ادا فرمائی۔اس کے بعد مسلمانوں نے سن 72 ھ میں وہاں ایک مسجد تعمیر کردی(مروان نے یہ مسجد بنوائی ) اور ایک قُبہ بنا دیا، جو"قبہ الصخراء "کے نام سے موسوم ہے، اس مسجد کا نام مسجدِ اقصیٰ رکھا گیا کہ یہ مکہ المکرمہ اور مدینہ المنورہ سے دوراور دمشق سے بھی دور تھی۔ قرآن کعبہ المشرفہ کو قبلہ اول کہتا ہے۔اسکے علاوہ کسی اور قبلے کا تصور قرآن کے خلاف ہے۔

دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

ہم پاسباں ہیں اس کے ، یہ پاسباں ہمارا

ہماری تاریخ میں مدینہ المنورہ کے بیشتر متبرک نام ہیں، ان میں سےاس کا ایک نام مسجدِ اقصیٰ بھی ہے۔سورۂ مزمل میں مدینہ کو "اقصاء" کہا گیا ہے، یعنی مکہ سے دور۔نبی صلوٰۃ السلام کےہجرت کرنے سے پہلے مدینہ میں مسلمانوں موجود تھے اور ایک مسجد بھی تھی جسکا نام مسجدِ اقصیٰ تھا۔جس رات حضور نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی اس سفرِجلیل سے  دراصل مسجدِ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ کا سفر مراد ومقصود ہے۔و ما الینا الی البلاغ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معراج کا بیان اور اختلافی روایات

حضرت قتادہ ( جلیل القدرتابعی ) نے بیان کیا کہ ، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شب معراج کا واقعہ بیان کیا ، آپ نے فرمایا کہ میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا . بعض دفعہ (حضرت قتادہ ) نے حطیم کے بجائے حجر بیان کیا ، کہ میرے پاس ایک صاحب ( حضرت جبریل علیہ السلام ) آئے اور میر ا سینہ چاک کیا ، حضرت قتادہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ یہاں سے یہاں تک ۔ میں نے جارُود سے سنا جو میرے قریب ہی بیٹھے تھے ، پوچھا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس لفظ سے کیا مراد تھی ؟ تو انہوں نے کہا کہ حلق سے ناف تک چاک کیا ( قتادہ نے بیان کیا کہ ) میں نے حضرت انس سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کے اوپر سے ناف تک چاک کیا ، پھر میرا دل نکالا اور ایک سونے کا طشت لایا گیا جو ایمان سے بھرا ہواتھا ، اس سے میرا دل دھویا گیا اور پہلے کی طرح رکھ دیا گیا . پهراس کے بعد ایک جانور لایا گیا جو گھوڑے سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا اور سفید تها ، جارود نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا ابو حمزہ کیا وہ براق تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ جی ہاں . اس کا ہر قدم اس کے منتہائے نظر پر پڑتا تھا . ( تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ) مجھے اس پر سوار کیا گیا اور جبریل مجھے لے کر آسمان دنیا پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا ، پوچھا گیا کون صاحب ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ جبریل علیہ السلام پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون ہے ؟

آپ نے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کہ ، کیا انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں . اس پر آواز آئی انہیں خوش آمدید کیا ہی مبارک آنے والے ہیں . اور دروازہ کھول دیا . جب میں اندر گیا تو میں نے وہاں آدم علیہ السلام کو دیکھا ، جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہ آپ کے جد امجد آدم علیہ السلام ہیں ، انہیں سلام کیجئے ، میں نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک بیٹے اور نیک نبی . جبریل علیہ السلام اوپر چڑھے اور دوسرے آسمان پر آئے وہاں بھی دروازہ کھلوایا آواز آئی کون صاحب آئے ہیں ؟ بتایا کہ جبریل ( علیہ السلام ) پوچھا گیا آپ کے ساتھ اور کوئی صاحب بھی ہیں ؟ کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا آپ کو انہیں بلانے کے لئے بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ، پھر آواز آئی انہیں خوش آمدید ۔ کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ . پھر دروازہ کھلا اور میں اندر گیا تو وہاں یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام موجود تھے . یہ دونوں خالہ زاد بھائی ہیں ۔

 جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہ عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام ہیں ، انہیں سلام کیجئے میں نے سلام کیا اور ان حضرات نے میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی . پهر جبریل علیہ السلام مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے کر چڑھے اور دروازہ کھلوایا ۔ پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ جبریل ۔ پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا انہیں لانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ جی ہاں . اس پر آواز آئی انہیں خوش آمدید . کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ، دروازہ کھلا اور جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں یوسف علیہ السلام موجود تھے ۔ جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ یوسف ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی . پھر حضرت جبریل علیہ السلام مجھے لے کر اوپر چڑھے اور چوتھے آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا تو پوچھا گیا کون صاحب ہیں ؟ بتایا کہ جبریل ! پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون ہے ؟ کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیاکہ انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجاگیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں کہا کہ انہیں خوش آمدید کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ۔

 اب دروازہ کھلا جب میں وہاں پر ادریس علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہ ادریس علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک بھائی اور نیک نبی . پھر مجھے لے کر پانچویں آسمان پر آئے اور دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون صاحب ہیں ؟ جواب دیا کہ جبریل ، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کہ انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں اب آواز آئی خوش آمدید کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ، یہاں جب میں ہارون علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ہارون ہیں انہیں سلام کیجئے میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب کے بعد فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی . یہاں سے لے کر مجھے آگے بڑھے اور چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں ؟ بتایا کہ جبریل ، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کوئی دوسرے صاحب بھی آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں . پھر کہا انہیں خوش آمدید کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ۔

 میں جب وہاں موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے ، میں نے سلام کیا اور انہوں نے جواب کے بعد فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بھائی . جب میں آگے بڑھا تو وہ رونے لگے ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا میں اس پر رو رہا ہوں کہ یہ لڑکا میرے بعد نبی بنا کر بھیجا گیا لیکن جنت میں اس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ ہوں گے . پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر ساتویں آسمان کی طرف گئے اور دروازہ کھلوایا ۔ پوچھا گیا کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ جبریل ۔ پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیاکہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا انہیں بلانے کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں . کہا کہ انہیں خوش آمدید ، کیا ہی اچھے آنے والے ہیں وہ ، میں جب اندر گیا تو ابراہیم علیہ السلام تشریف رکھتے تھے۔ جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ آپ کے جد امجد ہیں ، انہیں سلام کیجئے . آپ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور فرمایا خوش آمدید نیک نبی اور نیک بیٹے . پھر سدرۃ المنتہیٰ کو میرے سامنے کردیا گیا میں نے دیکھا کہ اس کے پھل مقام حجر کے مٹکوں کی طرح ( بڑے بڑے ) تھے اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کان کی طرح تھے ۔

جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے ، وہاں میں نے چار نہریں دیکھیں دو باطنی اور دو ظاہری ، میں نے پوچھا اے جبریل علیہ السلام یہ کیا ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ جو دوباطنی نہریں ہیں وہ جنت کی نہریں ہیں ، اور دوظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں . پھر میرے سامنے بیت المعمور کو لایا گیا ، وہاں میرے سامنے ایک برتن میں شراب ایک میں دودھ اور ایک میں شہد لایا گیا ۔ میں نے دودھ کا برتن لے لیا تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہی فطرت ہے اور آپ اس پر قائم ہیں اور آپ کی امت بھی . پھر مجھ پر روزانہ پچاس نمازیں فرض کی گئیں میں واپس ہوا اور موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کس چیز کا آپ کو حکم ہوا ؟ میں نے کہا کہ روزانہ پچاس وقت کی نمازوں کا ، موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا لیکن آپ کی امت میں اتنی طاقت نہیں ہے . والله آپ سے پہلے میں لوگوں کو آزما چکا ہوں ، اور بنی اسرائیل کا مجھے سخت تجربہ ہے . اس لئے آپ اپنے رب کے حضور میں دوبارہ جائیے اور اپنی امت پر تخفیف کے لئے عرض کیجئے ۔ چنانچہ میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں دوبارہ حاضر ہوا اور تخفیف کے لئے عرض کی تو دس وقت کی نمازیں کم کردی گئیں ۔

 پھر میں جب واپسی میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پھر وہی سوال کیا میں دوبارہ بارگاہ الہی میں حاضرہوا اوراس مرتبہ بھی دس وقت کی نمازیں کم کرائیں ۔ پھرمیں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا توانہوں نے وہی مطالبہ کیا میں نے اس مرتبہ بھی بارگاہ الہی میں حاضر ہوکر دس وقت کی نمازیں کم کرائیں ، موسٰی علیہ السلام کے پاس سے پھر گزرا انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا پھر بارگاہ الہی میں حاضر ہوا تو مجھے دس وقت کی نمازوں کا حکم ہوا میں واپس ہونے لگا تو آپ نے پھر وہی کہا اب بارگاہ الہی میں حاضرہوا تو روزانہ صرف پانچ وقت کی نمازوں کا حکم باقی رہا ۔ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو آپ نے دریافت فرمایا اب کیاحکم ہو ا ؟ میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ روزانہ پانچ وقت کی نمازوں کا حکم ہوا ہے ۔ فرمایا کہ آپ کی امت اس کی بھی طاقت نہیں رکھتی میراواسطہ آپ سے پہلے لوگوں سے پڑ چکا ہے اور بنی اسرائیل کا مجھے تلخ تجربہ ہے ۔ اپنے رب کے دربار میں پھر حاضر ہوکر تخفیف کے لئے عرض کیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رب تعالیٰ سے میں بہت سوال کر چکا اور اب مجھے شرم آتی ہے ۔ اب میں بس اسی پر راضی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جب میں وہاں سے گزرنے لگا تو ایک ندا کرنے والے نے یہ ندا دی کہ میں نے اپنا فریضہ جاری کردیا اور اپنے بندووں پر تخفیف کردی۔

(فتح الباري شرح صحيح البخاري » كتاب مناقب الأنصار » باب المعراج حدیث نمبر 3889)

اسراء ومعراج کی تاریخ وزمانہ کون سا ہے ؟

اس بارے میں اختلاف ہے اورمختلف اقوال ہیں لیکن دو بنیادی اقوال درج ذیل ہیں

1 = اسراء ومعراج بعثت سے پہلے واقع ہوئے ہیں

2 = اسراء ومعراج بعثت کے بعد واقع ہوئے ہیں

بعثت سے پہلے اسراء ومعراج کے قائلین کی دلیل صحيح البخاري میں حضرت شريك ابن عبد الله کی روایت ہے أن الليلة التي أسري برسول الله صلى الله عليه وسلم فيها : كانت قبل أن يوحى إليه

اور بعثت کے بعد اسراء ومعراج کے قائلین کی دلیل وه ہے جو احادیث میں حضرت جبريل عليه السلام سے آسمان کے نگران کا سؤال کرنا وارد ہوا ہے جس میں بعثت کا ذکر ہے ، اور راجح قول یہی ہے کہ اسراء ومعراج بعثت کے بعد واقع ہوئے ہیں

اورشريك ابن عبد الله کی روایت میں جو ذکر ہوا ہے تو علماء نے اس کو أوهام میں شمار کیا ہے بعثت سے پہلے اسراء ومعراج کا انکار کیا ہے

وقال النووي : وقد جاء في رواية شريك في هذا الحديث في الكتاب أوهام أنكرها عليه العلماء

شرح النووي على مسلم 2 / 209 ) وقال الخطابي: ليس في الكتاب – يعني في صحيح البخاري – حديث أشنع ظاهرا ولا أشنع مذاقا من هذا. فحاصل الأمر في النقل أن هذه القصة من جهة الراوي، إما من أنس وإما من شريك، فإنه كثير التفرد بمناكير الألفاظ التي لا يتابعه عليها سائر الرواة. وقال ابن حزم: لم نجد للبخاري ومسلم في كتابيهما شيئا لا يحتمل مخرجا إلا حديثين، ثم غلبه في تخريجه الوهم مع إتقانهما وصحة معرفتهما. وقال عبد الحق في الجمع بين الصحيحين: زاد فيه يعني شريك زيادة مجهولة، وأتى فيه بألفاظ غير معروفة، وقد روى الإسراء جماعة من الحفاظ فلم يأت أحد منهم بما أتى به شريك، وشريك ليس بالحافظ . ( انظر: فتح الباري 13 /480 . ) قال ابن حجر: ومجموع ما خالفت فيه رواية شريك غيره من المشهورين عشرة أشياء بل تزيد على ذلك: ومنها: أن الإسراء والمعراج كان قبل البعثة ( فتح الباري 13/ 480.)

اسی طرح علماء کرام کا اجماع ہے کہ نماز ليلة الإسراء میں فرض ہوئی ہے اور اسراء ومعراج کو اگر بعثت سے پہلے قرار دیا جائے کہ نماز نزول وحی سے پہلے فرض ہوئی ہے تو یہ قول غلط ہے ، لہذا علماء اسلام کا راجح قول یہی ہے کہ اسراء ومعراج بعثت کے بعد واقع ہوئے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کب اور کون سی تاریخ میں اسراء ومعراج ہوا ہے ؟ تو اس بارے میں بہت سارے اقوال ہیں جس کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے

1 = ہجرت سے ایک سال قبل ، حضرت ابن مسعود کا یہی قول ہے اورامام نووی نے بهی اسی پراعتماد کیا ہے ، اورعلامہ ابن حزم نے تو اس قول پراجماع نقل کیا ہے لیکن حافظ ابن حجر نے ان کا تعاقب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس بارے بہت اختلاف ہے

2 = ہجرت سے آٹهہ ماه قبل ، حافظ ابن الجوزي نے اس قول کونقل کیا ہے

3 = ہجرت سے چهہ ماه قبل ، أبو الربيع ابن سالم نے اس قول کونقل کیا ہے

4 = ہجرت سے گیاره ماه قبل ، یہ إبراهيم الحربي کا قول ہے اور ابن المنير نے اسی قول راجح قرار دیا ہے

5 = ہجرت سے دس ماه قبل ، ابن فارس نے یہ قول نقل کیا ہے

6 = ہجرت سے سات ماه قبل ، یہ السُدي کا قول ہے

7 = ہجرت سے سات ماه قبل ، ابن عبد البر نے یہ قول نقل کیا ہے

8 = ہجرت سے تین سال ماه قبل ، ابن الأثير نے یہ قول نقل کیا ہے

وغیرذالک من الاقوال

علماء کرام نے ذکرکیا ہے کہ ان اقوال میں ظاہر قول یہ ہے کہ اسراء ومعراج ہجرت سے ایک سال قبل ہوا ہے

اسراء ومعراج کا مہینہ کون سا ہے ؟؟

اس بارے میں بهی بہت أقوال ہیں ، بعض نے کہا کہ ربیع الثانی میں ہوا ہے ، ابن المنير نے (شرح السيرة ) اسی کو ترجیح دی ہے اورامام نووي نے بهی اپنی (شرح مسلم ) میں اسی پراعتماد کیا ہے ، بعض نے کہا کہ ربيع الأول میں ، بعض نے رجب بعض نے رمضان بعض نے شوال میں کہا ہے ، اورامام السيوطي نے فرمایا کہ : والمشهور أنه في رجب یعنی مشہور یہی ہے کہ یہ رجب میں ہوا ہے . والله اعلم

اسراء ومعراج کی رات کون سی ہے ؟؟

اس بارے میں بهی مختلف اقوال ہیں

1 = یہ رمضان کی ستارویں رات تهی ، یہ ابن سعد کا قول ہے

2 = یہ ربيع الأول کی ستارویں رات تهی ، ابن جُماعه کا قول ہے

3 = بعض نے کہا کہ رجب کی ستائیسویں رات تهی

4 = یہ ربيع الثانی کی ستائیسویں رات تهی ، یہ ابن المنير کا قول ہے

اسراء کہاں سے واقع ہوا ؟؟

جگہ اور مکان سے مقصود یا مكان عام ہے یعنی شہر یا مكان خاص یعنی شہر کے جس جگہ سے اسراء ہوا ، مكان عام یعنی شہر تو مکہ ہے لظاهر قوله تعالى: ﴿ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ﴾[الإسراء:1] اور مکان خاص کے بارے مختلف اقوال ہیں

1 = امام بخاري کے نزدیک بيت الحرام کے پاس سے (صحيح البخاري ) وفي باب المعراج: في الحطيم، وربما قال: في الحِجْر، والشك من قتادة . قال الحافظ والمراد بالحطيم هنا : الحجر

2 = امام زهري کی روایت میں حضرت أنس سے مروی ہے " فُرِجَ سقف بيتي وأنا بمكة " لہذا اس میں دلالت ہے کہ اسراء گهر سے واقع ہوا ہے

3 = امام واقدي کی روایت میں ہے کہ شعب أبي طالب سے اسراء ہوا ہے

4 = حضرت أم هانی کی روایت میں ہے کہ اسراء ان کے گهر سے واقع ہوا ہے

بعض علماء نے کہا کہ ان اقوال میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ مسجد الحرام سے مراد حرم ہے اور ابن عباس رضی الله عنهما کا قول ہے کہ حرم سب مسجد ہے قال ابن عباس: الحرم كله مسجد

اسراء ومعراج بیداری کی حالت میں ہوا یا نیند میں ؟؟

 جمهور علماء اسلام مفسرين ومحدثين وفقهاء ومتكلمين کا مذهب یہ ہے کہ اسراء ومعراج بیداری کی حالت میں ہوا ، اور ظواهر اخبار صحیحہ میں بهی یہی بات موجود ہے ، اور اگرنیند میں ہوتا تو الله تعالی اس کا ذکر فرماتے جیسا کہ حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت إسماعيل کے ذبح کا قصہ الله تعالی نے ذکرکیا ہے ، اسی طرح اگر یہ نیند میں ہوتا تو کفار اس کی تکذیب نہ کرتے کیونکہ نیند میں آدمی اپنے آپ کو آسمان یا مشرق و مغرب میں دیکھ سکتا ہے ، اسی طرح یہ مقام مشاهده کا ہے قوله تعالى: ﴿ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا )وقوله تعالى: ﴿ لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى ﴾ یہاں رؤیت سے مراد ظاہری طور پر رؤية العين ہی ہے ، اسی طرح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم کی امامت واقتداء میں انبیاء علیهم السلام نے نماز پڑهی اور یہ صحیح نہیں کہ اس حالت میں آپ نیند میں تهے

اسراء ومعراج جسمانی تها یا روحانی ؟؟

اکثرعلماء اسلام أكثر متأخرين مفسرين ومحدثين وفقهاء ومتكلمين کا قول یہی ہے کہ روح وجسد کے ساتهہ بیداری کی حالت میں ہوا ہے ، حافظ ابن كثيرفرماتے ہیں کہ : جمهور سلف وخلف کا یہی مذهب ہے کہ اسراء بدن و روح کے ساتهہ ہوا ہے . قال ابن كثير: وهو مذهب جمهور السلف والخلف من أن الإسراء كان ببدنه وروحه صلوات الله وسلامه عليه كما دل على ذلك ظاهر السياقات من ركوبه ( البداية والنهاية ، بتصرف. ) مكه سے بيت المقدس کی طرف اوروہاں سے آسمانوں کی طرف اورجہاں تک الله تعالی نے چاہا یہ سارا سفر جسمانی اوربحالت بیداری ہوا ہے ، اگریہ روحانی ہوتا تو الله تعالی سبحان الذي أسرى بعبده کے بجائے بروح عبده فرماتے ، اور عبد حقیقت میں روح وجسد کوکہتے ہیں ويدل عليه قوله تعالى ﴿ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى ﴾ ﴿ لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى

اسراء اور معراج ایک ہی رات میں ہوا یا نہیں ؟؟

اسراء اور معراج دونوں ایک ہی رات میں واقع ہوئے ہیں ، جمهور علماء ومحدثين وفقهاء ومتكلمين کا یہی قول ہے . الإسراء والمعراج لابن حجر ص 93۔

URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-journey-meraj-/d/102949

 

Loading..

Loading..