اقبال شیخ
خیالات کا اثر جسم پر
ہم عرض کر چکے ہیں کہ ہر لفظ توانائی کا ایک یونٹ ہے، ہمارا ہر جملہ قوت کا ایک ذخیرہ لئے ہمارے منہ سے نکلتا اور دوسروں کو متاثر کرتا ہے۔ہماری داد ایک شاعر کے چہرے کو چمکا دیتی ہے۔ہماری شاباش سے ایک طالبِ علم کا حوصلہ بلند ہوجاتا ہے۔جب ہم ایک بیمار کے سرہانے بیٹھ کہ چند کلماتِ تسکین کہتے ہیں تو اسے افاقہ سا محسوس ہونے لگتا ہے ، اور بعض اوقات ایک مریض بول اٹھتا ہے:
"آپ کے آنے سے میری تکلیف کم ہوگئی ہے"۔
الفاظ خیالات کی تصویریں ہیں، اور خیالات وہ لہریں ہیں جو دماغ سے اٹھتی ہیں۔ان لہروں کی دو قسمیں ہیں:
ایک وہ جو خوف ، ناامیدی ، بے ہمتی، غصہ، حسد، جلن، انتقام، بے چینی اور سراسیمگی پیدا کرتی ہیں۔
دوسری وہ جن سے محبت، رحم، فیاضی، سخاوت، شجاعت، نیکی اور تقویٰ کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
جب کوئی آدمی خیانت یا چوری کرتا ہے، رشوت لیتا یا ناو نوش میں پڑ جاتا ہے ، تو دماغ ایسی لہریں خارج کرتا ہے جو خوف اور بے چینی میں تبدیل ہوجاتی ہیں، اور کتنے ہی ایسے امراض ہیں جو بے چینی سے پیدا ہوتے ہیں۔بعض اوقات شدید بے چینی دیوانگی یا موت کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔
آر،ڈبلیو ٹرائن نے ایک عورت کی کہانی درج کی ہے کہ کسی بات پر اسے اتنا غصہ آیا کہ اس کے دودھ میں زہر بھر گیا اور اس کا دودھ پیتا بچہ مر گیا۔
ایک امریکی ڈاکٹر کا نظریہ یہ ہے کہ بیماری پہلے جسم ِ لطیف کولگتی ہے اور پھر جسمِ خاکی میں منتقل ہوجاتی ہے۔
چنانچہ وہ لکھتا ہے:
The mind is the natural protector of the body. Vice of all sorts produces leprosy and other diseases in the astral body (soul) which reproduces them in physical body.
Anger changes the chemical properties of saliva to a poison dangerous to life. Sudden and violent emotions not only weaken the heart but sometimes cause insanity and death.
(In Tune with the Infinity, p.39)
ترجمہ: دماغ جسم کا فطری محافظ ہے۔ہر قسم کا گناہ جسمِ لطیف میں برص اور دیگر امراض پیدا کرتا ہے اور پھر یہی امراض جسمِ خاکی میں منتقل ہوجاتے ہیں۔غصے سے تھوک کے اجزائے ترکیبی ایک خطرناک زہر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔فوری اور شدید اشتعال سے نہ صرف دل کمزور ہو جاتا ہے، بلکہ دیوانگی اور موت تک کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
میرے ایک شنا سا مشرقی پاکستان کے مشہور جنگل سُندر بن میں شکار کھیل رہے تھے۔اچانک سامنے سے شیر آگیا، یہ بے ہوش ہوکر گر پڑے اور شیر واپس چلا گیا۔ہوش آنے کے بعد اٹھے اور گرتے پڑتے اپنے خیمے تک پہنچے اور دوسری صبح آئینہ میں نگاہ ڈالی تو کیا دیکھتے ہیں کہ سر تمال بال سفید ہوچکے ہیں۔
یہ ہے اثر جذبات کا جسم پر۔
دوسری طرف محبت، رحم، مروت، خوش خلقی، اللہ کی عبادت ، گداز اور نیاز سے جسم میں ایسی رطوبتیں پیدا ہوہیں جو بیماری کے اثر کو زائل کر دیتی ہیں۔یہ کہانی اس امریکی ڈاکٹر کی زبانی سنیئے:
On the other hand love, good-will, benevolence and kindness tend to stimulate a healthy, purifying and life-giving, flow of bodily secretions, and these forces set into a bounding activity will counteract the disease-giving effects of vices.
ترجمہ: دوسری طرف محبت، نیک نیتی،مروت، اور ہمدردی سے ایسی صحت بخش، پاک ساز اور حیات افروز رطوبتیں پیدا ہوتی ہیں ، جو گناہ کے بیمار کُن اثرات کو زائل کر دیتی ہیں۔
حضرت مسیح ؑ خیر وشر کے اثرات سے پوری طرح باخبر تھے۔انہیں یقین تھا کہ بیماری گناہ کا نتیجہ ہے چنانچہ جب کوئی مریض ان کے ہاں آتا، تو پہلا سوال یہ ہوتا :
Do you believe?
ترجمہ: کیا تم مجھے اور میرے پیغام کو مانتے ہو؟
اور علاج یہ بتاتے:
Go and sin no more.
ترجمہ: جاؤ اور آئندہ گناہ سے بچو۔
ایک فلسفی کا قول ہے:
Suffering is designed to continue only so long as sin continues. The moment the violation ceases, the cause of the suffering is gone.
ترجمہ: دکھ اسی وقت تک باقی رہتا ہے جب تک گناہ باقی رہے۔گناہ کو چھوڑتے ہی دکھ کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔
یہ ممکن ہے کہ گزشتہ گناہوں کا اثر کچھ دیر تک باقی رہے۔لیکن تائب ہوتے ہی صحت و مسرت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
حضرت مسیح ؑ کا ارشاد ہے:
My words are life to them that find them and health to all their flesh.
ترجمہ: میرا پیغام میرے ماننے والوں کو زندگی دے گا اور ان کے اجسام کو صحت بخشے گا۔
قرآن میں مذکورہ ہے:
الذین امنو ولم یلبسو ایمانھم بظلم اولئک لھم الامن و ھم مھتدون۔ (انعام 83)
ترجمہ: وہ ایمان دار جو اپنے ایمان میں گناہ کو داخل نہیں ہونے دیتے وہ امن و سکون اور ہدایت کی نعمت سے بہرہ ور ہونگے۔
گیتا میں لکھا ہے:
جو شخص حواس اور عقل کو ضبط میں لانے کے بعد خواہشات کو ترک کردیتا ہے ، وہ تمام دکھوں سے رہائی پالیتا ہے۔(گیتا 5:18)
مہاتما بدھ کا ارشاد ہے:
تندرستی کا نام ہے، جب لالچ، نفرت اور فریب کی آگ بجھ جاتی ہے تو مکمل چین اور سکون(نروان) مل جاتا ہے۔ (بدھ مت)
دماغ خالق ہے
دماغ صرف صحت و مرض اور مسرت والم ہی کا خالق نہیں بلکہ وہ ہر چیز کا خالق ہے، یہ مصوری کے شاہکار، بت تراشی کے عمدہ نمونے، یہ اشعار اور یہ عمارات وہ لہریں ہیں جو پہلے دماغ میں پیدا ہوئیں، اور پھر انہوں نے کہیں نغمہ، کہیں حسن، کہیں اہرامِ مصر، اور کہیں تاج محل کی صورت اختیار کر لی۔یہ کائنات تخیل کی ایک لہر ہے ،جو کبھی خالق کے دماغ میں پیدا ہوئی تھی، ذہنی تصورات اصل ہیں اور مادی اشیا ان کی نقل۔حقائق کے قلعے پہلے دماغ میں اور پھر زمین پر تعمیر ہوتے ہیں۔کائنات میں لاتعداد دماغ موجود ہیں، جن سے نکلی ہوئی لہریں ہر طرف رواں دواں ہیں، یہ ہر دماغ سے ٹکراتی اور اس پر اثر انداز ہوتی ہیں۔دنیا میں کروڑوں ایسے آدمی موجود ہیں جو تمام نسلِ انسانی کی نجات و فلاح کیلئے دعائیں مانگتے رہتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو گناہ کے عادی ہیں، اور ہر شخص کو اپنے جیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ان دونوں طبقوں کی چھوڑی ہوئی "ایموشنل انرجی" اپنا کام کر رہی ہے اور لوگ جوق در جوق گناہ و صواب کی راہو ں پر بڑھے جا رہے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/philosophy-prayer-worship-(part-3)/d/102372