اقبال شیخ
قرآن حکیم میں ہمیں امر بالمعروف کا لقب دیا گیا ہے۔معروف یہ بھی ہے کہ ہم کائنات کے اسلحہ خانہ سے قوت و ہیبت کا وہ سامان پیدا کریں کہ شیطان کا چراغ ہمیشہ کیلئے گُل ہوجائے۔
واعدوالھم مااستطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدو اللہ وعدوکم۔(انفال:60) تم وہ سامان قوت پیدا کرو اور تھانوں پر تمہارے گھوڑے اس ٹھاٹھ سے بندھے ہوئے ہوں کہ تمہارے دشمن ، اللہ کے دشمن غش کھا جائیں۔
تامرون بالمعروف میں تامرون کا لفظ صاف صاف اعلان ہے، اس حقیقت کا کہ خیر الامم وہ ہے جو دنیا میں معروف،یعنی نیکی ، عدل، مساوات اور صلح و آشتی کا حکم دے سکے۔حکم دینا حاکم کا کام ہوتا ہے ،لہٰذا خیر الامم کیلئے حاکم ہونا ضروری ہے اور زمانے میں کوئی حکومت معاون ارضی کے استعمال کے بغیر ایک دن کیلئے بھی باقی نہیں رہ سکتی۔منکر کے الفاظ میں ہر قسم کی بدی شامل ہے۔دنیا میں غلامی سب سے بڑی برائی ہے۔اس ذلت، بدکاری، جہالت اور فلاکت کی آخری منزل سے ایک غلام قوم میں معروف کا شائبہ تک باقی نہیں رہتا۔ وہ بکریوں کا ایک ریوڑ ہوتی ہے جس طرح بکری کا گوشت، چمڑا، ہڈیاں اوربال تک فروخت کئے جاتے ہیں ، اسی طرح ایک حاکم قوم محکوم قوم کی تمام پیدوار، سرمایہ،اجناس، زمین اور جان تک صرف اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتی ہے۔کیا ایسی قوم خیرالامم کہلا سکتی ہے؟
کنتم خیرامۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر۔ (آل عمران:11) تم خیر الامم ہو اوردنیا کی بہتری کے لئے اٹھے ہو ۔تمہارا کام معروف کاحکم دینا اور منکر سے روکنا ہے۔
اخرجت للناس کا فقرہ بتا رہا ہے کہ خیر الامم بننے کیلئے تمام دنیا کی بہبودی پر توجہ کرنا پڑیگی اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہمارے پاس نفع رسانی کے تمام اسباب موجود ہوں۔ہم عالمگیر علم، ہیبت خیز اسباب قوت اور جاذب قلوب متاع اخلاق کے مالک ہوں۔اگرایک طرف دنیا ہمارے اخلاق کی ثناخواں ہو تو دوسری طرف ہمارے شمشیر خارا شگاف سے ہفت اقلیم کی طاغوتی طاقتیں رعشہ بداندام ہوں۔یہی معروف ہے اور یہی وہ قبائے زریں ہے جو خیرالامم کے قامت پر راست آتی ہے۔
جس طرح سورج مشرق سے نکل کر مغرب کی طرف سفر کرتا ہے اور دوسری صبح پھر مشرق سے نمودار ہوتا ہے اسی طرح علم وتہذیب کا آفتاب بھی گردش کرتا رہتا ہے۔محققین اس امر پر متفق ہیں کہ تہذیب کا آفتاب پہلے مشرقی ممالک پر چمکا تھا۔چین اور ہندوستان، بابل اور مصر کی تہذیبیں از بس قدیم ہیں۔رفتہ رفتہ مغرب کا ایک خطہ یونان علم و عرفان کا مرکز بن گیا۔336ء ق م اسکندراعظم نے ایرانی سطوت کا خاتمہ کیا اور 331ء ق م میں مصر پر قبضہ جمالیا۔اسکندر کی موت کے بعد یونان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا اور خانہ جنگی کے شعلے اطراف ملک میں بھڑک اٹھے۔
248ء ق م میں پارتھیابیدار ہوا اور تھوڑی سی مدت میں ایک طاقت ور سلطنت بن گیا۔تقریباً دو صدیوں کے بعد روم میں آثار ِ حیات پیدا ہونے لگے۔اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک زبردست سلطنت بروئے کار آگئی۔روم نے پارتھیا کو پہلی شکست 38ء ق م میں اور دوسری 163ء ق م میں دی۔216ء ق م پارتھیا کے آخری آثار دنیا سے مٹ گئے اور آفتاب تہذیب پوری آب و تاب سے پھر مغرب پر چمکنے لگا۔
کچھ عرصے کے بعد ایران میں زندگی نے ایک کروٹ لی۔ ساسانی خاندانی کا علم مدائن پر لہرانے لگا۔دوسری طرف رومتہ الکبریٰ کے طوفان میں آثارِ جزر نظر آنے لگے، یہاں تک کہ ساتویں صدی کے وسط میں ریگستان عرب سے علم و عرفان کا ایک چشمہ پھوٹ نکلا، جس سے مشرق و مغرب ہر دو سیراب ہوگئے۔
چند صدیوں کے بعدآفتا بِ علم و تمدن پھر مغرب کی طرف بڑھا۔جرمنی ، فرانس، ہسپانیہ اور انگلستان سے ہوتا ہوا مغرب اقصیٰ (امریکہ) تک جا پہنچا اور اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ مشرق میں آفتاب پھر نکل رہا ہے اورہندوستان، ایران اور ترکی میں پھر بیداری کے آثار عیاں ہیں۔اس حقیقت کی طر اللہ نے اہل ِ بصیرت کو یوں متوجہ کیا ہے:
قل اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیرط انک علیٰ کل شی ء قدیر۔ تولج اللیل فی النھار و تولج النھار فی اللیل و تخرج الحی من المیت و تخرج المیت من الحی۔(آل عمران: 26 تا 27)جو زمین کا وارث بننا چاہتے ہیں اے اللہ تو انہیں (اپنے قوانین کی رو سے)وارث بنا دیتا ہے اور جو غلامی اختیار کرنا چاہیں انہیں غلامی میں مبتلا کر دیتا ہے۔عزت و ذلت ، دنیا کی تمام بلندیاں، خیر سب تیرے دستِ قدرت میں ہیں(یعنی ہر شے کے لئے قوانین الٰہی موجود ہے جسکا جو جی چاہے ان قوانین کے تحت حاصل کر لے) اور تُو (قانونِ الٰہیہ )ہر چیز پر قادر ہے ، جوتہذیب و تمدن کے روز روشن کو غلامی کی کالی رات میں اور رات کو دن میں بدلتا رہتا ہے۔ مردہ اقوام کی خاکستر میں اخگر حیات پیدا کرنااور زندہ اقوام (جو کاہل ہوچکی ہیں) کو موت کی نیند سلانا تیرے قوانین کی ہی مرہونِ منت ہے۔
ان حقائق کو ایک بیدار آنکھ اورنور سے ایک لبریز دل دیکھ سکتا ہے لیکن وا حسرتا کہ نام نہاد مسلم اس دولت سے محروم ہے۔ وھم عن ایاتنا معرضون۔ یہ لوگ آیات ِ کائنات سے اعراض کر رہے ہیں۔
کپاس اور گندم کی ترکیب آٹھ عناصر سے ہوئی۔اختلاف مقادیر سے کہیں وہ عناصر گندم کی صورت میں جلوہ گر ہوئے اور کہیں کپاس کی شکل میں۔پانی میں دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن ہے۔اگر اس مقدار کو ذرہ بھر گھٹا بڑھا دیا جائے تو ایک زہر تیار ہوگا۔اگر یہ دو عناصر مساوی مقدار میں جمع کر دیئے جائیں تب بھی ایک مہلک مرکب بنے گا۔آکسیجن وہائیڈروجن ہر دو قاتل و مہلک گیسیں ہیں جن کے مختلف اوزان اور مقدار سے لاکھوں مرکبات تیار ہوسکتے ہیں اور ہر مرکب زہرہلاہل ہوتا ہے، لیکن اگر دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن کو ترکیب دی جائے تو ان دو زہروں سے پانی تیار ہوگا جو تمام عالم کا مدارِ حیات ہے۔
وجعلنا من الماء شی ء حیّ۔ (انبیاء:30)ہم نے پانی کو ہر چیز کا مدارِ حیات قرار دیا ہے۔
غور فرمائیے کہ اللہ مقادیر کا کتنا بڑا علم ہے وہ کس طرح معین مقداروں سے کائنات کی مختلف اشیاءتیار کر رہا ہے۔
انا کل شی ء خلقناہ بقدر۔(قمر:49) ہم نے ہر چیز کو (عناصر) کی معین مقدار سے پیدا کیا ہے۔
لیموں اور کالی مرچ ہر دو ہائیڈروجن دس حصے اور کارب بیس حصے سے تیار ہوئے ہیں۔لیکن سالمات کے تفاوت سے ہر دو کی شکل ، رنگ، ذائقہ اور تاثیر بدل گئی ۔اسی طرح کوئلہ اور ہیرا کاربن سے بنے ہیں لیکن سالمات کے اختلاف سے ایک کا رنگ کالا، دوسرا سفید، ایک قابل شکست اور دوسرا ٹھوس ہے۔
ان من شی ء الا عند نا خزائنہ و ما ننزلہ الا بقدر معلوم۔(حجر:21) ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم معین مقدار میں ہر چیز کو نازل کرتے ہیں۔ وما کنا عن الخلق غافلین ۔(مومنون:17) اور ہم اشیاء کی تخلیق(وترکیب) سے غافل نہیں تھے۔
کائنات کی ہر چیز عناصر کی نہایت دقیق وانسب آمیزش سے تیار ہوتی ہے، ا گر یہ ترکیب ذرہ بھر کم و بیش ہوجائے تو سلسلۂ حیات آناً فاناً درہم برہم ہوجائے۔اگر آج اللہ تعالیٰ پانی کی ساخت میں سے ہائیڈروجن صرف ایک درجہ کم کردے تو دریاؤں اور سمندروں میں زہر کا سیلاب آجائے اور کوئی ذی حیات باقی نہ رہے۔غور فرمائیے کہ اللہ کا علم عناصر و مقادیر کس قدر لرزہ فگن اور ہیبت انگیز ہے۔تمام نباتات کے عناصر ترکیبی ایک ہیں یہ صرف اختلاف مقادیر کا اعجاز ہے کہ :
ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است
حیوانات و نباتات کی ترکیب آکسیجن ، ہائیڈروجن ، کاربن، نائٹروجن اور چند دیگر نمکوں سے ہوئی۔انہی عناصر سے ہڈیاں، پٹھے، خون اور بال تیار ہوئے اور انہی سے درختوں کے پتے شگوفے ، پھول ،خوشے ،رس اور پھل بنے۔کڑواہٹ ، ترشی اور مٹھاس انہی عناصر کا کرشمہ ہے۔اور رنگ و وضع کی یہ نیرنگیاں انہی کی بدولت ہیں۔
وانبتنا فیھا من کل شی ء موزون۔(حجر:19)ہم نے سب چیزیں تول تول کر پیدا کیں۔
قرآن حکیم میں مسلمانوں کو سات سو چھپن دفعہ مناظر قدرت و قوانین فطرت پر غورکرنے کی ہدایت کی گئی ۔علامہ ابن رشد، فارابی، بوعلی سینا اور فخر الدین رازی نے بھی ہمیں اسی طرف متوجہ کیا لیکن ہم نے توجہ نہ کی۔نتیجہ یہ کہ آج دوسری قومیں برق و باد پر سوار ہوکر منازل حیات طے کر رہی ہیں، اور ہم صحرائے حیات میں طوفان ریگ تھپیڑے کھا رہے ہیں۔علامہ شعرانی اسلام کے طبیعی پہلو کو سمجھتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ اگر مسلمان ، مسلمان رہا تو وہ علم شریعت کی طرح علم فطرت میں بھی ایک نہ ایک دن کمال پیدا کرکے رہے گا، اسی لئے تو فرمایا تھا کہ:
ان الاسلام فی اول امرہ کان شریعۃ ثم فی اٰخر الزماں یکون حقیقۃ۔اسلام آغاز میں محض شریعت تھا اور آخری زمانے میں حقیقت بن جائے گا۔
وہ آخری زمانہ یہی ہے۔ضرورت ہے کہ ہم آیات ارض و سماء کی طرف متوجہ ہوکر اسلام کو ایک حقیقت اور ٹھوس اصلیت ثابت کرنے کی کوشش کریں۔جو قومیں اس پر کاربند رہیں گی وہ حکومت کریں گی اور جو ان کو نظر انداز کردیں گی مغلوب ہوجائیں گی۔
ان فی السمٰوٰت والارض لاٰیٰت للمومنین۔(جاثیہ:3) زمین و آسمان میں اہل ایمان کیلئے حقائق و بصائر موجود ہیں۔
وفی خلقکم وما یبث من دابۃ اٰیٰت لقوم یوقنون۔ (جاثیہ:4) دولت یقین سے مالا مال اقوام کیلئے خلق انسانی و حیوانی میں آیات الٰہیہ موجود ہیں۔
مسلمانوں کی فلاح و نجات اس وقت صحیفۂ کائنات کے مطالعہ میں ہے۔وہی اقوام آج علم، طاقت ور اور پُر ہیبت ہیں جنہوں نے فطرت سے قوانین کا درس لیا اور اسلوب قدرت کے مطالعہ میں عمریں صرف کردیں۔علم الآفاق سے غفلت و جہالت نے مسلم کو ذلیل کر ڈالا۔اس کا توازن ملی جاتا رہا۔اس کی سلطنتیں اجڑ گئیں، سرحدیں غیر محفوظ ہوگئیں اور اسکی تمام حفاظتی تدابیر خام ثابت ہوئیں۔اگر آج ہم اپنی خامیوں کو متعین کرنے اور ان کا علاج سوچنے کیلئے کوئی کمیشن مقرر کریں تو ہماری کوششیں رائیگاں جائیں گی، اس لئے کہ اقتصادیات، سیاسیات و دیگر اصناف علم و تمدن کے ماہرین ہمارے ہاں موجود نہیں۔
یورپ میں ہر خامی کا علاج سوچنے کیلئے کمیشن بٹھائے جاتے ہیں جن کے سامنے بڑے بڑے ماہرین فن شہادتیں دیتے ہیں اور یہ کمیشن تمام نشیب وفراز پر غور کرنے کے بعد ایک رپورٹ حکومت کو بھیجتے ہیں۔اگر آج کسی بین الاقوامی مجلس کےسامنے تجدید اسلحہ، اقتصادیات، توازن قوت و تقسیم دولت پر شہادت دینے کی ضرورت پڑے تو کیا اسلامی دنیا کے 90 کروڑ افراد میں سے کوئی ایک عالم بھی ایسا نکل سکے گا جس کی شہادت کو کچھ اہمیت حاصل ہو؟ہمیں دنیا کی طرف شاہد بنا کر بھیجا گیاتھا۔
لتکونواشھداء علی الناس۔(بقرہ:143) ہم نے تمہیں لوگوں کیلئے شاہد بنا کر بھیجا ہے۔
بہ دیگر الفاظ ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ ہم تمام شعبہ ہائے علم و تمدن میں وہ مہارت پیدا کریں کہ ہر مسئلے پر ہماری شہادت آخری ثابت ہو لیکن افسوس کہ جہالت کی وجہ سے ہماری رائے کو لغو اور شہادت کو مردود قرار دیا گیا۔
اللہ نے آنکھیں ، کان اور عقل دیکھنے، سننے اور سوچنے کیلئے عطا کئے ہیں۔جو قوم ان اعضاء و حواس کو استعمال نہیں کرتی وہ حقیقتاً اندھی ، بہری اور لایعقل ہے۔وہی لوگ صاحب عقل ہیں جو کائنات کے مناظر و حقائق کو ایک حقیقت رس نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس آواز کو جو کائنات کے ہر ذرے سے بلند ہورہی ہے کان لگا کر سنتے ہیں۔
افلم یسیروا فی الارض فتکون لھم قلوب یعقلون بھا او اذان یسمعون بھا۔(الحج:46) یہ لوگ مناظر ارضی کی کیوں سیر نہیں کرتے تاکہ ان کے دل سمجھنے لگ جائیں اور کان سننے کی نعمت سے بہرہ ور ہوں۔
ایک قوم کا زوال دراصل زوال حسیات کی داستان ہے۔
فا نھا لا تعمی الابصار ولٰکن تعمی القلوب التی فی الصدور۔(حج:46) دراصل آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ ایک مردہ قوم کے دل بے حس ہوجاتے ہیں۔
دنیا کی بعض اقوام موٹروں اور طیاروں پر سوار ہوکر جادۂ حیات طے کر رہی ہیں اور ہم تو پاشکستہ ہوکر ٹھنڈے سایوں میں محوِ استراحت ہیں اور یا آہستہ خرام اونٹوں پر جھومتے جھامتے چلے جارہے ہیں، ہمارے سست رو کارواں کا بہ مراحل پیچھے رہ جانا حتمی و یقینی ہے۔مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنے لئے بہترین سواریوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
فبشر عباد۔ الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہط(زمر:17 تا 18) مبارک ہیں وہ لوگ جو کسی بات کو سن کر احسن اقویٰ چیز کو اختیار کرتے ہیں۔
کعبہ کی اہمیت
مسلمان دنیا کے ہر کونے میں پھیلے ہوئے ہیں جنہیں باوجود اختلاف رنگ و نسب چند چیزوں نے متحد کر رکھا ہے۔واحد خدا، واحد رسول، واحد کتاب، واحد عربی زبان(صلوٰت و عبادات میں) اور واحد قبلہ۔ہمارے علماء وانبیاء کو حکم دیا گیا تھا کہ ہر سال کعبہ میں جمع ہوکر قومی فلاح کی سبیل سوچیں اور استحکام ملت کے ذرائع پر غور کریں تفکر فی الآفاق قیام امت کا سب بڑا ذریعہ ہے اور اس قانون صلاح و بقا کا علم حاصل کرنا جو کائنات میں محو عمل ہے نجات و حیات کا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔
جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیٰماً للناس والشھر الحرام والھدی و القلائدطذٰلک لتعلموا ان اللہ یعلم ما فی السمٰوٰت و ما فی الارض وان اللہ بکل شی ء علیم۔(مائدہ :97) اللہ نے عزت کے گھر کو حرمت والے مہینوں جن میں جنگ بند کرکے وسائل حیات سوچنے کا حکم دیا گیا ہے اور قربانی کے جانوروں کو امت کیلئے ذریعہ استحکام بنایا ہے(کعبہ کی تعمیر کا بڑا مقصد یہ ہے) کہ تم یہ معلوم کر سکو کہ اللہ کا علم ارض و سما کو محیط ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔
لیکن آج کعبہ میں کوئی ایسی درسگاہ موجود نہیں ، جو اللہ کے بے پناہ علم(اوزان و مقادیر) کی طر ف راہنمائی کرے۔غور فرمائیے کہ سمندر کی تاریک گہرائیوں میں مچھلی کے انڈے سے مچھلی ہی پیدا ہورہی ہے۔کوہ قاف کے سیاہ غار میں ایک مچھر کا بچہ مچھر بن رہا ہے۔بطون حیوانات میں قطرات منویہ مناسب ، موزوں اور صحیح اشکال اختیار کر رہے ہیں۔ جوفِ صدف میں قطرہ آب گہر بن رہا ہے نہ کہ کوئلہ۔اللہ اکبر! اس عالم الغیب کی جہانگیر اور ہمہ بیں نگاہ سے کوئی چھوٹی چھوٹی مخلوق بھی بچی ہوئی نہیں۔ہر مقام اور ہر محل پر نہایت صحت و استحکام سے کام ہو رہا ہے۔کائنات کی یہ کار گاہ جلیل نہایت نظم و نسق سے چل رہی ہے۔میزان و اعتدال سے چل رہی ہے۔کہیں کوئی غلطی نہیں ، سقم نہیں، بد نظمی نہیں ، فتو ر نہیں
فارجع البصر ھل تریٰ من فطور۔(ملک:3) بار بار دیکھو ، کیا تمہیں اس لا انتہا سلسلہ خلق میں کوئی بد نظمی نظر آتی ہے؟
کیا اللہ کے اس ہیبت انگیز علم کا اندازہ لگانے کیلئے کعبے میں کوئی درسگاہ موجود ہے؟ نہیں، اس لئے لتعلموا ان اللہ یعلم مافی السمٰوٰت الخ کا منشا پورا نہیں ہورہا ہے۔
آج حج محض ایک رسم بن کر رہ گیا ہے۔وہاں انسانوں کی بھیڑ جمع ہوجاتی ہے جو چند حرکات طوعی و کرہی سر انجام دینے کے بعد واپس آجاتی ہے۔کوئی نیا تخیل اور کوئی دنیا درسِ حیات سیکھ کر نہیں آتی ، کعبے کے یہ فرائض کسی حد تک آج آکسفورڈ اور کیمبرج کی یونیورسٹیاں سر انجام دے رہی ہیں۔جہاں دنیا کے ہر گوشے سے طلبہ صحیفۂ کائنات کا درس لینے آتے ہیں۔
مومناں را فطرت آموز است حج
ہجرت آموز و وطن سوز است حج
طاعتے سرمایۂ جمعیتے
ربط اوراق کتاب ملّتے
آں کہ زیر تیغ گوید لا الہ
آن کے از خونش بردید لا الہ
آں سروآں سوز مشتاقی نماند
در حرم صاحب ولے باقی نماند
اقبالؒ
امتہ وسطاً
قرآن حکیم میں مسلمانوں کو امۃ وسطاً (اعتدال پسند) کہا گیا ہے۔ہم کئی طرح سے امت وسطیٰ ہیں۔ ہم علوم مغرب (یونان) کو مشرق تک پہنچانے کا واسطہ بنے۔عیسائیت، یہودیت، بدھ ازم اور ہندو دھرم جسم کو کچل کر خشک روحانیت کی تبلیغ کر رہے تھے ہم نے جسم و روح اور دین و دنیا میں آتشی پیدا کی۔جن علمائے طبیعی کو رومۃ الکبریٰ کے رہبان کچل رہے تھے، ہم نے انہیں اپنے دامن رافت میں پناہ دی اور مذہب و ایمان کا ہاتھ ان کے سر پر رکھا ، پھر جغرافیائی حیثیت سے بھی ہم امۃ وسطاً ہیں۔یعنی ربع مسکون کے عین وسطی حصوں میں آباد ہیں، دیگر الفاظ ہم اس چراغ کی طرح ہیں جو وسطِ محفل جل رہا ہو۔ہمارا یہ مذہبی و جغرافیائی فرض تھا کہ ہم دنیا کو علم و عرفان کی روشنیوں سے جگمگاتے اور اقوام کی نگاہوں کو تجلیات معارف سے خیر ہ کر تے، لیکن وائے بر ما! کہ جہالت سے ہمارا اپنا گھر تاریک ہورہا ہے۔
ایک بادشاہ اپنے محل کو جواہرات سے سجاتا ہے، دنیا کے بہترین صناع نقاشی کرتے ہیں، ایرانی غالیچے بچھائے جاتے ہیں، سنہرے پردے لٹکائے جاتے ہیں، بہترین پھولوں کےگلدستے لگائے جا تے ہیں اور زیب و زینت کاآخری کمال دکھایا جاتا ہے ، پھر کتنا ظلم ہوگا، اگر اس کی چہیتی بیوی، بچوں، خادموں اور درباریوں میں اس زیب و جمال کو پسند کرنے کی حس ہی موجود نہ ہو، اور وہ اس محل میں بیل کی طرح داخل ہوکر اس کی سجاوٹ سے غیر متاثر رہتے ہوں۔ یہی حال مسلمانوں کا ہے ملک الارض والسماء نے طارمِ فلک کو کن خیرہ ساز نقوش سے آراستہ کر رکھا ہے،فرش ِ زمین پر پھولوں کی کیا قیامت انگیز بہار جما رکھی ہے۔کائنات میں حسن و شباب کا کیا طوفان ابل رہا ہے لیکن وائے برما کہ ہماری آنکھیں اس حسن و جمال سے متمتع ہونے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتیں۔ایک بیل کو کیا معلوم کہ طلوع و غروب آفتاب کی رنگینیوں میں کیا حسن ہے؟ اور ایک الہڑ دہقانی کو کیا معلوم کہ ساون کی اودی اودی گھٹائیں کیف و مستی کا کیا کیف انگیز پیام دے رہی ہیں۔
انا زینا السماء الدنیا بزینۃ نِ الکواکب۔(صافات:6) ہم نے آسمان کو حسین ستاروں سے سجا رکھا ہے۔
ولقد جعلنا فی السماء بروجاً و زینٓھا للنٰظرین۔(حجر:16) ہم نے آسمانوں کو کئی حصوں میں بانٹ کر اسے اہل نظر کیلئے سجا دیا ہے۔
ہے کوئی لطف اٹھانے والا، پسند کرنے والا اور دیکھنے والا؟
اگر یہ درست ہے کہ قرآن کے اولین و آخرین مخاطب ہم ہی ہیں تو سنئے قرآن کیا کہتا ہے:
اللہ الذی خلق السمٰوٰت والارض وانزل من السماء ماء فاخرج بہ من الثمرات رزقاً لکم و سخرلکم الفلک لتجری فی البحر بامرہط و سخرلکم الانھٰر و سخرلکم الشمس و القمر دائبینج و سخر لکم الیل والنھار۔واٰتکم من کل ما سالتموہ،(ابراھیم:32 تا 34) اللہ وہ ہے جس نے زمین و آسمان پیدا کئے جس نے بارشیں برسا کر تمہارے لئے پھل تیار کئے۔سمندروں میں الٰہی قانون سے تیرنے والے جہاز تمہارے قبضے میں دئیے۔نہریں تمہارے لئے مسخر کیں۔گھومنے والے آفتاب و ماہتاب پر تمہیں حکمران بنایا اور لیل و نہار کا سلسلہ تمہارے بس میں کردیا، نیز تمہیں وہ سب کچھ دیا جس کی تمہیں تمنا تھی۔
اس آیت میں لکم (تمہارے لئے) کا لفظ پانچ دفعہ استعمال ہواہے، مطلب یہ ہے کہ یہ تمام نعمتیں مسلمانوں کیلئے تھیں اور مسلمانوں کے واسطے سے باقی عالم انسانیت کیلئے، لیکن آج سورج ، بجلی، روشنی اور اثیر کو فرنگ نے مسخر کر رکھا ہے۔سمندروں کی مہیب سطح پر ان کی حکومت ہے، باغات و انہار کے مالک وہی ہیں۔آبشاروں اور نہروں سے وہی لوگ بجلی نکا ل کر دنیا کو روشنی و طاقت دے رہے ہیں اور ہم بجلی کے لیمپ کو دیکھ کر صرف حیران ہوتے رہتے ہیں۔یہ کیوں؟ اس لئے کہ :
واللہ لایھدی القوم الظٰلمین۔(بقرۃ:258) اللہ (اللہ کا قانون )اپنے اوپر ظلم توڑنے والوں کو کبھی سیدھی راہ پر نہیں ڈالتا۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/acquire-resources-be-best-ummah/d/102315