اناس یونس، نیو ایج اسلام
6 جون 2013
جب ایک مرد ایک عورت کے لئے دروازے کھولتا ہے، یا اس کا بوجھ اٹھاتا ہے ، یا انہیں نان و نفقہ فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے انہیں گھر سے باہر کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، حقوق نسواں کے حامی اسے جنسیت کہتے ہیں، ہم اسے اول العزمی کہتے ہیں۔ حقوق نسواں کے حامی اسے شفقت کہتے ہیں، ہم اسے ملاعبت کہتے ہیں۔ حقوق نسواں کے حامی اسے ظلم و جبر کہتے ہیں ، ہم اسے رومانس کہتے ہیں۔ مسلم دنیا میں، ایک معمولی خیر خواہ جنسیت شہوانی ہو سکتی ہے۔
اسلام ایک عورت کی فطرت اس طرح بیان کرتا ہے کہ وہ شفاف اور معصوم ہے اور تحفظ کی حاجت مند ہے ۔ حقیقت کے مزید منور نقطہ نظر کو محفوظ کرنے کے لئے خواتین کو بنیاد سمجھا جا تا ہے ۔ اسلام میں خواتین کو یہ قبول کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ وہ جسمانی طور پر ناقص ہیں کیوں کہ اسلام نے انہیں ایک مراعات یافتہ طبقے کی حیثیت عطا کر کے ایک سماجی فائدے میں تبدیل کر دیا ہے۔ لیکن یہ ایک سماجی معاہدے کا حصہ ہے جسے مسلم خواتین نے روایتی طور پر قبول کر لیا ہے۔
اسلامی جنسیت کی کشش یہ ہے کہ یہ اختیاری ہے، اسلام میں ایسا کچھ نہیں ہے جو اندھی ماتحتی کو ایمان کا ایک لازمی جز قرار دیتا ہو ۔ اور مسلم نظام جو مطالبہ کر سکتا ہے اس کے برعکس، نقاب پوش ہونا اور علیحدگی اختیار کرنا خود نہ تو لازمی ہے اور نہ روایتی طور پر اسلامی ہے۔ اسلامی طبعیت کی ساخت ایسی ہے جو عورتوں کو پوری آزادی دیتی ہے جیسا کہ تحفظ کی آزادی میں ۔ یہ خوش اخلاقی کے ساتھ مردوں کی اطاعت کی سفارش کرتی ہے جس سے ہم بلا شک و شبہ محبت بھی کرتے ہیں اور اس کا تحفظ بھی چاہتے ہیں ۔
انتہائی صاحب نظر مسلم خواتین قطعی طور پر آزاد ہونے کے طور پر جنسیت کی اس صورت کا دفاع کرتی ہیں۔ یقیناً منطق اس کے مخالف ہو سکتی ہے ۔ اس لئے کہ اگر ایک عورت کو ایک فطری حقیقت کے طور پر اس کے حیاتیاتی نقص کو اپنانے مشورہ دیا جاتا ہے، تو کیا اسے وہی سماجی نوازش مردوں پر نہیں کرنی چاہئے جس کے لئے اسی منطق کے مطابق حیاتیاتی اعتبار سے اپنی جنسی تحریک میں کسی ممانعت کا سامنا کئے بغیر عمل کرنا مقدر ہو چکا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ خواتین کمزور جنس ہوں، لیکن ہمیں بتایا گیا ہے کہ جب شہوانیت کی بات ہو تو مرد کمزور جنس ہیں۔ اور چونکہ خواتین کو یہ یقین کرنا ہی ہے کہ مردوں کو عورتوں کے ذریعہ سماجی بنایا گیا ہے ، اس کی طرف سے تجاوز اور اس کی ناکامی ہو جاتا ہے۔ اگر چہ یہ واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے، لیکن ضمنی طور پر ریہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر مرد بد سلوکی کرتا ہے تو ہمارے معاشرے میں غلطی خواتین میں ہی نکالی جاتی ہے ، جن کا کردار اس حقیقت پر تصویر کو برقرار رکھنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خیر خواہ جنسیت صرف اسی وقت تک جنسی ہے جب تک ہماری بد خواہ سیاست ہمارے مردوں کو اتنا مفلوج کر دے کہ وہ نظام معاشرت صرف ان کی مذکر پناہ گاہ ہو ۔ لیکن مسلم دنیا میں جب رویویے زیادہ سے زیادہ آزادی کے حق میں منتقل ہو رہے ہیں، جب خواتین کی آزادی بات آتی ہے تو وہ مخالف سمت میں اپنا رویہ منتقل کرتے ہیں۔ سابق صورت حال کو برقرار رکھنے کے لئے آخری کوشش میں، مسلم دنیا میں اس خیر خواہ جنسیت نے ایک نئے انحراف- اعتدال پسند زن بیزار مسلم، کو جنم دیا ہے۔
جب میں مسلم زن بیزاری کے بارے میں بات کرتی ہوں ، تو میں خواتین کے خلاف طالبانی طرز کے تشدد کی بات نہیں کرتی ۔ زن بیزاری ان فضائل کی وضاحت کرنے کی ایک انتہائی معتدل اصطلاح ہے۔ زن بیزاری ایک نفسیاتی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے خواتین سے انہیں خواتین ہونے کی وجہ سے نفرت کرنا ۔ طالبان اور ان کے ہم نوا ء عورتوں سے نفرت نہیں کرتے وہ ہر چیز سے نفرت ہے۔ وہ اس چیز کا مظہر ہیں جس سے زیادہ مناسب طریقے سے دیگر حملہ آوروں کے ذریعہ نمٹا جاتا ہے اور نفسیات ان اعتدال پسند زن بیزار مسلم کے لئے زیادہ قابل عمل نہیں ہے جو اپنے مروت میں کمی کے ذریعہ اپنے جارحانہ ہم منصبوں کے لئے سکون آور بن چکے ہیں۔
اپنے جارحانہ ہم منصب کی طرح، وہ بھی یہ یقین رکھتا ہے کہ خدا نے اسے ایک عقلی وجود ہونے کے لئے پیدا کیا ہے علاوہ ازیں کہ جب اس کی جنسی صلاحیت کی بات آتی ہے تو وہ مکمل طور پر بے بس ہو جاتا ہے اور فطری طور پر کم سے کم مزاحمت کی راہ کی طرف مائل ہو جا تا ہے۔ اور ایک ایسی دنیا میں گرنے سے خود کو روکنے کے لئے جہاں کمزور خواتین حکومت ہے، عورتوں سے جس درجے کی بھی ان کے پاس عفت و عصمت ہوتی ہے ان تما م کے متقاضی ہوتا ہے، انہیں کیمیائی آختہ کاری کی صورت حال کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔ تمام خواتین کو ان کے وقار کے تحفظ کے فائدے اور ان کے معاشرے کے وقار کے لئے، انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر سر گرم ہونا ہوگا۔ بعض مقامات پر اسے ایسا لفظی سمجھا جاتا ہے کہ تمام خواتین کو قانونی طور پر بالکل ایک ہی طرح کے کپڑوں میں ملبوس ہونا ضروری ہے ۔ دیگر معاشروں میں عورتوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ مکمل طور پرجنسیت سے عاری ہوں۔ قدرتی طور پر صنف نازک کی انتہائی معصوم خوبصورتی کو بہت زیادہ جنسی بنا کر اس کا اثر منفی پڑا ہے۔ ایک عورت قدم بڑھاتی ہے اور اس کی انفرادیت کا اظہار کرتی ہے تو اسے انہیں تشدد کے ساتھ ان کے مقام تک پہنچا دئے جانے کا نقیب سمجھا جاتا ہے۔
ایک اعتدال پسند زن بیزار مسلم ، خواتین کو پاک دامن نہیں سمجھتا ،بلکہ انہیں پاک دامنی میں ناکام اور ایک برائی کے طور پر دیکھتا ہے۔ وہ ان لوگوں کے تئیں خفیہ طور پر ہمدردی جتاتاہے جو عورتوں کے خلاف جارحانہ قدم اٹھاتے ہیں، لیکن وہ بھی سیاسی طور پر درست ہے اور اس بات کی تردید کے ذریعہ پریشان بھی ہے کہ وہ ایسا کیوں محسوس کرتا ہے ۔ لہٰذا وہ اپنے اقدار کے بارے میں اسے اشارہ دینے کے لئے اس کے جذباتی ردعمل پر انحصار کرتا ہے۔
اعتدال پسند زن بیزار مسلم، مذہبی معمولات کے لحاظ سے قدامت پسند نہیں ہیں، اور وہ مقبول ثقافت کو پر زور انداز سے اپناتے ہیں ۔ اس کا اپنے مذہب کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ ہوتا ہے اور سیاست کے ساتھ ایک عسکریت پسند لگاؤ ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسا تعلیم یافتہ انسان ہونا چاہتا ہے جس کے اندر دانش ورانہ شکوہ ہو ، لیکن وہ مذہب کے بارے میں بہت کم جانتا ہے اور وہ یہ جانتا ہے کہ وہ اسلامی نظریات کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتا کیونکہ اس نے ایمان کے ایک جز کے طور پر ان نظریات کے برعکس کو قبول کیا ہے ۔ وہ خواتین کو تعلیم یافتہ کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، لیکن ان کے تحفظ کے نام پر نہیں بلکہ ان کی مالی آزادی کے نام پر ۔ وہ ایک عورت کی حقارت کرتا ہے جس کا اظہار وہ حقہ بار کے مردوں کے مجمع میں کرتا ہے جو کہ ایک ایسی جگہ جہاں عورتوں کو ان کی نیک نامی کی حفاظت کے لئے جو اس سے کہیں زیادہ نظر آتی ہے جو وہ ہے ، دو مرد محافظ کی ضرورت ہوتی ہے ۔
یہ مردوں کی اکثریت والے ان عوامی مقامات کے اندر ہے جہاں اعتدال پسند زن بیزار مسلم ‘جدید دنیا’ کے ایک شکار کے طور پراپنی مصیبت پر نالاں ہوتے ہیں ۔ بلا شبہ وہ ایسے پرانے پدرانہ نظام کا رونا روتے ہیں جہاں وہ کوئی غلطی نہیں کر سکتے ۔ لیاقت پر کھرے اترنے کے لئے ، ایک آزاد بازار میں خیالات کی دنیا میں ارمانی سوٹ میں ملبوس ایک اعتدال پسند مسلمان کے لئے ایک تنزلی ہے۔ یہ ایک ایسے تخت سے ایک قدم تنزلی ہے جہاں مثالی ستون صرف ایک پائدان ہے۔ انہوں نے پہلے ہی اپنی آرام گاہ ایسی جگہ میں چنی ہے جہاں سیاسی طور پر کچھ بھی نہیں کام کرتا، اور اس نےخود کی تقرری ایک آمر کے طور پر کی ہے اور خدا کو اپنے محافظ کے طور پر چنا ہے ۔ وہ ایسے وقت کے بارے میں یاد کر کے اداس ہوتے ہیں جب عورتیں خود پر منحصر تھیں اس لئے کہ وہ انہیں ضبط ذاتی سمجھتے تھے اور یہ کہ فرما برداری ، سماجی ذمہ داری اور مذہبی شرف ہے ۔
وہ ان عورتوں میں اختلاط باہمی کی حوصلہ افزائی کرتا جن سے وہ ملتا ہے اس لئے کہ اسے جنسی طور پر ایک معصوم عورت کی تجرید کو تباہ کرنے کی ضرورت ہے ، اس کی دیکھ بھال کرنے والے ، عاشق اور محافظ کے طور پر اپنی ناکامی سے خود کو نجات دلانے کےایک طریقے کے طور پر ۔ وہ ایسی خواتین چاہتا ہے جو اس کے جسم کے لئے ، ایک ایسی علامت کے طور پر اس کی خواہش کی تعبیر کرے کہ آخر کار اسےایک جنسی وجود کے طور پرتسلیم کیا جا رہا ہے، اور ایک راہب کے طور پر نہیں جس کا وجود روحانی امکانات کے اس کے احساس کو محفوذ کرنے کے لئے ہے ۔ وہ اس کے بچوں کی ماں کے تئیں نامرد ہو جاتا ہے، وہ سب سے غلیظ عورت کے قریب محسوس کرتا ہے، جو اس کے دماغ میں ہے ، کیا کوئی ایسی عورت ہے جو اس جیسے کسی کے ساتھ سوئے گی ۔
وہ ایک ایسی دنیا میں پلا بڑھا ہے جہاں اچھا آدمی نہیں جیت سکتا، اور صرف بدترین کو ہی موقع میسر ہوتا ہے۔ اور اس سیاسی حقیقت کو مفلوج محسوس کرتے ہوئے ، وہ اپنے عزائم کو تج دیتا ہے اور محض خود کے بارے میں مثالیت پسند ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ، جو کہ اس کا بالکل بہروپ ہے جو وہ فی الحقیقت بن گیا ہے – ایک بد خو اور جو ہمیشہ وہ رہا ہے ایک خراب انسان۔
ایک جاہل آدمی کی گاؤں کی سیاست، اور ترقی یافتہ دور کے ایک انسان کی روشن خیال سیاست کے درمیان اس مرد کی نا کامی واقع ہوتی ہے جو انسانیت کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے، اس لئے نہیں کہ وہ صنف نازک ہے بلکہ اس لئے کہ اس کے اندر اتنی تانیثیت نہیں ہے کہ وہ اس کے تذکیریت کے مظاہر کو اس سے زیادہ اعلیٰ بنا سکے جتنا کہ در حقیقت وہ ہے۔
بہر حال، اسلام میں خواتین، روحانی طاقت کی علامت کے طور کمزوری کے ڈھونگ کے ذریعہ سماجی معاہدہ کے ان کے حصہ کو مسلسل پورا کر رہی ہیں ۔ لیکن کیا کبھی اس وقت ایسا مناسب عمل واقعی کار گر ہوتا ہے جب کوئی کسی حقیر انسان کے ساتھ نمٹ رہا ہو ؟
شاید یہ خواتین کے حقوق پر بات چیت کو آگے بڑھانے کا وقت ہے، اس غیر متعلق دعوے سے اوپر اٹھ کر کہ اسلام کو انتہا پسندوں کی کے ذریعہ اغوا کیا جا رہا ہے اور اس بات کو تسلیم کرنے کا وقت ہے کہ جنسیت مذہب کا صرف ایک حصہ ہے، اور اعتدال پسند زن بیزار مسلم کے لئے یہ ایک عظیم استدعا ہے ۔
انا س یونس کینساس میں رہائش پذیر ایک فری لانس رایٹر ہیں۔ انہوں نے Muslim Girl Magazine کے لئے لکھا ہے اور ان کی تحریر کو Living Islam Out Loud میں شامل کیا گیا تھا۔ انہوں نے اس مضمون سے نیو ایج اسلام کا تعاون کیا ۔
URL
https://newageislam.com/islam-women-feminism/the-moderate-muslim-misogynist/d/11936
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-moderate-muslim-misogynist-/d/12300