سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
26 جولائی 2022
یہ حقیقت ہے کہ اردو زبان
ہندوستان میں پیدا ہوئی اور وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرکے ہندوستان کی ایک مقبول
زبان بن گئی۔ انیسویں صدی میں ہندوستان میں اردو اتنی مقبول ہوئی کہ برطانوی حکومت
نے فارسی کو ہٹا کر اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا۔
اردو کی پیدائش اور
ارتقاء سے متعلق ماہرین لسانیات اور محققین اردو نے کئی نظریات پیش کئے ہیں۔ لیکن
سبھوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اردو کی تشکیل میں فارسی اور عربی کا کردار نمایاں
ہے۔یہاں تک کہ اردو کا رسم خط بھی فارسی اور عربی سے ہی مستعار ہے۔
اردو کے ارتقاء کے سفر پر
اگر ایک سرسری نظر ڈالیں تو ہم یہ دیکھیں گے
کہ اردو زبان کی تشکیل میں فارسی سے زیادہ عربی زبان کا اثر رہا ہے۔ مسلمان
خطہ ہند میں قبل اسلام دور سے ہی تجارت کی غرض سے آتے تھے اور ہندوستان کے ساحلی
علاقوں کیرالا،گجرات سندھ و مہاراشٹر کے ہندو عربی کے چند الفاظ سے بخوبی واقف
تھے۔ کیرالا میں دور نبوت ہی میں مسلمانوں نے ایک مسجد بھی تعمیر کر لی تھی جو آج
بھی چیرامن مسجد کے نام سے موجود ہے۔ اس کے بعد محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا اور
مسلمانوں کا سندھ کے علاقے میں عمل دخل بڑھا۔ ظاہر ہے مسلمانوں کے ہندوستان کے
مغربی جنوبی اور شمال مغربی خطوں کے لوگ عربی زبان سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتے
تھے۔اس دور میں ہندوستان کے طول وعرض میں کئی مخلوط بولیاں رائج تھیں جنہیں اپ
بھرنش کہتے ہیں۔ دسویں اور گیارہویں صدی سے ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں نے اپنی
فتوحات کو وسعت دینی شروع کی۔ ان کی زبان فارسی تھی۔ ان کی زبان کے الفاظ بھی
ہندوستانی بولیوں سے ملکر ایک نئی زبان کو شکل و صورت دینی شرع کی۔ چونکہ حکمراں
قوم کی زبان اور تہذیب مغلوب قوم پر غالب آجاتی ہے لہذا ہندوستان میں عربی فارسی
اور اپ بھرنش کے اختلاط سے جو نئی زبان ابھری وہ عربوں اور ایرانیوں کے رسم خط میں
لکھی جانے لگی اور بعد میں ریختہ اور پھر اردو کہلائی۔
چونکہ اردو زبان کی تشکیل
میں ایرانیوں سے زیادہ عربوں کا اثر ہے اس لئے اردو پر فارسی سے زیادہ عربی زبان
کا اثر ہے۔ چونکہ ایرانی حکمراں ہندوستان میں کوئی نیا مذہب نہیں لائے تھے اس لئے
ان کا اثر اردو پر کم تھا جبکہ عرب کے لوگ ہندوستان میں ایک نیا مذہب بھی اپنے
ساتھ لائے تھے جسے اسلام کہا جاتا تھا اور اس مذہب کا صحیفہ قرآن عربی زبان میں
تھا اس لئے ہندوستان میں اسلام کے ساتھ قرآن بھی مقبول ہوا اور قرآن کی عربی کا
گہرا اثر نئی زبان اردو پر پڑا۔ دسویں صدی می ہندوستان کے شمال مغربی علاقے ملتان
میں عربی اور فارسی کی مقبولیت کے متعلق ابن حوقل اور مسعودی نے اپنے سفرنامے میں
دسویں صدی میں سندھ کے علاقے میں عربی اور فارسی کی مقبولیت کے بارے میں لکھتے ہیں
۔۔"سندھ میں مسلمانوں اور ہندوؤں میں وضع اور معاشرت اس قدر
یکساں ہے کہ تمیز کرنا مشکل ہے۔ دونوں قوموں میں نہایت اخلاق و ارتباط قائم ہے ۔
عربی و سندھی دونوں زبانیں رائج ہیں اور ملتان میں ملتانی کے ساتھ فارسی زبان بولی
جاتی ہے۔"۔۔
اس اقتباس سے یہ پتہ چلتا
ہے کہ دسویں صدی تک ہندوستان کے مغربی علاقے میں اردو ایک نمایاں شکل اختیار نہیں
کر سکی تھی بلکہ ملتانی اور سندھی زبانیں اردو سے پہلے سے رائج تھیں۔ اردو ایک
واضح شکل میں پنجاب کے علاقے میں گیارہویں صدی میں نظر آنے لگی اور ایسا عربی
فارسی کھڑی بولی کے اختلاط سے ہوا۔ٹی گراہم بیلی اپنی کتاب اے ہسٹری آف دی اردو
لٹریچر میں لکھتے ہیں۔":۔۔
۔"اردو 1027 کے لگ بھگ لاہور میں پیدا ہوئی۔ قدیم پنجابی اس
کی ماں ہے۔ اور قدیم کھڑی بولی سوتیلی ماں۔برج سے براہ راست اس کا کوئی رشتہ
نہیں۔مسلمان سپاہیوں نے پنجابی کے اس روپ کو جو ان دنوں دلی کی قدیم کھڑی بولی سے
زیادہ مختلف نہ تھا اس کو اختیار کیا اور اس میں فارسی الفاظ و فقرے شامل کر
دئیے۔"
لہذا یہ بات وثوق سے کہی
جا سکتی ہے کہ اردو کا آغاز ہندوستان کے شمال مغربی خطے سے ہوا جہاں ایرانی
حکمرانوں اور عربی تاجروں کا زیادہ عمل دخل تھا۔ اردو گیارہویں صدی عیسوی میں اسی
خطے میں نمایاں شکل میں ابھری اور پھر مسلم حکمرانوں اور مسلمان سپاہیوں کے ساتھ
پورے ملک میں پھیل گئی۔
بعد کے دور میں ایرانی
حکمرانوں کے ساتھ فارسی زبان و ادب خصوصاً فارسی شاعری کو ہندوستان میں کافی
مقبولیت ملی اور فارسی کی مقبول عام شعری صنف غزل نے اردو کی غزلیہ شاعری پر
موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح پر گہرا اثر ڈالا۔ لیکن چونکہ اردو کے ابتدائی دور میں
اردو پر عربی زبان کا زیادہ اثر رہا اس لئیے اردو زبان کی ساخت پر عربی کا گہرا
اثر ہے۔ اردو کے تقریبا 80 فیصد الفاظ عربی سے آئے ہیں یا پھر عربی الفاظ سے نکلے
ہیں۔ یہی نہیں اردو کے بہت سے الفاظ قرآن کے توسط سے اردو میں داخل ہوئے ہیں۔ ذیل
میں چند الفاظ درج کئے جاتے ہیں جو قرآن سے براہ راست ۔اردو میں آئے ہیں۔
رب۔ خلیفہ۔ رسول۔ اف۔
ہزل۔ زلزلہ۔ شہاب ثاقب۔ معلم۔ کرب۔ شراب۔ سیر۔ لہو و لعب۔ قرطاس۔ مجمع البحرین۔
مابعد۔ ماقبل۔ مرد۔ سلسلہ۔ قوم۔ حکم۔ عالم۔ اعتبار۔ شکر۔ غصہ۔ شہر۔ نباتات۔ ناقص۔
تقوی۔ نور۔ ظلمت۔ قلب۔ معروف۔ تفریق۔ کتاب۔ ادراک۔ جزا۔ زلف۔ تہلکہ۔ کرسی۔ شئے۔
صنم۔ورق۔ مال۔ ریا۔ ضیافت۔ قلم۔ تنازع۔ ساعت۔ اساس۔ موالی۔ محبت۔ سوئے ظن۔ محبت۔
غم۔ سفینہ۔ قسط۔ اجل۔ شکوہ۔ لمحہ۔ فلانا۔ تفاوت۔ فتور۔ فوج۔ عرش۔ قتل۔ صف۔ تہجد۔
محیط۔ قادر۔ اجنبی۔ روح۔ شفاعت وغیرہ۔
یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ
تمام عربی اور قرآنی الفاظ کو درج کرنے کے لئے ایک دفتر درکار ہوگا۔ اردو میں عربی
کے اتنے زیادہ الفاظ کی موجودگی کی وجہ یہی ہے کہ عربی اور عربوں کا ہندوستان کے
عوام کے ساتھ ارتباط ایرانیوں سے زیادہ قدیم ہے۔ بعد میں فارسی زبان و تہذیب نے
بھی اردو زبان پر گہرے اثرات مرتب کئے جس کی وجہ سے اردو میں فارسی تراکیب کا چلن
عام ہوا اور ترکیبوں کا استعمال اردو زبان کی ایک خصوصیت بن گیا۔ لخت جگر, کارخیر,
مرد مومن, گنبد خضری۔ تقدیس مشرق، درد دل، شاعر مشرق۔وغیرہ۔ عربی کی تراکیب بھی
اردو میں مقبول ہو گئیں بلکہ اردو اسلوب کا جزولاینفک بن گئیں جیسے رطب و یابس،
طوعاًکرھا،، لہو و لعب، ، وغیرہ۔ ان کے علاوہ کئی مقبول عام محاورے جو اردو میں
مستعمل ہیں وہ بھی دراصل عربی سے قرآن کے توسط سے آئے ہیں جیسے ہوا نکل جانا۔ گدھے
کی پیٹھ پر کتابیں, گدھے کی آواز, اندھیرے میں تیر چلانا, رجماً بالغیب جڑ کٹ
جانا, آنکھوں میں ٹھنڈک پڑنا۔ اف کرنا، وغیرہ۔ قرآن کے تراجم نے بھی اردو کے اسلوب
وزبان پر بڑا اثر ڈالا۔ چونکہ قرآن مسلمانوں کے لئے ایک آئیڈیل کتاب ہے اس لئے
ہندوستان کے مسلمانوں نے اس کے اسلوب کو بھی اپنی زبان میں اتارنے کی کوشش کی۔
چونکہ قرآن کے ابتدائی تراجم میں مترجمین نے عربی کی ساخت اور الفاظ کی ترتیب کو
ہی بحال رکھا اس لئے اردو داں عوام نے بھی اپنی اردو تحریروں میں الفاظ کو عربی کی
ہی ترتیب میں رکھنا احسن جانا۔ ۔ اس طرح اردو کا ایک نیا اسلوب وضع ہوا جو فطری
اسلوب نہیں تھا۔ انیسویں صدی کے اخبارات میں بھی کچھ خبروں اور مضامین اسی قرآنی
اسلوب میں ملتے ہیں۔ بعد کے دور میں اردو کا اپنا اسلوب نکھر کر سامنے آیا۔ اور
رفتہ رفتہ اردو کے ڈکشن اور اسلوب پر فارسی کا غلبہ زیادہ اور عربی کا کم ہوا۔ بہر
حال پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان کی اردو میں عربی زبان کا اثر پھر سے زیادہ دیکھا
جارہا ہے جو سعودی عرب کے پاکستان پر اقتصادی تہذیبی اور مذہبی اثرات کی وجہ سے
ہےجبکہ ہندوستان کی اردو پر یندی کا اثر بڑھا ہے کیونکہ ہندی یہاں کی سرکاری زبان
ہونے کے علاوہ عوام کی زبان میں ہندی کے الفاظ کا اثر زیادہ دیکھا جارہاہے۔ اس سب
کے باوجود یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ عربی زبان اردو کے بنیادی ڈھانچے
کی حیثیت رکھتی ہے۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism