ارشد عالم،
نیو ایج اسلام
6 دسمبر 2022
ہندوستان میں مسلمانوں کو
مٹانے کی خواہش رکھنے والوں کو تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور اس فضول خبط سے
باز آنے کی ضرورت ہے۔
اہم نکات:
1. ہر ہفتے، کوئی نہ کوئی
ویڈیو ایسی سامنے آ جاتی ہے جس میں کسی مسلمان کو کسی مال، ہسپتال یا ٹرین میں نماز
پڑھتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔
2. ہندوؤں کا ایک طبقہ
بدنیتی کے ساتھ ایسی ویڈیو وائرل کرتا ہیں، اور خوف کا ماحول پیدا کرتا ہے، گویا یہ
ہندوستان میں کوئی نئی چیز ہے۔
3. ہندو مذہبی تقریبات
بھی عوام سطح پر منائی جاتی ہیں۔ اس انداز میں کہ تمام ہندوستانی مذاہب نجکاری کے خلاف
ہیں۔
4. تو پھر، مسلمانوں کی
رسم معمولات کو الگ کرنے کی یہ کوشش کیوں؟ کیا یہ مسلمانوں اور ان کے مذہب کو مٹانے
کی منظم کوشش ہے؟
5. لیکن اگر ایسا ہو بھی
جائے تو کیا مسلمانوں کو واقعی فنکارانہ، ثقافتی، لسانیاتی اور طنز و مزاح کے نمونوں
سے مٹایا جا سکتا ہے جو کہ ہندوستان کی پہچان ہے؟
------
Namaz
By Patient's Attendant At Hospital Goes Viral, Police Say Probe On/ Photo: NDTV
---------
گویا ہندوستان میں مسلمان ہونا
جرم بن گیا ہے۔ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب ہم کسی مسلمان کو محض اس لیے مارے جانے
کی خبر نہ سنتے ہوں کہ وہ اسپتال، شاپنگ مال کے کسی کونے میں یا ٹرین کے ڈبے میں نماز
پڑھ رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں جمعہ کی نماز یا دیگر مواقع پر مسلمانوں
کے ذریعے سڑکوں اور ٹریفک میں خلل پیدا کیے جانے کو ٹھیک مانتا ہوں۔ دراصل میں نے اس
کے خلاف لکھا ہے اور آئندہ بھی لکھتا رہوں گا۔ اگر مسئلہ مذہبی رسومات کی عوامی سطح
پر ادائیگی کو محدود کرنے کا ہے تو میں اس کے لیے ہمشہ تیار ہوں۔
The
Gigantic Puja Pandal In Baramunda, Bhubaneshwar
---------
لیکن ہندوستان میں صرف مسلمان ہی
واحد قوم نہیں ہے جو اپنی مذہبیت ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ ہندو اور دیگر مذہبی برادریاں
اس کام میں شاید سب سے آگے ہیں۔ اس کی صرف
ایک مثال وہ مختلف قسم کے پوجا کی تقریبات ہیں جو کسی بھی شہر کو اپنی گرفت میں لینے
کے لیے کافی ہیں۔ اگر ہم اسی چی آواز میں رات بھر چلنے والے جاگ راتا کو دیکھیں جن
کا انعقاد اب ہر علاقے اور محلے میں معمول بن چکا ہے، تو یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں
ہو گا کہ ہندو مذہبیت کا مظاہرہ اب پورے سال جاری رہتا ہے۔ اس طرح کی نمائشوں اور عوامی
مقامات پر قبضے کو شاید ہی کوئی منفی نظر سے دیکھتا ہو، جب کہ فرش کے کونے میں نماز
پڑھنے والے اکیلے مسلمان کو حقارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی اس مسلمان
کی ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر پوسٹ کر دے تاکہ تمام انتہا پسند ہندو مل کر اس کی مذمت
میں لگ جائیں۔ ٹرین یا سڑک یا ہسپتال کے کسی کونے میں نماز پڑھنے والا مسلمان عوام
کے لیے کس طرح پریشانی کا باعث ہو گیا؟ اگر کوئی دہلی سے علی گڑھ کے لیے ٹرین پکڑے
تو اسے روزانہ مسافروں کو اونچی آواز میں بھجن گاتے ہوئے پائے گا لیکن میں نے ابھی
تک ایسی کوئی ویڈیو گردش کرتے ہوئے نہیں دیکھی۔
سبق بہت واضح ہے اور اس کا مقصد
مذہبی معمولات کے انعقاد کو کم کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کی وجہ محض مسلمانوں کی عوامی
سطح پر موجودگی سے پریشان ہونا ہے۔ یہ واضح ہے کہ ہندوؤں کے ایک طبقے کو اسلام اور
مسلمانوں کی عوامی سطح پر موجودگی سے پریشانی بڑھ رہی ہے۔ یہ اس بات سے بھی واضح ہے
کہ اسلامی معمولات کی نمائش کی کسی بھی اطلاع پر پولیس کس تیزی کے ساتھ کارروائی کرتی
ہے۔ اور ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ جب تک حکومت کا اشارہ نہ ہو پولیس اتنی تیزی
سے کام نہیں کرتی ہے۔ ان میں سے بہت سی ریاستی حکومتوں نے درحقیقت مسلمانوں کو اپنے
گھروں اور مساجد کے اندر (سڑکوں پر نہیں) عبادت ادا کرنے کا مشورہ دیا ہے لیکن ہندوؤں
کی اسی طرح کی زیادتیوں پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ یہ چیزیں کچھ دہائیوں پہلے ناقابل
تصور تھیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے جیسے ہم اس میں آگے بڑھتے جائیں گے، شاید ہندوؤں
کو مسلمانوں کی باقاعدہ مذہبی عبادات، مثلاً عید کی نماز کے ساتھ بھی مسائل پیدا ہونے
لگیں گے، جو ہمیشہ عوام میں ہی ادا کیے جاتے رہے ہیں۔
یہ اسلام کو گھروں میں محصور
کرنے کی خواہش کے سوا کچھ نہیں، جو کہ ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے کردار کی وجہ سے آغاز
سے ہی ہمیشہ عوامی سطح پر رہا ہے۔ ایسا کرنے کی انتھک کوششوں کے باوجود، ترکی اور الجزائر
جیسے مسلم ممالک میں اسے گھر کے اندر محصور نہیں کیا جا سکا۔ لیکن آج ہندوستان میں
ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک ایسے مرحلے میں پہنچ چکے ہیں جہاں اسے گھر میں محصور کرنے کا
صرف مطالبہ ہی کافی نہیں ہیں۔ ملک کے اندر ایسے طبقے ہیں جو مذہب کو مکمل طور پر چھوڑ
کر بہت خوش ہیں۔ اس طرح کی ویڈیوز کو جس بے تکلفی کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے اس سے
ہم اور کیا سمجھیں؟ اس کی واحد وجہ شاید یہ ہے کہ مسلمانوں کو عوامی سطح پر اپنی رسومات
ادا کرنے پر پریشان کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں، عوامی مقامات پر اسلامی رسومات کی ادائیگی
سے ہندوؤں کا ایک طبقہ برہم ہو رہا ہے۔
آئیے اس امکان کا تصور کریں کہ
یہ طبقہ مسلمانوں کو عوامی زندگی سے ہٹانے میں کہاں کامیاب ہوتا ہے۔ تصور کریں کہ ہندوستانی
سڑکوں سے داڑھی یا برقعہ غائب ہو چکے ہیں۔ تصور کریں کہ ہر مسلمان صرف اپنے گھر کے
اندر یا مسجد کے اندر نماز پڑھ رہا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ عید اور محرم کی تقریبات کو
بھی مخصوص جگہوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ کیا پھر ہندوؤں کا یہ طبقہ خوش ہوگا؟ شاید
نہیں. تب انہیں ملک میں مسلمانوں کی موجودگی سے مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اگر وہ مذہب اسلام
کے تمام ڈھانچوں کو منہدم کرنے کا مطالبہ کرنے لگیں تو کیا ہوگا؟ کہ تمام مساجد اور
درگاہوں کو گرا دیا جائے؟ اگر وہ یہ مطالبہ کرنے لگیں کہ مسلمانوں کے لیے اس ملک میں
کوئی جگہ نہیں ہے۔ کہ وہ ہندوستان چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔
اب تصور کریں کہ وہ اس کارنامے
کو انجام دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودگی کا بظاہر کوئی
نام و نشان نہیں ہے۔ اردگرد کوئی مسلمان نظر نہیں آتا۔ کیا اس سے یہ ملک مسلم آزاد
ہو جائے گا؟ یقینی طور پر نہیں۔ تو پھر یہ ہندو سینکڑوں سالہ مسلم تاریخ کے ساتھ کیا
کریں گے: ایک ایسی تاریخ جس نے کئی طریقوں سے اس ملک کے تانے بانے کو بُننے میں اہم
کردار ادا کیا ہے۔ وہ اس ملک کی زبان کا کہا کریں گے، جس میں اردو یا فارسی یا عربی
یا ترکی کی ملاوٹ ہے۔ کیا یہ ہندو صابن کا لفظ بولنا چھوڑ دیں گے، جو فارسی زبان کا
ہونے کی وجہ سے مسلم ہے؟ کیا وہ لوگ جو ہندوستانی پارلیمنٹ کو پسند کرتے ہیں وہ روایتی
کرتہ-شیروانی پہننا چھوڑ دیں گے اور دوبارہ ننگے جسم کی طرف لوٹ جائیں گے، جیسا کہ
گاندھی نے کیا تھا؟ کیا وہ مصالحوں کا استعمال بند کر دیں گے، جن میں سے اکثر مسلمانوں
کی سرزمین سے حاصل کیے گئے تھے؟ در اصل ہندوستان کے اعتبار سے ایک واحد اچھی سبزی بیگن
ہے۔ کیا وہ سب ترک کر کے صرف اسی سبزی ہر اکتفاء کرنے کو تیار ہیں؟ اور اب سے اہم بات،
وہ وقت کے بارے میں کیا کریں گے؟ کیا ہندو تہذیب اپنے وقت کے دوران تصور کی طرف لوٹ
جائے گی اور ریاست کے کاروبار کو آگے بڑھانے کے لیے ایک منفرد کیلنڈر وضع کرے گی؟
دنیا کے ایک ملک نے اس کی کوشش
کی۔ اسپین نے اپنے مسلم ماضی سے جان چھڑانے کی کوشش کی اور ناکام ہی رہا۔ پوری کوشش
کے باوجود وہ مسلمانوں کو اپنے درمیان سے فنا نہیں کر سکے۔ ان کی زبان عربی کی بہت
زیادہ مرہون منت ہے، خاص طور پر ان کے کھانوں کا۔ فرڈینینڈ اور ازابیلا انجیلی بشارت
کے لیے ہیرو ہو سکتے ہیں، لیکن اسپین آج صرف ان دونوں کی شادی کے بارے میں نہیں ہے
بلکہ اور بھی بہت کچھ ہے۔ یہ یورپی اور اسلام ثقافتوں کے سنگم کا نام ہے جسے ان کے
فن، ثقافت، کھانوں اور زبان میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کو مٹانے
کی خواہش رکھنے والوں کو تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور اس فضول فتنہ سے باز
آنے کی ضرورت ہے۔ صدیوں کی آبیاری ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ ایک ثقافت، ایک تہذیب کا
حصہ بن جاتی ہے۔ مسلمان ہر ہندو کے اندر ہے جیسا کہ ہندو ہر مسلمان کے اندر ہے۔ مسلمانوں
سے نفرت اپنے نفس سے نفرت کے سوا کچھ نہیں۔ ہندوؤں کے اس طبقے کو خود سے اس نفرت کی
وجہ تلاش کرنے اور اپنی اصلاح کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودگی
اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ایک بھی مسلمان زندہ ہے۔
English
Article: Can There Be An Indian Future Without Muslims?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism