ڈاکٹر عظمیٰ خاتون، نیو ایج اسلام
(حصہ اول)
18 جولائی 2023
خلاصہ
عالم اسلام میں قرآن کی اولیت ہمیشہ سے ہی مسلم رہی ہے۔ عہد حاضر میں علماء اسلام نے ایک نئے انداز میں قرآن کو مصدر رشد و ہدایت کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی وجہ سے، یہ مذہبی و قانونی سمیت مروجہ روایت کے متعدد پہلوؤں اور دیگر شعبوں کے لیے، ایک چیلنج بن گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں، قرآن اور اس کی تفسیروں کے حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر، مختلف طریقے، قیاس آرائیاں، مفادات کے زور اور ٹھوس نتائج کا انکشاف ہوا ہے۔ قرآن کی مختلف تشریحات، اسلام کی فکری تاریخ کے مختلف مراحل سے تعلق رکھتی ہیں، اور ان کے اندر اسلامی فکر کی نشوونما کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس مقالے میں، راقم نے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے، کہ کس طرح مختلف مفسرین نے قرآن کے سیاق و سباق کو پرکھنے اور اس پر نظر ثانی کرنے کی کوشش کی۔ اور میں اس سلسلے میں کافی اختصار کے ساتھ مختلف نسوانی نقطہ ہائے نظر کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گی۔
تعارف
یوں معلوم ہوتا ہے کہ علم تفسیر اسلام کے آغاز سے ہی موجود رہا ہے، لہذا، علم تفسیر پرایسی کئی کتابیں لکھی گئیں جن میں تفسیر قرآن کے مختلف طریقے اور اصول و ضوابط بیان کئے گئے۔ مثال کے طور پر ابن عباس (متوفی 68ھ/687ع) اسلام کے ابتدائی دور میں، اس موضوع پر ایک اتھارٹی کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ اس کے بعد سے قرآن مجید پر بے شمار تفسیریں لکھی گئی ہیں۔ تفاسیر قرآن کی ان بے شمار کتابوں کی اصل اہمیت اس حقیقت پر مشتمل ہے، کہ یہ اسلام کے عروج و ارتقاء کے مختلف رجحانات کی عکاسی کرتی ہیں۔ قرآن مسلمانوں اور تمام انسانوں کے لیے ہدایت کی کتاب ہے، تاکہ وہ ایک باوقار زندگی گزار سکیں اور دنیا و آخرت میں ابدی سعادتوں سے مالامال ہو سکیں۔ اس نے وہ معیارات فراہم کیے ہیں اور کرتے رہیں گے، جن کے لیے مسلمان کوشش کرتے رہے ہیں، اور قرآن ہمیشہ ان کے عقیدے اور اعمال کو ایک صحیح سمت میں لگانے کی کوشش کرتا رہے گا۔
لہٰذا، علمائے اسلام نے قرآنی آیات میں موجود پیغام حق کو سمجھنے کی ہمیشہ کوششیں کی ہیں۔ نت نئے خیالات اور افکار و نظریات کے پیدا ہونے سے، انسان کی عقل کا افق وسیع ہوتا ہے، اور ثقافتی رواتیں قائم ہوتی ہیں اور ان کی اصلاح ہوتی ہے۔ جب اسلام بہت کم عرصے میں، عرب کی سرحدوں کو عبور کر کے ان علاقوں میں پہنچا جہاں کی زندگی مختلف تھی، اور جوں جوں پیغمبر اسلام ﷺکے زمانے سے فاصلہ بڑھتا گیا، حالات کے مطابق قرآنی پیغامات کی نئے سرے سے تعبیر و تشریح ضرورت شدید ہوتی گئی۔ قرآن کے سیاق و سباق کی تشریح، نہ صرف عالم، بلکہ عام لوگوں اور ایک وسیع سامعین کے لیے بھی ہوتی ہے۔ تعلیم کے پھیلاؤ اور جمہوریت جیسے سیاسی نظام کے عروج سے، انسانوں کی اہمیت پر لوگوں کی آگاہی بڑھ گئی ، جس کے نتیجے میں ایسے محاوروں اور ایسی اصطلاحات کا استعمال کیاجانے لگا جو عام لوگوں کے لیے قابل فہم ہو۔ دنیا بھر کے مختلف حصوں میں بسنے والے مسلمانوں کو مخاطب کرنے کی ضرورت اور جدید مذہبی مفکرین کو جو چیلنجز درپیش ہیں، وہ دونوں مایوس کن اور فکر و نظر کے طالب ہیں،جن کی وجہ سے جدید انداز اور مارڈن پیرایہ بیان میں، تفسیر قرآن لکھنا ضروری ہو گیا ۔
اب مسلمانوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے مسلمان کا قرآن سے تعلق کیسا ہونا چاہیے – جو مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب ہے اور جس پر اسلام کی بنیاد ہے۔ چونکہ قرآن، مسلمانوں کے لیے، خدا کا کلام ہے، اور اسلام کے اخلاقی اور قانونی نظاموں کی سب سے بڑا مصدر و سرچشمہ ہے، اس لیے مسلمان قرآن کی روشنی میں ، اپنے عصری خدشات اور ضروریات کا حل تلاش کرنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ اس عمل میں، بہت سے سوالات پوچھے جاتے ہیں، جو ان کے جوابات کی طرح چیلنجوں سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اس طرح کے سوالات کو جدید اسلامی فکر کا ایک لازمی حصہ اور ایک اہم مثبت تعاون سمجھا جانا چاہئے، جو وقت کے ساتھ ساتھ نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں۔ یہ حقیقت، کہ اب مشکل ترین سوالات پوچھے جا رہے ہیں، اس شعبے میں مزید کام کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس مقالے میں، پہلے تفسیر قرآن کے عروج و ارتقاء اور پھر اس سیاق و سباق کا جائزہ لیا گیا ہے، جس میں آج قرآن کے اخلاقی و قانونی احکام کی تشریح پر نظر ثانی کی جا رہی ہے۔
روایتی تفسیر قرآن کا مختصر تعارف
قرآن اللہ (سبحانہ و تعالی) کی آخری کتاب ہے، جو اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، قرآن کا لغوی معنی ہے "بار بار پڑھنا" اور حقیقتاً، قرآن ہی روئے زمین پر واحد کتاب ہے، جس کی مسلسل اور بار بار تلاوت کی جاتی ہے۔ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اور اس کی تعلیمات درست، مطلق اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد انسانیت کی راہنمائی کرنا ہے، لھٰذا، پوری اسلامی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ مسلمانوں نے اس کی تعلیمات پر بہت زیادہ توجہ دی ہے۔ اس کے نتیجے میں قرآنی علوم کی کئی شاحیں نکلیں، مثلاً، لغات القرآن، اعراب القرآن، اعجاز القرآن وغیرہ۔ اسلامی علوم میں، تفسیر کا علم سب سے پہلے سامنے آیا اور قرآن کا پہلا مفسر اللہ تعالیٰ خود ہے، اور تفسیر کا پہلا ماخذ،خود قرآن ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
" اس کی وضاحت ہمارے ذمہ ہے۔"
قرآن مجید کے دوسرے مفسر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور تفسیر کا دوسرا ماخذنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات ہیں ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا:-
"دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ، یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وه غور وفکر کریں ۔"
یہ جان کر تعجب نہیں ہونا چاہیے، کہ علم تفسیر کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی ہو چکا تھا۔ درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک قرآن کی تفسیر بیان کرنا بھی تھی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآن کی تفسیریں حفظ کر لی گئیں، اس وجہ سے اس دور میں اس موضوع پر ایک کتاب بھی مرتب نہ ہو سکی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام نے قرآن کی تفسیر و تشریح میں اپنا کردار ادا کیا، اور علم تفسیر زیادہ منظم اور ترقی یافتہ شکل میں ہمارے سامنے آئی۔ ان میں چار خلفائے راشدین (632تا 660ع) (ابوبکر، عمر، عثمان، علی،) نیز عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن مسعود ، ابی بن کعب ، زید بن ثابت، ابو موسیٰ اشعری اور عبداللہ بن زبیر کو بھی اس میں شامل کیا۔
ان دس صحابہ میں سے اکثر تفسیری اقوال عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ہیں۔ لہٰذا یہ مانا جا سکتا ہے کہ قرآن کے پہلے حقیقی مفسرین دراصل صحابہ تھے۔
صحابہ کے بعد صحابہ کے شاگردوں نے تفسیر قرآن کی ذمہ داری سنبھالی۔ عکرمہ، مجاہد، عطا، حسن بصری، سعید بن جبیر، مسروق، ضحاک اور قتادہ کو، اس دور میں علم تفسیر میں سند کی حیثیت حاصل تھی۔ تابعین کے دور کے بعد، تفسیر کی اصل تالیف و تصنیف کا مرحلہ شروع ہوا۔ تفسیر پر سب سے اہم کام محدثین کا مانا گیا، جنہوں نے اپنی حدیث کی کتابوں میں تفسیر کا بھی باب شامل کیا۔ اس لیے اس دور میں علم تفسیر کو علم حدیث کی ہی ایک شاخ سمجھا جاتا تھا۔
تفسیر کی تاریخ کا اگلا مرحلہ یہ تھا کہ اب علم تفسیر کو حدیث سے الگ کر دیا گیا، اور صرف اور صرف تفسیر قرآن پر ہی کتابیں تصنیف کی جانے لگیں۔ اس دور کی چند اہم تفسیریں یہ ہیں: تفسیر ابن جریر الطبری، تفسیر ابن ابی حاتم، تفسیر امام حاکم، تفسیر ابن حبان وغیرہ۔ ان تفسیروں میں سے تفسیر ابن جریر الطبری یعنی "جامع البیان فی تفسیر القرآن" کو سب سے مستند اور افضل مانا جاتا ہے۔ علمائے کرام کا حکم ہے کہ جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں، ان تک قرآن کا پیغام ان کی اپنی زبانوں میں ترجمہ و تفسیر کے ذریعے پہنچایا جائے۔ وہ اس کا جواز قرآن کی اس آیت سے اخذ کرتے ہیں:
’’ ہم نے ہر ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے ۔‘‘
تفسیر کے کاموں میں مشغول صحابہ کرام کے پاس قرآن کو سمجھنے اور اس کی تفسیر کرنے کے متعدد ذرائع تھے: قرآن کی وہ آیتیں جو کسی دوسری آیت کی وضاحت کرتی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہونے والے علوم، زبانی اور عملی دونوں طور پر؛ اور آیات قرآنیہ کے مفاہم و مطالب پر ان کی اپنی سمجھ۔ وہ قرآن کی زبان، وحی کے مجموعی سماجی تناظر، پیغمبر اسلام ﷺکے طرز فکر، اور عربوں کے اصولوں، اقدار اور رسوم و رواج سے بھی واقف تھے، اور ان تمام چیزوں نے، انہیں امت مسلمہ کے ابھرتے ہوئے ’مروجہ عمل‘ کے مجموعی فریم ورک کے اندر، قرآنی احکامات کو سمجھنے کے لیے ایک منفرد بنیاد فراہم کی۔
تفسیر قرآن کی ضرورت مسلمانوں کی دوسری نسل یعنی تابعین کے دور میں اور بھی بڑھ گئی، جن کے درمیان اختلاف رائے کی کثرت تھی۔ اس طبقے میں نئے مذہبی (اسلامی) ماحول میں پرورش پانے والے صحابہ کے بچے، اور نئے نئے اسلام میں داخل ہونے والے وہ لوگ بھی شامل تھے، جو عربی بولنا جانتے تھے اور جو عربی بولنا نہیں بھی جانتے تھے۔ نیز، ان کے دور اور پیغمبر اسلام ﷺکے زمانے کے درمیان جتنا فاصلہ زیادہ ہوگا، تفسیر قرآن کی ضرورت اتنی ہی شدید ہوگی۔ ابتدائی طور پر تفسیر میں قرآن کے بعض غیر واضح اور مبہم الفاظ یا فقروں کی مختصر وضاحت کر دی جاتی تھی، اور آیات کے فقہی احکام اور قرآنی حکایات کی تشریح کر دی جاتی تھی۔
تفسیر قرآن کی ابتدائی پیشرفت تیسری / نویں صدی تک جاری رہی، جس کے آخر تک پورے قرآن کی تفسیر کا کام مکمل کر لیا گیا تھا۔ اس وقت تک تفسیر ایک مکمل علم اور فن کی شکل میں ہمارےپاس دستیاب ہو چکا تھا ۔ اس دور کے بعد، تفسیر قرآن میں کئی دیگر پہلوؤں کا اضافہ ہوا، اور اس میں مذہبی، فقہی، مذہبی و سیاسی اور صوفیانہ مباحث بھی شامل کر لیے گئے۔ تیسری/نویں صدی میں اسلام کے اندر الگ الگ فقہی، مذہبی یا مذہبی و سیاسی مکاتب فکر کو پختگی حاصل ہوئی۔ اگرچہ پہلی/ساتویں صدی میں سنی، شیعہ یا خارجی تفسیر جیسی تو کوئی بات نہیں ملتی، لیکن ہم ان اصطلاحات کا استعمال تیسری/نویں صدی میں ضرور دیکھ سکتے ہیں۔ تب سے لیکر آج تک، یہ تینوں گروہ اپنا اپنا تفسیری کام جاری رکھے ہوئے ہیں، جن سے ان کے قانونی، مذہبی اور مذہبی و سیاسی نظریات کی نمائندگی ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ، تفسیر کی ایسی بھی کتابیں سامنے آئیں، جن میں فقہ ، الہیات یا روحانیت پر خاص توجہ دی گئی تھی۔ ان تفسیری کاموں کا دائرہ وسیع، اور نقطہ نظر متنوع تھا۔ تفسیر کے حوالے سے متعدد نقطہ ہائےنظر کے موجود ہونے کے باوجود، یہ بات قابل توجہ ہے، کہ مسلم مفسرین نے قرآن میں اخلاقی اور قانونی احکام کی تعبیر و تشریح میں مسلمانوں کی بدلتی ہوئی ضروریات پر غور نہیں کیا، خاص طور پر باضابطہ فقہ اور تفسیر کے شعبوں کے قیام کے بعد۔ اخلاقی اور قانونی نصوص کی تشریح کے سلسلے میں، زیادہ تر مفسرین نے صرف ان کی لغوی اور قانونی تشریحات سے ہی کام چلایا۔ ایک قانونی -لغوی نقطہ نظر کو ہی زیادہ درست مانا جاتا رہا۔
روایت پسند تفسیر کو چیلنجز
بیسویں صدی کے دوران متعدد علمائے اسلام اور مفکرین نے تفسیر قرآن کے نئے نئے طریقے پیش کرنے، اور اسے مسلمانوں کی ضروریات سے جوڑنے کی کوشش کی۔ ان نظریات کی، روایت پسند علماء نے مخالفت کی اور ایسے نظریات کو اسلام مخالف قرار دیا۔ یہ علماء جو روایتی طورپر مروج تفسیری اصولوں سے آگے بڑھنا چاہتے تھے، نسبتاً مضبوط رہے، جن میں محمد عبدو، محمود شلتوت (متوفی 1963) اور محمد الغزالی (متوفی 1996) جیسے علماء کے نام شامل ہیں، اگرچہ وسیع تر مسلم آبادی پر ان کا اثر کچھ محدود رہا۔روایت پسند علماء نے خاص طور پر مخالف چیلنجوں کا خیال کیا، جیسے کہ اسلام، اس کی ابتدائی تاریخ اور اس کے بنیادی ماخذ (قرآن و حدیث)، اور ساتھ ہی ساتھ سیرت النبی وغیرہ۔ اگناز گولڈزہر (متوفی 1921) اور جوزف شیچٹ (متوفی 1969) جیسے اسلام کے مغربی اسکالروں نے، احادیث کی صداقت اور تاریخی معتبریت کے حوالے سے، مسلمانوں کے مفروضوں کا مطالعہ کیا اور ان پر سوال اٹھایا ۔ یکلخت، اسلامی قانون کے مصادر و ماخذ میں سے ایک کے بے بنیاد ہونے کا دعویٰ کیا گیا، اور صدیوں سے قائم اس کی معتبریت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔
نہ صرف غیر مسلم مغربی اسکالروں نے اس طرح کے تنقیدی مطالعات پیش کیے، بلکہ ان اسکالروں سے متاثر ہونے والے مسلمانوں نے بھی یہی رخ اپنایا، جنہیں روایت پسند حلقوں میں اسلام کی روح کے لیے خطرہ مانا گیا۔ زیادہ تر روایت پسند علماء اس طرح کے نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس کے بجائے، انہوں نے سرسری طور پر اس طرح کے مطالعوں کوبیکار، لغو یا 'مستشرقی' کہہ کر مسترد کر دیا۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، متعدد مغربی اسکالروں کی اسلام پر تنقید نے، ایک بڑی تعداد میں بیسویں صدی کے مسلم دانشوروں کی جانب سے، مزید تنقیدی نقطہ نظر اختیار کیے جانے کی حوصلہ افزائی کی، جنہوں نے حدیث، فقہ، تفسیر اور یہاں تک کہ الہیات سمیت اسلامی مضامین کے بے شمار مفروضوں کی از سرنو تحقیق کے حق میں، ایک مضبوط دلیل پیش کی۔
دور جدید میں تفسیر
قرآن کی تفسیر میں جدید نقطہ نظر کے حوالے سے، پہلا نام ہندوستان کے شاہ ولی اللہ (متوفی 1176/1762) کا ملتا ہے۔ شاہ ولی اللہ کی زندگی میں کئی بادشاہوں نے دہلی کا تخت سنبھالا۔ جیسے جیسے داخلی اور خارجی قوتیں مغلیہ سلطنت پر دباؤ ڈالتی گئیں، اس کی طاقت بھی کم ہوتی گئی۔ داخلی طور پر، مغلوں نے سکھوں اور ہندوؤں کے ہاتھوں علاقے کھوئے۔ اور خارجی طور پر مغل حکمرانوں کو، شاہ فارس اور افغانی روہیلوں کے چیلنجوں کا سامنا تھا۔ سلطنت مغلیہ مسلسل زوال پذیر ہوتی اور ٹوٹتی رہی، یہاں تک کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دوران، برطانوی سامراج کی صورت میں، اس کی جگہ مغربی طاقت نے لے لی۔ جیسا کہ بلجون نے کہا، شاہ ولی اللہ نے اپنی اصلاحی تحریک شروع کرکے، ہندوستان میں مسلمانوں کے اس بدلے ہوئے حالات پر ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے تقلید (ابتدائی علماء کی اندھی تقلید) کو ترک کر دیا اور اجتہاد (آزاد فیصلہ) اور قرآن کی تشریح میں نئے افکار و خیالات کےاستعمال کی حمایت کی۔
روایات کی اندھی تقلید سے دور ہونے پر زور دیتے ہوئے، شاہ ولی اللہ نے اصول تفسیر سے متعلق، کچھ اصولی نظریات کو رد کر دیا۔ قرآن کا ایک ایسا شعبہ جہاں انہیں یہ ممکن نظر آیا، وہ نسخ (ایک حکم کو دوسرے کے ذریعہ منسوخ کرنا) تھا۔ مثال کے طور پر انہوں نے فرمایا، کہ اگر کسی صحابی یا تابعی نے کہا کہ فلاں آیت کسی خاص موقع پر یا کسی واقعہ کے بعد نازل ہوئی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ آیت اس موقع کانتیجہ ہے ۔ ان کے نزدیک اس صورت میں صحابہ کرام اور تابعین صرف یہ بیان کر رہے ہیں کہ اس آیت کا پیغام کیا ہے۔ تفسیر کے بارے میں شاہ ولی اللہ کے اصلاحی نظریات اگرچہ اکیسویں صدی کے نقطہ نظر سے الگ نہیں ہیں، لیکن اس وقت وہ ایسا ہی لگتا تھا۔ خاص طور پر، وہ انیسویں صدی کے آواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں کافی بااثر پائے گئے۔
جدید دور میں قرآن کی ازسرنو تشریح کی شاید سب سے زبردست کوشش، ہندوستان کے سر سید احمد خان (متوفی 1316/1898) کی تھی، جنہوں نے تفسیر القرآن کے نام سے قرآن کی چھ جلدوں پر مشتمل ایک تفسیر شائع کی۔ سرسید کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو نئے ابھرتے ہوئے، متحرک اور انتہائی طاقتور علم، اقدار اور اداروں کے مطابق اپنی روایت، ورثے اور طرز فکر کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں مغربی اور اسلامی طرز فکر کے درمیان خلیج وسیع ہو گئی تھی اور جو مسلمان مغرب کے تعلیم یافتہ تھے یا مغربی تعلیم سے متاثر تھے، وہ اس وقت کے علمائے کرام کے مذہبی بیانئے کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ اس وسیع خلیج نے بہت سے مسلمانوں کے لیے بطور مذہب کے، اسلام کی مطابقت کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں اور بالخصوص مصر میں، نپولین کے قلیل المدتی حملے (1798تا1801) کے ذریعے، مغربی تہذیب کو بے دریغ عام و تام کیا گیا۔ اسلام کے بعض اداروں کی مطابقت، اور کسی حد تک ضرورتِ تبدیلی پر بحث پیدا ہوئی اور جاری رہی۔ اصلاح اور تبدیلی کے حامیوں کو، علماء کی شدید مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
قاہرہ میں ازہر(جسے بعد میں یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا)، جیسے بااثر روایت پسند اداروں کے علماء کو، اصلاح پسندوں کے نظریات میں، اسلام کو کمزور کرنے کا ایک پوشیدہ 'نوآبادیاتی' ایجنڈا نظر آیا۔ اس مزاحمت کے باوجود، انیسویں صدی کے اواخر میں، محمد عبدہ (متوفی 1323/1905) نے قرآن کی تفسیر پر رائے دینا شروع کی، اور علم تفسیر پر ایک سلسلہ وار لیکچر دیا، اور ایک جزوی تفسیر بھی لکھی، جسے بعد میں، ان کے شاگرد محمد راشد ردا (متوفی 1354/1935) نے شائع کیا ۔ یہ تفسیر، تفسیر المنار اگرچہ سید کی تصانیف کی طرح سخت نہیں تھی، تاہم ان کے نقطہ نظر میں نئی تھی۔ عبدہ نے روایتی تفسیر میں استعمال ہونے والے کچھ طریقوں اور اصولوں پر تنقید کی۔ انہوں نے روایتی تفسیر کے لغوی اور جذباتی انداز بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی مشق 'خشک ہے،اور خدا اور اس کی کتاب سےدوری ہے'۔
اسی طرح، انہوں نے فقہاء کی طرف سے، قرآن کے فقہی احکام پر زور دیے جانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، کہ قرآن میں فقہی موضوعات پر سب سے کم بحث کی گئی ہے۔ عبدہ نے اپنی تفسیر میں نحوی و صرفی، لسانی اور قانونی نقطہ نظر سے آگے بڑھ کر، مسلمانوں کی زندگی میں پیش آنے والے عصری مسائل کی روشنی میں، قرآن کی تفسیر پیش کرنے کی کوشش کی۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ تفسیر قرآن کا مقصد، مطلوبہ مفہوم یعنی قانون سازی، عقائد اور احکام میں مضمربنیادی وجوہات کو اس انداز میں بیان کرنا ہے، جس سے لوگ قرآن کی طرف راغب ہوں۔
ایک انتہائی بااثر اسلامی مفکر اور صحافی، ابوالکلام آزاد (1888-1958) ، اسلام کی روحانی، اخلاقی اور سماجی تعلیم پر روشنی ڈالتے ہیں، اور قرآن کی تعلیم سے فرد اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کی مختلف قوموں کے عروج و زوال کے بارے میں عمومی اصول اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔آزاد، ان کو قرآن کی تعلیم سے جوڑنے کا موقع کبھی نہیں گنواتے، اور اکثر وہ صرف نص ِقرآن سے حاصل ہونے والے سبق کی نشاندہی پر ہی اکتفاء کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ہندوپاک کے مفکر امین احسن اصلاحی (1906تا97) ، اپنی تفسیر تدبر قرآن میں، نظم کے اصول کے مطابق قرآن کو منظم انداز میں پڑھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی بات اس بنیادی امر سے شروع کرتے ہیں کہ مسلم قرآنی تفاسیر کی مختلف اقسام ہیں: روایت پسند، فقہی، لغوی، لسانیاتی اور قانونی۔ اگر تفسیر کی ان تمام مختلف اقسام میں، کوئی ایک عنصر بھی مشترک ہے، تو اسے ایٹمائزیشن (atomization) قرار دینا ضروری ہے۔ اس سے ہماری مراد قرآن کی آیت کو کسی دوسری آیت کی مدد سے سمجھنا ہے۔
-----
English Article: Interpretations (Tafsir) Of The Qur’anic Context: A Discourse – Part One
URL: https://newageislam.com/urdu-section/interpretations-tafsir-quranic-discourse-part-one/d/133199
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism