New Age Islam
Sun May 18 2025, 06:49 PM

Urdu Section ( 19 Apr 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

This Era is Yours: A Call for India's Muslim Youth to Embrace Responsibility and Vision یہ دور تمہارا ہے

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

18 اپریل 2025

آج میں اس عام مسلمان کو سلام تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جس کے قومی و ریاستی سیاست وریاضت میں دعوے کچھ بھی ہوں مگر ہمارا نظام، اکثریت اور قومی ضمیر اس بات کا گواہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت و شخصیت کے اقتدار کے حصول اور ورائی میں ۲۵ کروڑ مسلمانوں کا کردار فیصلہ کن ہے۔ ہماری سیاست کے رخ میں اسکی موافقت یا مخالفت مرکزی کردار رکھتی ہے۔ کوئی اس کی موافقت سے کامیاب ہوتا ہے تو کوئی اس کی مخالفت سے اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کا سہرا اس عام مسلمان کی فطری سیاسی بصیرت کو جاتا ہے جس کا بھر پور استعمال وہ ووٹ ڈالنے والے دن کرتا ہے لیکن ملی المیہ یہ ہے کہ اس کی قیادت کے دعویدار آج تک ملت کے حق میں اس کا استعمال کرنے میں ناکام ہیں۔ مسائل کی نشاندہی انکا با وقار حل تلاش کرنا اور پھر اسے تراشنا دونوں کا ندہی انکا باو سیدھا تعلق ذمہ داران ملت سے ہوتا ہے۔ عوام تو ہمیشہ اپنا حق ادا کرتے آئے ہیں، آج بھی کر رہے ہیں مگر نتائج میں تشنگی اور مایوسی ہی ہاتھ آتی ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کے خود قائدین کے یہاں نہ کوئی مسئلہ ہے، نہ کوئی محرومی کا احساس اور نہ ہی کسی طرح کی بیزاری کا شائبہ! سابقہ تقریباً سات دہائیوں میں جونجی، جماعتی یا اداراہ جاتی حلقے سیاست اور اقتدار کے ایوانوں سے جڑے رہے ہیں ان کی فارغ البالی ماشاء اللہ مگر جہاں ملی حمیت، غیرت، ضمیر فروشی اور رات کے اندھیروں میں قوم کے سودے ہوئے ہیں ان کا تجزیہ اور ان پر تو سوال اٹھنے چاہئیں؟

 اسلام اعتدال کا داعی، معتدل مزاجی کا قائل ، میانہ روی کا مبلغ ، ہوس ، روی کا اور حیوانیت کی ہر شکل کا پہلا مخالف، غرباء پروری، مفلس الحال کی دادرسی، اپنی خوشی اور خوشحالی میں کمزور، نادار اور ناتواں کا پہلا حق رکھنے اور ادا کرنے والا دین ہے۔ کیا یہ خصوصیات ہماری نجی زندگی اور ہمارے طرز اخلاق و معاشرت میں اتنی جگہ رکھتی ہیں جتنا ان کا حق ہے۔ مضمون ضمنی ہے مگر اس کی نوعیت اور حوالہ کلیدی ہے۔ مسلم عوام میں نہ جذبے کی کمی ہے نہ ولولے کی ، نہ ایثار کی اور نہ ہی قربانی کی ہاں اگر دردمندان ملت میں اخلاص اور خدائے وحدہ لاشریک کو جوابدہی کا عملی احساس پیدا ہو جائے اور وہ جو کہیں ایمانداری اور امانتداری سے ویساہی کریں بھی تو کیا بات ہو۔ ہر دور کا حاکم یہ بخوبی جانتا ہے کہ ہمارا لیڈر وقت تو ملت کے نام پر مانگتا ہے مگرا ایجنڈا ذاتی ملتا فرمایا کا لیکر ملتا ہے۔

 میرے والد بزرگوار مولانا عبد المقتدر فرمایا کرتے تھے قوم کا مسئلہ حل ہو یا نہ ہو مگر قائد کے سب ہو جاتے ہیں نتیجے میں ملی مسائل چند قدم اور مزید پیچھے چلے جاتے ہیں ۔ آج ہی کی اگر بات کروں تو جب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ۲۵ کروڑ مسلمانان ہند کی طرف سے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر رہا تھا تو پھر اسی میں شامل شخصیات و ادارے علیحدہ مسلم فریق کیوں بنے ہیں؟ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا پیغام جاتا؟ با تیں استحاد کی ، اتحاد تو کیا ہوتا اشتراک بھی بطور ہدف حاصل نہیں ہو پاتا۔ ہمارے یہاں جب پھل تیار ہو جاتا ہے فصل کاٹنے کا وقت قریب ہوتا ہے تو ہمیشہ روایتی تفرقہ اور افراتفری معاملات کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ برسر اقتدار گروہ جب جس کی موافقت یا مخالفت سے اسے سیاسی فائدہ دکھائی دیتا ہے اس کا استعمال کر لیتا ہے۔ ایک کو قوم کا نمائندہ اور دوسرے کو منافق ملت بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ تعلق دونوں کا کہیں نہ کہیں وہیں ہوتا ہے۔ جو بیچارے اس زمرے سے باہر ہوتے ہیں وہ گناہ بے لذت والے حلیف و حواری کہلاتے ہیں۔ بات کڑوی ہے مگر زمین اس سے مختلف نہیں۔

مجھے بتائیے آزاد ہندوستان کی تاریخ میں شاہین باغ کا احتجاج پر امن احتجاج کی وہ بے مثال تاریخ ہے جس کو قومی و بین الاقوامی سح پر جو مقبولیت ملی اس کی کوئی دوسری نظیر نہیں کس طرح اس کا خاتمہ ہوا بھی تجزیہ کیجئے گا۔ تین طلاق پر طلاق احسن اور طلاق تفویض ( جس میں خاوند بوقت نکاح یا دوران ازدواج اپنی بیوی کو شرائط کے ساتھ علیحدگی کا اختیار دیتا ہے) کے شرعی جواز ہوتے ہوئے ہم مقدمہ ہار گئے۔ ایک مسجد کا مقدمہ ایسا لڑا کہ وہ تو گئی ہی آج ہزاروں پر سوال ہے ، وقف بل کے کا معاملے میں فریق بازی کا کیا جواز بنتا ہے۔ کتنی مسلم سیاسی جماعتیں بنیں۔ اور فنا ہوگئیں۔ انڈین یونین مسلم لیگ اور اس کی قیادت نے اقتدار میں ی با وقار حصے داری کا عملی نمونہ پیش کیا جو چھ دہائیوں سے محکم بنیادوں پر قائم  ہے۔ مت بھولیے آپ اپنی سیاسی جماعت کا نا رکھ لیں مگرمانی مسلم لیگ ہی جائے گی۔

مسلم سیاسی جماعت اور طریقہ کار کے عنوان سے ۱۹۹۵ میں قومی آواز میں شائع ایک مضمون میں ناچیز نے لکھا تھا کہ اگر مسلمانان ہند میں اس بات پر باہم اتفاق ہے کہ آزاد ہندوستان میں علیحدہ مسلم سیاسی جماعت اور قومی مسلم قائد ہمارے تمام مسائل کا حل ہے تو جماعت اور اس کا عملی کردار مسلم لیگ کی شکل میں کیرالہ میں موجود ہے۔ بنا شرط اپنی ذاتی انا کو دفن کر کے سب مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملت تو بہانہ ہے ذاتی مقصد نشانہ ہے۔ آج مسئلہ یہ بھی ہے کہ جن مخصوص حلقوں نے سابقہ چھ دہائیوں میں قوم کے نام پر سب کچھ حاصل کیا یا انہیں ملا وہ اب منظور نظر نہیں رہے۔ سیکولر دور نے ملت کو سچر کمیٹی دی جبکہ اقتدار میں رہنے والے مخصوص و محدود مسلم حلقوں کی ذاتی زندگیاں کڑوی زمینی حقیقت کی آئینہ دار ہیں۔

مجھے بتائیے اس سب میں عوام کی خطا کہاں ہے۔ فساد یا احتجاج  ہوں تو قربانی کا بکرا کا یہ بنیں اور پھر سالوں مقدمے بھگتیں، اہل خانہ یہاںوہاں ، جہاں تہاں دھکے کھائیں، اپنے گھر، کاروبار، معمولات زندگی داؤ پرلگا ئیں ۔ میں یہاں ان تمام شخصیات ، اداروں تنظیموں، رضا کار حلقوں اورمخیر حضرات کو سلام تحسین پیش کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتا ہوں جنھوںنے اپنے ہاتھ ان مستحقین کی طرف بڑھائے مگر بات یہاں مجموعی بنیادوںپر ہو رہی ہے۔ اداروں کو موروثیت اور احساس ملکیت کھا رہا ہے سیاست کوآپسی انا ، تفرقہ اور افراتفری کھا رہی ہے، باتیں اتحاد، اشتراک و اتفاقرائے کی مگر عمل اسکے برخلاف قائدین کا ایک انبار ہے مگر ہماری "سیاسیمسجد" میں امام ہی امام ہیں جبکہ نماز مقتدی کے بنا ہوتی ہی نہیں۔ عوام میں کبھی انتشار نہ رہا، نہ اتحاد کی کمی رہی، نہ اشتراک کی تمام مسائل خواص،عمائدین، معززین ملی اداروں ، تنظیموں ، جماعتوں اور ان کی قیادتوں کے درمیان ہیں۔ اچھا محسوس ہوا جب پوری ملت آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔ ان کے موقف سے اتفاق یا اختلاف یہاں موضوع نہیں اتحاد ملت مضمون ہے۔ مگر عدالت عظمی پہنچتے پہنچتے پھر ڈھاک کے وہی تین پات فریق فریقین بن گئے۔ اس میں عوام کہاں۔

آخر میں اپنے نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہنا چاہتا ہوں کہ یہ دور تمہارا ہے، اس کے چیلنج تمہارے ہیں ، اسکی صعوبتیں تمہاری ہیں، مانا کہ تاریک اندھیرا ہے، روشنی بظاہر بہت دور دکھائی دے رہی ہے لیکن اگر با و قارمستقبل چاہتے ہو، عزت نفس کے ساتھ جینا چاہتے ہوتو فکری جمود سے اب باہر آنا ہی ہوگا قوی تعمیر میں اپنا کردار مزید نمایاں کرنا ہوگا  اور اکثریت میں جمہوری و تعمیری سوچ رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی منجدھار اور مشکل میں آپ ہیں تو پہل اور راستے خود تلاشنے اور تراشنے ہونگے، طاقتور طاقت کے زعم میں ہوتا ہے ہر دور میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے بھی جبر کا وقت ہوتا ہے تو بھی صبر کا بھی شور ضروری ہوتا ہے توکبھی خاموشی۔ وطن عزیزمیں دیگر اقلیتوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ہے اس سب کے ساتھ اپنے گردو نواح پر بھی نظر رکھو۔ دانشمندی اس میں ہے کہ اب اپنی صلاحیت کو ہر انتشار سے ہٹا کر تعمیر نو پر محنت کی جائے۔ کسی سے جھگڑنا نہیں، کسی کے بائیکاٹ کا اعلان نہیں۔ صرف اپنی اصلاح ، اپنی تعمیر اور اپنی آسانی پر تمام توجہ مرکوز رہے۔ اپنے روایتی زاویوں وردیوں کے از سر نو جائزے اور تجزیے کا یہ سنہرا موقع ہے مشکل حالات میں ہی حل نکلا کرتے ہیں ایسے میں نفسیات بھی کچھ انوکھا اور اچھوتا کرنے پر آمادہ ہوتی ہے۔ تنقید برائے تنقید اور الزام برائے الزام تراشی سے کنارہ کرتے ہوئے اجتماعی قومی وملی مفاد کو لحوظ رکھتے ہوئے گر بڑے مقصد کے حصول کے لئے چند قدم آگے اور چند پیچھے بھی کھینچنا پڑیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس ساری گردان میں جانے کا مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ ذمہ دار حلقے خود درستگی کی طرف بڑھیں ۔   عوام سے نہ شکایت کی گنجائش ہے اور نہ ہی اسے کسی بھی طرح قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے وہ آپ کے علاوہ کس سے امید کرے بتائیے بھی اور سوچئے بھی۔

----------------

English Article: This Era is Yours: A Call for India's Muslim Youth to Embrace Responsibility and Vision

URL: https://newageislam.com/urdu-section/india-muslim-embrace-responsibility-vision/d/135231

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..