ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
7 مارچ 2025
کرۂ ارض پر بسنے والے ہر مسلم کا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام ہی وہ واحد نظام حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق مسائل و معاملات کا حل فراہم کرنے کا متحمل ہے۔ ایمان کا تعلق حق پرستی، معاملہ فہمی، مصلحت پروری اور صلح پسندی سے براہ راست ہے۔ اسلام انسانی جان کے احترام کا قائل، امن، صلح و سلامتی کا داعی دین ہے۔ شر،فتنہ، فساد، قتل و غارت گری،معاشرتی بد امنی کی جڑ کو کاٹنا اس کی اولین ترجیحات میں شامل ہے مگر متنازعہ مسائل کے حل میں یہاں تشنگی کیوں ہے؟ مسلمانان ہند کے موجودہ کرب اور اس کے تدارک کے تناظر میں یہ سوال سامنے رکھ رہا ہوں۔
مسلمانان عالم امت واحدہ ؍ امت وسط، ایک جسم، ایک قلب،ا یک روح کی مانند اپنی ساخت اور شناخت رکھتے ہیں۔ اعتدال، میانہ روی، صبر و تحمل، ایثار اور انسانیت سازی کو معاملہ فہمی میں جو ترجیح اسلام میں حاصل ہے یہ سب تحریروں اور طرز خطابت میں تو بدرجہ اتم موجود ہیں۔ مگر بوقت مفاہمت، حکمت و مصلحت دیکھنے میں ایسا کیوں نہیں ملتا؟ فقہ اسلامی پر کسی اعتراض کا نفاذ ناممکن ہے ۔البتہ پوشیدہ عوامل میں مسلم نفسیات کا خوف اور اس سے مالیات کے موجودہ نظم کے درہم برہم ہوجانے کے خطرہ کا دخل کہیں زیادہ دکھائی پڑتا ہے؟ اہل نظر کے لئے ایک سوال قائم کر رہا ہوں؟
۱۹۴۹ میں جس دن بابری مسجد میں مورتیاں رکھ دی گئیں اور اس عمل کو رد نہ کیا گیا بلکہ فتنہ بننے کے لیے چھوڑ دیا گیا وہ دن اکابرین ملت کے لئے مستقبل کی سیاست کو سمجھنے کا دن تھا؟ تبدیلیاں وقت لیتی ہیں کچھ حالات و واقعات، کچھ متعلقہ فریق کی لغزشوں کا انتظار اور کچھ فریق ثانی میں جذبات و احساسات میں تلاطم پیدا کرنے کے لئے درکار وقت۔ یہ سب اچانک نہیں ہو جاتا؟ ایسے میں اگر متاثرہ فریق بر وقت حکمت عملی بنانے میں چوک جاتا ہے تو پھر وہ ہو تا ہے جو ہوا اور ہو رہاہے؟
آج ہندوتو، ہندو ر اشٹرواد، سناتن راشٹریہ دھرم اور مسلم دور اقتدار کی زیادتیاں،ہندو نفسیات کا زمینی نظریہ بن چکی ہیں ۔ کچھ اس کے ظاہری مخالف، کچھ خاموش، کچھ تیل اور تیل کی دھار پرنظر رکھے ہوئے ہیں، کچھ ایساہو جائے اسکے خواہشمند تو کچھ اس سے انکو علیحدہ نہ سمجھا جائے، اس کو یقینی بنانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ آج اکثر ہندو گھرانوں میں شیر خوار بچے مسلم منافرت اپنے خون، خمیراور گھٹی میں لیکر پیدا ہو رہے ہیں!
بابری مسجد کی شہادت، آئین و قانون کی بر جستہ پامالی، قانون کی عمل آوری کا جنازہ، مہذب ہندوستانی معاشرے اور موقع پر موجود سرکاری مشینری کی مکمل پسپائی اور کارروائی سے انکار میں بڑا سبق ہے، اس کےبعد یکطرفہ مسلم کش فسادات، ہزاروں بے گناہ ہلاکتیں، انکوائری کمیشن کی سفارشات کو نہ عام کرنا، نہ ان پر عمل کیا جانا، سزاؤں اور معاوضہ ادائیگی کے نام پر بھونڈا مذاق سب کچھ ہمارے سامنے چلا آ رہا ہے۔ بابری مسجد کے حق میں تمام شواہد کے باوجود عدالت میں ٹائٹل سوٹ کا’ آستھا‘ کی بنیاد پر فیصلہ اور اس میں آئندہ کے فیصلوں کے لئے نظیر و پیش بندی کے واضح اشاریے! بطور فرض کفایہ معصوم مسلمانوں کے ذریعہ کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ مگر صبر و تحمل، برداشت،میانہ روی پر مبنی عمل و اخلاق کے باوجود اس طرح کے فتنوں کا متواتر بڑھتے جانا؟ کاشی، متھرا، بھوج شالہ، سنبھل، بدایوں اور جونپورکی جامع مسجد جیسے مطالبے ،یہ سلسلہ کہاں جا کر رکےگا؟
آج صورتحال یہاں پہنچ چکی ہے کہ اذان کی آواز، نماز کا اہتمام، شرعی شکل و شبیہ کی بےحرمتی، ڈاڑھی پر نازیبا جملے و حملے، اسکا نوچاجانا، مدارس پر دہشت گردی کی آبیاری اورتبلیغ کے مجرمانہ الزامات، خانقاہوں پر بڑھتی بے لگام دست درازی، قرآن کریم اورنبی ٔ کریم کی کھلےعام بےحرمتی وتوہین، بلڈوزنگ کے یکطرفہ واقعات، مسلم بستیوں کا چند گھنٹے کے نوٹس پر زمین دوزکیا جانا، یکطرفہ کاروائیاں، مساجد و مقابر کےانہدام کی متواتر آتی خبریں، ائمہ مساجد کے بے دردی سے کئے گئے قتل کے واقعات،اکثریتی ہندو معاشرے میں مسلم کے لئے انتہائی مذہبی منافرت، فرقہ واریت، تعصب اور رواداری کا جیسے اٹھ سا جانا، نقل مکانی و نقل و حمل و سفر میں اضافہ پاتی دقتیں، کاروباری بائیکاٹ کی اپیلیں، عام چلتے پھرتے مسلم کاروباری لوگوں کو دھمکیاں،تعلیمی اداروں میں مسلم بچوں کے ساتھ نا زیبا سلوک، مسجدوں کے نیچے کھدائی اور نئے تنازعات کا بڑھتے ہی چلے جانا، پورے مسلم معاشرے میں خوف وہراس کا دور دورہ حتیٰ کہ اب ہندو متشدد عناصر کا مسلم حلیہ بناکر ایسی سرگرمیوں میں شمولیت جو آگ میں گھی کا کام کرے، ایسے میں کیا یہ سب یوں ہی چلنےدیا جائیگا یا اس کے تدارک کی کوئی حکمت عملی ممکن ہے؟
ملک کےاندر ایک بڑا اکثریتی و مسلم طبقہ آج بھی درمیانی راستہ چاہتا ہے۔اس کا اخلاقی مطالبہ و جواز بھی رکھتا ہے۔ امن، صلح اور بھائی چارگی کی صدیوں پرانی روایت کی باقیات کو باقی رکھنے کےحق میں دکھائی دیتا ہے۔ فی الوقت ہمارے یہاں یہ بحث یا اس سے متعلق مکالمہ کیوں سرے سے موجود ہی نہیں ہے؟
مسلمانان ہند کے تمام طبقات موجودہ نہ گفتہ بہ کیفیت اور اس کےبڑھتےاثرات سے تنگ، فکر مند اور بیجا خوفزدہ ہیں کوئی راستہ کوئی حل چاہتے ہیں۔ کئی مساجد جو متنازعہ بن گئیں یا بنا دی گئیں ہیں اور جن کے حوالے سے راست مطالبات گشت کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے شرعی وفقہی آراء واضح ہوں؟ موجودہ حالات کی بے لگامی و سنگینی، فرقہ واریت کا بڑھتا زہر، ہندو مسلم رشتوں میں بد اعتمادی کی انتہائی کیفیت اور اس سے بڑھتی پیچیدگیوں کے ازالےکے تناظر میں اسلام کی کیا رہنمائی ہے؟ وہ کیا حل پیش کرتا ہے کسی اجماع یا اجتہاد کے ہم متحمل ہو سکتے ہیں یا نہیں؟
میں مانتا ہوں کہ حکو مت بحیثیت قومی آئین ساز ادارہ قانون سازی جس کا دائرہ اختیار ہے، جس نظم کو وہ ساتھ لیکر چلتی ہے، تمام قومی اکائیوں کواس میں مساوی نمائندگی ؍ ترجمانی کا حق حاصل ہے۔ آج ہندوستان ہندو راشٹر نہیںبلکہ دارالامن و دارالا سلام ہے۔ اس میں مکمل مذہبی آزادی ہے۔ سب کی آئین کی نظرمیں مساوی حیثیت ہے۔ اسلام امن وآشتی کا دین ہے۔ معاشرے میں بقائے باہم کی بنیاد پر صلح، سلامتی کا قائل اور داعی ہے ۔ایسے میں اگر چند مستند حلقوں سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اگر مسلمان کچھ ہندو مطالبوں سے حکومت کے حق میں دستبردار ہو جائیں یا ان کی منتقلی کی کوئی صورت نکل آئے تو کیا اسکی فقہی کوئی بنیاد موجود ہےیا ہو سکتی ہے؟
۱۔ مسجد جو اللہ کا گھر ہے ایک بار جس جگہ وہ شرائط کے ساتھ تعمیر ہو گئی وہ جگہ تحت السراءسے عرش معلی تک مسجد ہے! کیا اس تناظر میں کسی ایسے شر کی جڑ کو کاٹنے کی غرض، مجبوری و مخصوص صورتحال کے مد نظر جس میں معاشرتی بد امنی اور فساد کا مستقل اندیشہ بنا ہوا ہے، متعلقہ فریق کی جان اور امان دونوں نشانے پر ہیں اور وہ اپنے دفاع کے لائق بھی نہیں تو کیا ایسے کسی فیصلے کا کیا جانا ممکن ہے، جس کے تحت ایسی کسی متنازعہ مسجد کی منتقلی یا حکومت کے حق میں دستبرداری کا شرعی و فقہی جواز بن سکے؟
۲۔ کیا امن،صلح، سلامتی کے وسیع تر قومی پس منظر میں فتنہ، فساد اور قتل و غارتگری پرباہمی، سرکاری و آئینی قدغن لگانے کے حوالے سے حکومت وقت کے ساتھ کوئی معاہدہ یا معاملہ سازی ممکن ہے؟
۳۔ اگر تمام کرہ ٔارض مصلیٰ ہے ۔ہروہ جگہ جوفقہی اعتبار سے پاک و صاف ہے۔ وہاں مصلیٰ قائم کیا جا سکتا ہے تو کیا ایسے میں کسی بڑے فتنے کی جڑ کو کاٹنے کےلئے کسی غیر معمولی ایسے اقدام کا جواز موجود ہے جو آئینی، اخلاقی اور معاشرتی استحکام کا جواز رکھتا ہو اورجس کے نتیجے میں امن عامہ اور رائے عامہ میں کسی بنیادی اصلاح عمل کو جواز حاصل ہورہا ہو؟
۴۔کیا کوئی ایساحل جو اسلام کےاس دعوے کا حق ادا کر سکے کہ اس کے پاس ہرمسئلےکا حل ہے۔ اسلام یعنی امن، صلح و سلامتی کا واحد راستہ! کیا یہ اسلام کی تعریف، دعوت و تبلیغ، اس کی وسعت و حقانیت کو پیش کرنے کا ایک نادر موقع نہیں؟
مندرجہ بالا سوالات عام مسلم ذہن میں پل رہے ہیں جن کو میں عام کر رہا ہوں ۔کسی کو تو ایک دن انہیں سامنے لانا ہی تھا۔ میں نےیہ جسارت اس لیے کی ہے کہ ایسے تنازعات مزید کسی سازش یا فتنے کا شکار نہ ہوں۔ اس پر غور و فکر شروع ہو اور صاحب فکر و نظر اسکو زیر بحث لائیں۔ میرا پختہ ذاتی موقف یہ ہے کہ براہ راست مسجد کی دستبرداری مندر کی تعمیر کے لئے دینا فقہی بنیاد پرقطعاًنا ممکن ہے۔ البتہ حکومت کےحق میں اس جگہ سے شرائط کے ساتھ دستبرداری کا شاید کوئی جواز نکل سکے؟ اس بحث کو در پردہ سازشوں سے بچانے کا مجھےیہ واحد راستہ لگا۔
7 مارچ 2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/intellectual-boldness/d/134812
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism