New Age Islam
Tue Apr 22 2025, 03:53 PM

Urdu Section ( 13 Jan 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Indian Muslims: A Conscious National Unity مسلمانان ہند: ایک باشعور قومی وحدت

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

12جنوری،2024

مسلم عمائدین،اداروں، تنظیموں اور سیاست سے براہ راست جڑے لوگوں کی طرف سے 22جنوری 2024 ء کو ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے تعلق سے جو متواتر آراء آرہی ہیں ان سے یہ گمان ہوتاہے کہ جیسے ہندوستان کامسلمان کوئی دودھ پیتا بچہ ہے جس کے پاس نہ عقل ہے او رنہ فہم او رہر وقت یا تو کسی اپیل کے انتظار میں رہتا ہے یا کسی بیانیے کے! اس غلط فہمی سے باہر آئیے!ہر شخص اپنی فہم وادراک کے مطابق صاحب نظر ہے!کب اس کو کیا کرناہے اس سے وہ بخوبی واقف ہے! یاد رکھیں کسی بھی معاملے میں غیر ضروری تجاوز اور تصرف پیچیدگیوں میں اضافہ کرتا ہے، بدگمانیوں کو جنم دیتاہے اور پرامن فضا کو گدلا کرتا ہے! اپیلوں،مشوروں اور نصیحتوں کا جوتانتا آج کل بندھا ہوا ہے قطعاً غیر مناسب ہے۔ اس سے معاشرے میں غیر ضروری خوف او ربے یقینی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے، آپ کا فی مشورے دے چکے بس اب تھم جائیے۔

مسلمانان ہند ایک مہذب قومی وحدت ہیں جس کے رو ز مرہ کے رویے اس بات کے غمار ہیں کہ وہ حالات کی نزاکت کو بھی سمجھتے ہیں،کب اور کیا کیا جانا چاہئے او رکیا نہیں، اس کا بھی ادراک رکھتے ہیں۔ یہ وہ طرز معمول ہے جس کا ہم سب روز مشاہدہ کرتے ہیں۔یہ وہ غالب وجہ ومنطق ہے کہ بار ہا تمام تر اکساوے کے باوجود ملک کے طول وعرض میں ماحول پر امن ہے۔ازراہ کرم غیر ضروری مقروضے قائم کرکے عوام کے ذہن میں ایسے خدشات پیدا کرنا جن کی کوئی ضرورت نہیں ان وسوسوں کو جنم دینا ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں!

ذرا ایک جائزہ لیتے ہیں کہ 22/ جنوری کو کیا ہونے جارہا ہے؟ اس حوالے سے برادران وطن کے کیا جذبات واحساسات ہیں اور کس طرح پورا ملک اس موقع کی مناسبت سے ایک مخصوص کیفیت میں مبتلا ہے؟ ایک بھائی،ساتھی اور پڑوسی ہونے کے ناطے ہمارا رویہ کیا ہو نا چاہئے،اس سے کہیں زیادہ ہم سے اس وقت توقع کی جارہی ہے۔ ان سوالات کے جواب اور ان کے پیچھے کی منطق پرنظر ڈالتے ہیں۔

ان سطور کو لکھتے وقت میں سب سے پہلے اپنے برادران وطن کے دل او رسینے میں اتر کر اس کی کیفیت کو سمجھنا چاہوں گا۔بھگوان رام جو سناتن عقیدے کے مطابق ایشور کا اوتار ہیں، ان کی ہندو سماج اور اس کے مذہبی عقیدے میں کلیدی حیثیت ہے۔ ان کاکردار، سیرت، اخلاقیات، شخصیت اور تعلیمات کو وہاں اولیت حاصل ہے، بالکل ویسے جیسے کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کے لئے ان کے مذہبی پیشوا کو ہے۔ اس نکتے کو ذہن میں رکھیں۔ دوسرانکتہ یہ ہے کہ عقیدہ ثبوت وشواہد کا محتاج نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا تعلق براہ راست ایمان او رآستھا سے ہوتاہے۔ ایمان اور آستھا نفس انسانی کی نس نس میں خون کی طرح دوڑتے ہیں او روہ جذبات و احساسات کی ایسی کیفیات کو جنم دیتے ہیں جن میں جنون وجذبات سب سے آگے نکل جاتے ہیں۔

سناتن عقیدہ یہ ہے کہ ایودھیا کی نگری ہے، ان کا وہاں جنم استھان ہے۔ اس کی ایک جگہ کو وہ گربھ گرہ یعنی ان کی جائے پیدائش مانتے ہیں۔ ایودھیا مندروں کا شہر ہے۔14برس کا ونواس او رراون کا ودھ کرکے جب رام واپس ایودھیا لوٹتے ہیں تو جشن منایا جاتاہے۔ اسی خوشی میں پورا سناتن سماج ہرسال دسہرہ مناتاہے۔ راون جو شیطانیت کی علامت ہے دیوالی پر اس کے پتلے جلائے جاتے ہیں اس طرح رام کی ہندو سماج میں جو اہمیت ہے وہ سمجھی جاسکتی ہے۔

پانچ سو سال سے زائد ان کے جنم استھان پر ان کے مندر کی جگہ مسجد کی تعمیر کے تعلق سے ایک تنازعہ چلا آرہا تھا جس نے ہندومسلم رشتوں میں کڑواہٹ گھولی او ربات انتہائی کیفیات تک گئی۔عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے نتیجے میں وہ استھان ہندو سماج کو واپس مل گیا جہاں اب رام کا عالیشان مندر تعمیر ہوا ہے۔ اس لئے اکثریت کے جذبات و احساسات میں تلاطم اور تشکر کی مشترکہ کیفیت ہے، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ایک بھائی، ساتھی، پڑوسی او رہم وطن ہونے کے ناطے ہمارے رویے کے تعلق سے حکومت وقت،سرکاری وغیر سرکاری ادارے سے،مہذب معاشرہ او ربرادران وطن مسلمانان ہند جن کے ساتھ صدیوں سے یہ تنازعہ چل رہا تھا ان سے خیر سگالی اورخوشگواری کی توقع رکھتے ہیں۔

یادرکھیں قوموں او رمعاشروں کی زندگی میں کبھی کچھ ایسے لمحے آجاتے ہیں جن میں جہاں ایک لغزش صدیوں پر بھاری پڑتی ہے تووہیں اس کے برعکس کوئی خوشگوار قدم یا پہل کتنی صدیوں سے چلی آرہی مخاصمت کو مستقل رفاقت میں تبدیل کرجاتی ہے۔آج پورا ہندوسماج او رپورے ملک کا ماحول ایسی ہی کیفیت میں مبتلا ہے۔ ہمارا آج کا رویہ ہر برادروطن کے گھر میں موضوع بحث بنا ہواہے! خدشات،بدگمانیاں او رغلط فہمیاں بہت زیادہ ہیں۔مثبت نہ کے برابر ہے! پھر کچھ حلقے ایسی چنگاریاں لگانے پر بضد ہیں جن سے ان کے ناپاک ہدف پورے ہوں، پر امن فضا مکدر ہو، اشتعال پیدا ہو، اس کے شعلوں پر عزت وآبرو اور جان ومال کو فتنہ وفساد کی بھٹی میں جھونکا او رجلایا جاسکے او ران پراپنی روٹیاں سینکی جاسکیں۔

وطن عزیز کی اکثریت کے مہذب معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مشتعل کرنے والی ہر روش پر قدغن لگا کر رکھے۔وہیں مسلمانان ہند اس دین کے پیروکار ہیں کہ جو امن، صلح اور سلامتی کا داعی اور جودین کامل ہے اور جس میں فتنہ وفساد کرنے، اکسانے، اس کے تعلیم وترغیب دینے اور اس کی جڑ کو کاٹنے پر زور دیا گیا ہے۔ اے محسن انسانیت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقوں اس وقت تمہارا یہ امتحان ہے کہ تم آقا کی سیرت اور ان کے اسوہئ حسنہ کے مطابق وہ اخلاق پیش کردو جو دین کی دعوت بن جائے اور ہمارے اصل کردار کی نوید! مانتا ہوں دل زخم خوردہ ہیں ہزاروں جانیں اس تنازعہ کی نذر ہوئیں ہیں، نفسیات بار بار مجروح ہوئی ہے۔مگر اصول یہ ہے کہ اپنے موقف پرپوری ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ لڑا جائے،عدالت کے سامنے رکھا جائے، اس کی چست پیروی کی جائے جو اس حوالے سے یقینا کی گئی، پھر جو فیصلہ آجائے اس برملا اعلان کے بعد کہ عدالت کا ہر فیصلہ ہمیں منظور ہوگا!اس کے بعد ہر زاویے سے اسے تسلیم اورا س کا احترام کیا جانا او راس کے ساتھ اپنے رویوں کو مستحکم رکھا جانا نہ صرف ملی، قومی وآئینی تقاصہ ہے بلکہ وعدے کی پاسداری کی اسلام میں جو اہمیت اور لازمیت ہے وہ اس مزاج کی متقاضی ہے جس میں وطن عزیز کا ہر شہری میز کی ایک طرف کھڑا ہو۔

اپنی قوم کے سامنے اس موقع پر ایک زاویہ رکھ رہا ہوں جس کو سمجھنا اور ذہن نشین کرنا شاید اس موقع پر مناسب ہوگا۔ کائنات کا واحد تن تنہا خالق و مالک اللہ رب ذوالجلال ہے، اس نظام فطرت میں صرف اس کا حکم چلتاہے۔کن فیکون پر محض اس حکم الحاکمین کی چلتی ہے بقیہ سب اس کے آگے سرنگوں ہیں۔ بیشک ہر شئے اس کی منشا ومشیت کے تابع ہے۔ وہ شکست میں سے فتح نکالنے پر قادر ہے! فتح کو شکست میں تبدیل کرنے پر قادر ہے! اقتدار ہوتے ہوئے حاکموں کو محکومیت کے نظارے دکھا دیتا ہے۔ جیسے آج پوری عرب ومسلم دنیا ہے اور معذور و مجبور کو مضبوط ومعروف بنا دیتا ہے۔ جس کی مثالوں سے انسانی اور اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے۔دور آتے جاتے ہیں،نہ کوئی عروج مستقل ہے اور نہ ہی کوئی زوال، نشیب و فراز انفرادی، اجتماعی،ادارہ جاتی، ملی قومی وبین الاقوامی زندگی کی حقیقت ہیں۔ اگر ایمان مستحکم ہے تو مزاج میں توازن کارہنا فطری ودینی تقاضہ ہے!

بے وجہ اس موضوع پر رائے زنی، بیان بازی،بحث ومباحثے وتکرار سے بچیں یہ اعتدال،حکمت ومصلحت ومفاہمت کا وقت ہے، بردباری اور تدبر مشعل راہ بھی ہے اور زادراہ بھی!

12 جنوری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

--------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/indian-muslims-conscious-national-unity/d/131509

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..