نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
14 جنوری،2023
ہندوستان میں تین طلاق کے
بڑھتے ہوئے واقعات اور حقوق خواتین کی علمبردار تنظیموں کے ذریعہ تین طلاق پر پابندی
لگانے کے مطالبے کے مد نظر سپریم۔کورٹ نے 2017 میں ایک نشست میں دی ہوئی تین طلاق کو
نہ صرف باطل قرار دیا تھا بلکہ اس کے لئے تین سال کی سزا بھی مقرر کی تھی۔
اس قانون پر اسلامی تنظیموں
نے خوب واویلا مچایا تھا اور اس قانون کو اسلامی شریعت میں مداخلت قرار دیا تھا۔جبکہ
پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک میں زبانی طلاق کو قانونی منظوری حاصل نہیں ہے۔ طلاق
کے لئے فیملی کورٹ میں تحریری عرضی داخل کرنی ہوتی ہے۔
تین طلاق پر پابندی کے بعد
ہندوستان میں ایک نشست کی تین طلاق کے واقعات تقریباً ختم۔ہوگئے۔ لیکن ایک دوسری صورت
حال سامنے آئی۔ دارالقضا بہار و جھارکھنڈ میں طلاق و خلع کے لئے داخل کی گئی عرضیوں
سے یہ سامنے آیا کہ اب تین طلاق کے معاملے تو نہیں آرہے ہیں مگر اس کی جگہ خلع کی عرضیوں
میں اضافہ ہوگیا ہے۔بیوی کے ذریعہ طلاق کے لئے پیش قدمی کو خلع کہتے ہیں۔ ایسی صورت
میں نکاح توڑنے کے عوض بیوی کو اپنا حق مہر چھوڑنا پڑتا ہے۔ ایسا ایسی صورت حال۔میں
ہوتا ہے جب شوہر کا ظلم۔اور ناانصافی بیوی کے لئے ناقابل برداشت ہوجاتی ہے اور شوہر
اسے طلاق نہیں دیتا۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ اکیلے
بہار اور جھارکھنڈ میں سال 2020 ـ2021
میں خلع کے پانچ ہزار معاملے سامنے آئے ہیں جبکہ تین طلاق کا ایک بھی معاملہ نہیں آیا
ہے۔ اس اعداد و شمار سے یہ پتہ چلتا یے کہ مردوں نے تین طلاق پر نافذ ہونے والی پابندی
کی وجہ سے اپنا طرز,عمل بدل دیا ہے۔ اب وہ طلاق تو نہیں دیتے لیکن بیوی کو ذہنی اور
جسمانی اذیت دیتے ہیں تاکہ وہ خود خلع کا مطالبہ کرے اور وہ طلاق دینے کے الزام سے
بچ جائے۔
دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں
میں خلع کے معاملات زیادہ دیکھے گئے ہیں۔ بہار میں صرف 2022 میں خلع کے 578 معاملات
سامنے آئے ہیں جبکہ تین طلاق کا ایک بھی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ
تعلیم یافتہ اور خود کفیل عورتیں تکلیف دہ ازدواجی زندگی کو زیادہ دیر برداشت نہیں
کرتیں۔بنگلہ دیش کے شہروں میں بھی تعلیم یافتہ اور خود کفیل عورتیں خلع زیادہ تعداد
میں لے رہی ہیں۔
بہرحال جس طرح آل انڈیا پرسنل
لا بورڈ نے تین طلاق کی حمایت کی تھی اسی طرح اب وہ خلع کی مخالفت بھی کررہا ہے۔ اس
کا مؤقف یہ ہے کہ خلع میں عورتوں کو نکاح کا معاہدہ توڑنے کا یک طرفہ اختیار نہیں ہے۔
جبکہ کیرالہ ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ اگر شوہر راضی نہ بھی ہو تو
عورتیں خلع لے سکتی ہیں ۔
قرآن میں طلاق کا جو طریقہ
بتایا گیا ہے وہ تین طلاق کے تصور کےمنافی ہے۔اس کے علاوہ سورہ النساء آیت نمبر
128 میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر عورت کو شوہر سے بدسلوکی اور بے التفاتی کا خوف ہو تو
دونوں آپسی رضامندی سے امن کا معاہدہ کرسکتے ہیں۔ اس کا یہ مفہوم۔لیا جاسکتا ہے کہ
اگر بیوی کو شوہر کے ظلم و ستم اور نظر انداز کئے جانے کا خوف ہو تو دونوں پر امن معاہدے
کے تحت الگ ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں اگرچہ تین طلاق
قانوناً جرم نہیں ہے لیکن وہاں طلاق دینا,اتنا آسان نہیں ہے جتنا ہندوستان میں ہے کیونکہ
وہاں زبانی طلاق کو قانونی منظوری حاصل نہیں ہے۔ پھر بھی وہاں خلع کے بڑھتے واقعات
مسئلے پر سنجیدگی سے غور وفکر کے متقاضی ہیں۔۔
پاکستان کے صوبہ سندھ میں
خلع کے واقعات بہت زیادہ ہورہے ہیں۔گزشتہ تین برسوں میں وہاں خلع کے معاملات میں تیس
فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ دوسرے صوبوں کا
حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ خلع کے بڑھتے معاملات کے پیچھے چار شادیوں کا رواج ، شوہر
کا منشیات کا عادی ہونا، شوہر کی طرف سے ظلم و اذیت اور ذلت آمیز,سلوک ہے۔ چونکہ پاکستان
میں اسلامی شریعت کے تحت چار شادیوں کی اجازت ہے اس لئے مرد اکثر شوقیہ طور پر دوسری
تیسری اور چوتھی شادی کر لیتے ہیں ۔ وہاں کے چند, دینی علما ء بھی ایک سے زیادہ شادیوں
کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔پاکستان کے ایک معروف عالم دین مولانا طارق مسعود سوشل۔میڈیا
پر اپنی تین بیویاں کا ذکر فخر سے کرتے ہیں۔ لیکن علماء چار شادیوں کے لئے قرآن کے
ذریعہ لگائی ہوئی مساوات کی شرط کا,ذکر نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اکثر نوجوان
دوسری شادی کر لیتے ہیں اور پہلی بیوی کو بے سیارا چھوڑدیتے ہیں ۔اس لئے پہلی بیوی
کو خلع کی عرضی دینی ہوتی ہے۔
پاکستان میں منشیات آسانی
سے دستیاب ہے اس لئے نوجوان اس کے شکار ہوتے ہیں۔ ڈرگس کی وجہ سے بھی بہت سی شادیاں
ٹوٹتی ہیں اور بیویوں کو خلع لینا پڑتا ہے۔
لاہور میں ایک عورت کی سات
بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ اس کی اپنے شوہر سے علحدگی ہو چکی ہے کیونکہ شوہر کام نہیں
کرتا تھا۔وہ عورت رات کو اپنی بیٹیوں کے ساتھ کوڑا گاڑی لیکر نکلتی ہے اور مکانوں کے
باہر جمع کوڑا اکٹھا کرکے پھینک آتی ہے۔ اس کے بدلے اسے اہل۔مکان سے کچھ روپئے مل جاتے
ہیں۔اس کام۔کی وجہ سے اس نے اپنی بیٹیوں کی تعلیم رکوادی ہے۔
کراچی کا ایک نوجوان شادی
کے دو ماہ بعد ملازمت کے سلسلے میں لاہور گیا اور وہاں اس نے دوسری شادی کرلی۔ اس نے
دھیرے دھیرے اپنی پہلی بیوی سے فون پر بات کرنا کم کردیا اور پھر بالکل ہی رابطہ ختم۔کردیا۔
اور اسے روپئے بھیجنا بھی بند کردیا۔مجبور ہو کر پہلی بیوی کو خلع کی عرضی دینی پڑی۔
قرآن ایسی دوسری شادی کی حمایت نہیں کرتا جس میں دونوں بیویوں میں مساوات کا سلوک نہ
ہو۔
طلاق ہو یا خلع دونوں کے معاملات
کی حوصلہ افزائی قرآن اور حدیث نہیں کرتے۔ یہ اسلامی معاشرے میں غیر اسلامی طرز,عمل
اور طرز فکر کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں۔ایک پیچیدہ شہری نظام۔زندگی میں عورتوں اور
مردوں کے تعلقات پر بہت سارے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہذا، ازدواجی تعلقات کو مستحکم
بنانے کے لئے فریقین کو صبروتحمل اور احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ دینی تنظیموں
اور علماء و فقہا کو اس معاملے میں بے لچک رویہ اپنانے کے بجائے جدید دور کے حالات
کے پیش نظر عوام۔میں حقوق و فرائض کے تئیں بیداری لانی ہوگی اورحکومتوں کو بھی معاشی
اور سماجی ناہمواریوں کو دور کرنے کے لئے مؤثر اقدام کرنے ہونگے۔
----------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism